تحریر : شہزاد سلیم عباسی ڈان لیکس میں اڑھائی، بڑی غلطیاں ہوئیں۔ پہلی سنگین غلطی۔ خبر کو فیڈ کس نے کیا، سورس کیا تھا ،خبر سے اکھاڑا کیسے بنا ؟ فورم کس نے مہیا کیا؟ خبر کا مقصد توخبریت ہے تماشا لگانے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنا نہیں!اور مقاصد کیا تھے ؟۔دوسری بڑی غلطی۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے ہوئی جس نے جھٹ سے اس خبر کو ڈان اخبار کے ایڈیٹوریل سے نکال کر انٹرنیٹ ، ٹی وی ،سوشل میڈیا، پاکستان اور پھر پوری دنیا تک پہنچا کر زبان زد عام بھی کرایا اور کچھ زیادہ بڑھا چڑھا کر ” ٹرائل نیوز ” بھی بنا دیا!حالانکہ اس خبر کو تحقیقاتی مراحل سے گزار نا ضروری تھا کہ ہوسکتا ہے ڈان لیک میں کوئی صداقت نہ ہو؟اور شہباز شریف نے سول ملٹری تنائو کی بات نہ کی ہو ؟۔محققین اور مدبرین کا کہنا ہے کہ اس ایشو کو ملکی سلامتی سے جوڑنا قطعاََ نامناسب ہے کیوں کہ ایسے بیانات تو آئے روز تقریبا ہر ٹی وی چینل پر بیٹھے مہمان اور میزبان کرتے رہتے ہیں جو کہ اخلاقی و تکنیکی حوالے سے غلط ہے لیکن اسے ملک وقوم کی عزت وناموس سے نتھی کرنا اور اپنی انا ء کا مسئلہ بنانا نہایت ہی قبیح فعل ہے جس کا مقصد طوعاََ یا کرھاََ تمام اہم مسائل سے توجہ ہٹانا ہے۔
تیسری غلطی ۔ آدھی غلطی ڈان اخبارکی اپنی ہے کہ ڈان کی ”خبر” میں مسالہ تھوڑا تیزتھا یعنی مبالغہ آرائی سے کام لیاگیا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ ڈان کے مرتکبین تو اصل میں پس پردہ ہیں اوروہ کسی بھی قسم کی جارحانہ حکمت عملی اور جمہوریت کو سبوتاز کرنے والی ہر آواز کو خاموش کرانے اور لوہے کے دانتو ں سے چبانے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ فریق اول کو سوچنا چاہیے کہ جو دعوی وہ کررہے ہیں کہ اس سے ملک کی سلامتی اور فوج کی ساخت بری طرح متاثر ہوئی ،کیا یہ یہ حقائق ہیں یا منافی طرز عمل؟۔عقل و دانش مندوں کے نزدیک ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ اگر ڈھنڈورا نہ پیٹا جاتا تو شاید اتنی بدنامی نہ ہوتی جتنی اب روزانہ کی بنیاد پر دنیا کے ہر بڑے اخبار کی شہ سرخی بن کر ہو رہی ہے۔
فریق اول عقل کے گھوڑے اس طرف بھی دوڑائیں کہ اگر فریق دوم یعنی مسلم لیگ (ن) اتنی کمزور ہوتی کہ ایک انکوائری کال یا شٹ اپ ٹویٹ سے پریشر بنا کر کچھ کام نکلوالیے جاتے تو یہ انکی بھول ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سینٹر پرویز رشید ، پھر رائو تحسین اواب ر طارق فاطمی کی قربانیاں کیوں دی جارہی ہیں ؟ یہ فریق دوم کے لیے واضح پیغام ہے کہ ان قربانیوں سے ہی کام چلا لیا جائے۔ حقیقت بر مبنی بات یہ ہے کہ ملک میں سیاسی انارکی اور افراتفری سے گریز کیا جائے کیوں کہ یہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے ۔ویسے بھی داغ دار ماضی میں سیاسی انارکی سے” بصورت ملٹری آمد”جو ملک و قوم کو نقصان ہواہے اسے ساری قوم نے کئی ادوار تک بھگتا ہے جس میں بنگلہ دیش سے لیکر کراچی میں جرنل ضیاء الحق کا کھیل، جرنل مشرف کا لال مسجد آپریشن، بھگٹی آپریشن وغیرہ شامل ہیں جو کہ ایسے سنگین واقعات، غلیظ دھبے اور گھنائنے گھائو ہیں جن کے زخم کسی بھی قسم کی دوائی یا منجن سے مندمل نہیں ہو سکتے۔
