تحریر : سید توقیر زیدی معاشرے میں رہتے اور خصوصاً سیاسی میدان عمل میں ہوتے ہوئے بہتر عمل یہ ہوتا ہے کہ بولنے سے پہلے نتائج و عواقب پر پوری طرح غور کرلیا جائے اور پھربھی اگر کوئی سہو ہو جائے تو اس کے لئے بہتر طریقے سے معذرت یا وضاحت کرلی جائے، پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ خود بھی ماشاء اللہ وکیل ہیں اور دلائل کے عادی ہیں۔
وکیل ہی کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ایک ہی وقوعہ کے دو فریق باری باری وکیل صاحب کے پاس آئیں اور ان سے مقدمہ لڑنے کی درخواست کریں تو وہ اتنے اہل ہوتے ہیں کہ ہر دو کے حق میں دلائل دے سکیں، یہ نہیں کہ مقدمہ موکل ہی ہار ے، رانا ثناء اللہ نے جس وقت فوجی عدالتوں کی کارکردگی پر اپنی رائے کا اظہار کیا کہ فوجی عدالتوں کی کارکردگی بھی مثالی نہیں تھی تو اس وقت سرکاری رخ عدالتوں کے قیام میں توسیع کے مخالف تھا، حتیٰ کہ وزیر داخلہ نے بھی بڑے محتاط انداز میں کہہ دیا تھا کہ توسیع کا فیصلہ نہیں ہوا۔
یوں بھی اگر ایسی سوچ پہلے ہوتی کہ فوجی عدالتیں ہو نا چاہئیں تو توسیع کے لئے تاخیر کرنے کی بجائے دو سال مکمل ہونے سے پہلے تیاری اور کوشش کی جاتی اس لئے رانا ثناء اللہ نے جب پہلا تاثر دیا تو اس وقت تک یہی صورت حال تھی جو بعد میں تبدیل ہوئی اور فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے کوشش شروع ہوگئی، اس پر رانا ثناء اللہ کو بھی اپنے موقف پر نظر ثانی کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے وضاحتوں کا سلسلہ شروع کردیا اور اس سے کام خراب ہوا، ہمارے میڈیا کو نیا ایشو مل گیا، اب انہوں نے فرمایا کہ فوجی عدالتوں نے اچھا کام کیا لیکن سول عدالتوں کوبھی تومضبوط ہونا چاہئے، یہ نظام بھی بہتر ہو۔
میڈیا کے لئے اب یہ ایشو بن گیا ہے ویسے رانا محترم کو یہ تو سوچ لینا چاہئے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) 2008ء سے برسر اقتدار ہے اور اب اسے نو سال ہو چلے ہیں، تو اس پورے عرصہ میں سول نظام کیوں بہتر نہیں ہوا، اور اسے کس نے کرنا تھا، اس کے لئے آسمان سے فرشتے تو نہیں اترنا تھے، اب وہ وضاحتیں کرتے ہوئے مزید الجھتے چلے جارہے ہیں اور ان کی پچھلی باتیں اور واقعات بھی سامنے لائے جارہے ہیں، کیا وہ یہ بتائیں گے کہ گزشتہ نو سال میں ان کی حکومت نے سول نظام عدل کو مضبوط ، فعال اور انصاف دینے والا بنانے میں کردار ادا کیا ہے، بہتر اب بھی یہی ہے کہ وہ یا تو زبان پھسلنے کا اعتراف کرلیں یا پھر واضح طور پر کہیں کہ وہ ان کی ذاتی رائے تھی۔
Military Courts
رانا ثناء اللہ کے اس عمل کو دیکھتے ہوئے ہی یہ کہا جاتا ہے کہ موجودہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت اور سر براہوں کے اپنے رویے میں کوئی فرق نہیں آیا اور وہ کسی معاملے کو لٹکا کر اسے آنکھوں سے اوجھل رکھنا چاہتے ہیں ورنہ دکھی دنیا پیچھے پیچھے پھرتی ہے جہاں تک فوجی عدالتوں کا تعلق ہے تو آئی، ایس، پی، آر کی طرف سے وضاحت کی گئی کہ فوجی عدالتوں نے ایک سو سے زیادہ مجرموں کو موت کی سزا دی۔
عمل صرف بارہ پر ہوا، چنانچہ یہ قصور تو سول انتظامہ کا نکلا جس نے اپنی مصلحتوں کے تحت ابھی تک سزاؤں پر عمل درآمد نہیں کرایا، فی الحال تو عمومی رائے یہی ہے کہ فوجی عدالتوں کو کام کرتے رہنا چاہئے، اس لئے قومی سطح پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے ، اس کے مطابق مناسب طریقے سے اس مسئلہ کو حل کرنا چاہئے، سول عدالتوں میں خواہ وہ خصوصی عدالتیں ہیں مقدمات کے فیصلوں میں بہت تاخیر ہوتی ہے اور پھر فوجی عدالتوں نے سزا سنا کر اپنا فرض تو پورا کیا اب ان سزاؤں پر عمل درآمد متعلقہ صوبائی حکومتوں کاکام ہے جن کے دائرہ کار میں جرائم ہوئے ہوں، اسے ایسا مسئلہ نہ بنایا جائے کہ عسکری اور سیاسی قوتوں کے درمیان کوئی غلط فہمی پیدا ہو، عسکری نقطہ نظر سامنے آ چکا ہے۔
دوسرا مسئلہ ڈان کی خبر والا ہے جس کی تحقیق کے لئے کمیٹی بنائی گئی، کمیٹی کی میعاد میں تو سیع کردی گئی ابھی تک تحقیقات آخری مرحلے میں ہے، متعلقہ صحافی کا بیان بھی قلمبند ہو چکا ہے، اس مسئلہ کو لٹکانا نہیں چاہئے اگر اسے یونہی چھوڑنا ہے تو پھر بھی غلط فہمی سے بچنا چاہئے اور عسکری قیادت کو مطمئن کرنا چاہئے، ویسے بھی نئے نئے معاملات سامنے آتے چلے آرہے ہیں، پر اسرار طور پر گم ہونے والے بلا گرز کے واقعہ نے تو امریکہ اور برطانیہ کی توجہ مبذول کرالی ہے، حکومت کوبھی اپنا حصہ ڈالنا چاہئے اور گم شدہ لوگ برآمد کئے جائیں، اگر وہ کسی خلاف قانون یا آئین کام میں ملوث ہیں تو ان پر باقاعدہ الزام لگا کر مقدمہ چلا یا جائے چہ جائیکہ وہ پر اسرار طور پر غائب رہیں اور یہ ایشو بنتا رہے۔