آپ چاہیے جتنا زو رلگا لیں اور بے چینی و عدم استحکام کی فضاء پیدا کرنے کی ناپاک جسارت کرلیں،لولی لنگڑی اپوزیشن کو باربار پمپ کر کے میڈیا ٹاکس کے ذریعے میاں نواز حکومت کو چلتا کرنے کی باتیں کرلیں،پی ایم ایل (ق) اور مولانا فضل الرحمان کی طرح کشتیاں جلا کر خود کو بڑا پارسا ، صادق و امین اور دانا سمجھ کر عوام کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کے ہزار ہا حربے اپنا لیں،نت نئی چالوں اور ڈھالوں کے مکروفریب سے ملٹری و سول اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کے تارے جناب نواز شریف کو دن میں تارے دیکھانے اور اگلے الیکشن میں جیتنے کے اپنے سہانے و بیگانے خواب پورے کرنے کی تقریریں کرلیں، لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پانامہ لیک اور ڈان لیک جیسے بڑے پاپ ہونے کے باجود بھی اس وقت انتہائی مضبوط و مستحکم پوزیشن میں ہیں،جو پہلے کبھی نہ تھی۔واقفانِ حال کے مطابق اس کی چند بڑی وجوہات ہیں جس کی بدولت نواز حکومت سنگین غلطیوں کے باجود ہر آزمائش میں نہ صرف کامیاب ہوتی ہے بلکہ ہر بار ملک کے ہر ادارے اور ہر طاقت کے خلاف پورے آب و تاب سے گرجنے اور برسنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔
بھارت نواز پالیسی کی بدولت کشمیر میں تقریباََ ہر نواز حکومت میں کشت و خون بپا ہوتا ہے اور رپھر کشمیر کے عوام کے لیے نرمی و اخوت کے چند بول جاری کر کے نہ صرف خوب داد وتحسین ملتی ہے بلکہ کشمیر جیسے خوبصورت کاز کو اپنی حکومت کے بچائو اور ذاتی بزنس کے پھیلائو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔یہ معصوم شکل و صورت لیکر الیکشن کے دنوں میں زمین و آسمان کے قلاوے ملاکرووٹ ہتھانے اورپھر الیکشن جیت کر پل ،سڑکیں اور بزنس پراجیکٹ شروع کرا کر اپنا کمیشن بنانے کے گر اور فن خوب جانتے ہیں۔سیانے کہتے ہیں کہ کسی نے بے ایمانی ، بے مروتی پاکستانیوں کا خون نچوڑنے کا طریقہ سیکھنا ہو تو اکثیر ترین نسخے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی کور کمیٹی سے رابطہ کرے۔ انکی کامیابی کی تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ پنجاب سے جیت جاتے ہیں جو کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے ۔اور پنجاب سے جیتنے کا کارن یہ ہے کہ پنجاب میں انتہائی غرب وافلاس، پسماندگی اور جہالت ہے جس کی بدولت عوام بیچارے سادہ لوح ہیں، وڈیرہ شاہی کی وجہ سے مظلوم اوربنیادی ضروریات سے نہ صرف محروم ہیں بلکہ نابلد ہیں اور بس غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ حاضر وقت میں میاں نوازشریف کاپانامہ اور ڈان لیک کے تناظر میں اپوزیشن و دیگر اداروں سے نمٹنے کے لیے کے لیے شہباز شریف، چوہدری نثار اور اسحاق ڈار کی شکل میں” ٹرائیکا ٹیم” تشکیل دینا اس بات کی غماض ہے کہ نواز لیگ ہر صورت اپنا جارحانہ دفاع کرے گی۔
لہذا اب ہر قسم کی ڈرٹی پالیٹکس اور ذاتیات سے آگے آکر تمام اسٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ وہ آگے آئیں اور اور ملکی و عوامی مسائل کے حل کے ایسا جامع مانع مسودہ ڈرافٹ کرائیں جس کی ایک ایک شق کو پاکستان کے ہر ادارے کے سامنے سے گزارا جائے اور بتایا جائے کہ جو ہو گیا وہ ہوگیا اب اس کے بعد جو غلطی کرے گا وہ سزاپائے گا چاہیے وہ کوئی بھی ادارہ یا کوئی طاقت ور فرد ہو ، کوئی مافوق القانون یا مقد س گائے نہیں ہوئی گی ، جج ، جرنلسٹ، اور جرنل بھی ایک عامی کی طرح عدالت کے روبرو کھڑے ہو کر اپنے حق یا خلاف فیصلے کا انتظار کریں گے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو ہم صدیوں گزرنے کے باوجود بھی غلام ابن غلام رہیں گے۔ حالات متقاضی ہیں کہ ملک کو لیکس سے نکال کر ریفارمز کی راہ پر گامزن کریں اور دشمن کے پروپیگنڈے اور حیلوں کا حصہ مت بنیں۔ جس دن ملک میں انصاف کا بول بالا ہوگیا اس دن مسئلہ کشمیر، ڈیم ، بھارت ایل او سی کشیدگی، دہشت گردی ، جہالت، موذی امراض، بے روزگاری اور ایسے ہزاروں بڑے مسائل سے ہم باخوبی نبرد آزما ہو سکیں گے۔ہمیں اب من حیث القوم پلوں، سڑکوں، نالوں، نوکریوں اور ذاتی مفادات کے لیے ووٹ دینے پر نظرثانی کر کے ملک کے وسیع تر مفاد میں ووٹ دینا ہوگا تبھی جا کر ہم قائد کے فرامین اور اقبال کے خواب کی عملی روح کی تصویر بن سکیں گے۔