شب و روز زندگی قسط 14

JI

JI

تحریر : انجم صحرائی
بات کہاں سے کہاں نکل گئی واپس لو ٹتے ہیں ہیں اپنے مضمون کی جانب پہاڑ پوڑ سے جب میں اور با قر رضوی کوٹ سلطان دفتر جماعت میں پہنچے ملک غلام محمد پہلے سے وہاں مو جود تھے ملک صاحب مجھ سے قدرے خفا تھے ان کا مو قف تھا کہ میں نے اطا عت امیر نہ کر کے تبلیغ کے مسلمہ اصو لوں کی خلاف ورزی کی ہے میں نے سب کو یہ سمجھا نے کی بہت کو شش کی کہ پہاڑ پور میں ہو نے والا واقعہ میرے سا تھ سرا سر زیا د تی تھا نہ صرف مجھے مار پڑی اور بے عزت کیا گیا بلکہ جن دو ستوں نے ہمیں دعوت دہ تھی ان کے سا تھ بھی زیا د تی کی گئی ہے مگر کسی نے میری نہ سنی اور سبھی نے میری بات ما ننے سے انکار کر دیا جس سے مجھے بہت تکلیف پہنچی اور میں نے سو چا کہ جس تنظیم میں کا رکن کا یہ مقام ہو وہاں میرا رہنا مشکل ہے ۔ جما عت سے دوری کا فیصلہ خا صا مشکل تھا مگر میں یہ سب سوچ چکا تھا اور بس مو قع کی تلاش میں تھا کہ میں اپنے اس ارادہ سے اپنے سینئرز کو مطلع کر سکوں ۔ اور یہ مو قع مجھے جلد ہی مل گیا ۔ ہوا یوں کہ چند دنوں کے بعد ملک غلام محمد اعوان کا مجھے پیغام ملا کہ میں لیہ آ ئوں اور ان سے ملا قات کروں ۔ اگلے دن لیہ دفتر جماعت اسلا می میںامیرشہر سے ملا قات ہو ئی جس میں ملک صاحب نے بتایا کہ مر کز سے لیہ کے تین دوستوں کے رکنیت فارم آ ئے ہیں جن میں سے ایک تم ہو دوسرے دو دوست بھا ئی عزیز جن کی ریلوے چوک پرپشا وری چپلوں کی دکان تھی اور احسان للہ محسن ۔ ملک صاحب نے مجھے فارم مکمل کر نے کے لئے کہا تو میں نے یہ کہتے ہو ئے انکار کر دیا کہ پہاڑ پور کے واقعہ نے مجھے خا صا ما یوس کیا ہے میں نہیں چا ہتا کہایسی حالت میں رکنیت حاصل کر وں کہ میرا دل وسووں اور گلے شکووں سے بھرا ہو ایسے میںہو سکتا ہے کہ میں رکنیت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا نہ کر پا ئوں اس لئے فی الحال میں نہ تو رکن بننا چا ہتا ہوں اور نہ ہی میں حلقہ متفقین کوٹ سلطان کے نا ظم کی حیثیت سے ذ مہ داریاں ادا کر نا چا ہتا ہوں ملک صاحب میری یہ بات سن کر بڑے دکھی سے لگے میں بھی دکھی تھا مگر میں فیصلہ کر چکا تھا نظریات اور محبت میں مصلحت اور جھوٹ انسان کا قد چھوٹا کر دیتے ہیں اور میں نہیں چا ہتا تھا کہ میں مصلحت اور جھوٹ کا رنگ جما ئے جماعت کا سیاسی کا رکن کہلا ئوں ۔ سو میں نے جماعت اسلا می سے علیحدگی اختیار کر لی ۔اور راولپنڈی سے شا ئع ہو نے والے میگزین ہفت روزہ دیہات سے وابستہ ہو گیا۔

جماعت سے وابستہ دنوں کے نہ بھو لنے والے واقعات میں ایک واقعہ جماعت اسلا می کے رکن اسمبلی ڈاکٹر نذ یر احمد کی شہادت کا ہے ۔ ڈاکٹر نذ یر نائب امیر جماعت پا کستان تھے ۔1970 کے ہو نے والے انتخا بات میں ڈیرہ غازیخان سے ممبر قو می اسمبلی منتخب ہو ئے علا قائی سیاست میں چو ٹی زیریں کے سرداروں اور تو نسہ کے خواجگان کے مقا بلہ میں ایک ہو میو پیتھ ڈاکٹر کی کا میا بی ہماری سیا سی تا ریخ کا ایک بڑا واقعہ ہے۔ ڈاکٹر نذ یر ایک بے باک اور پر جوش مقرر تھے ممبر قو می اسمبلی کی حیثیت سے ایوان میں ڈاکٹر نذ یر حکو مت وقت کو ہمیشہ ٹف ٹائم دیتے کہا جا تا ہے کہا جا تا ہے کہ اس زما نے میں وہ سب سے زیادہ با خبر افراد میں سے ایک تھے۔ اپنی شہادت سے چند قبل لیہ میں ایک جلہ عام سے خطاب کر نے آ ئے ، جما عت اسلا می کی طرف سے جلسہ عام کا اہتمام جناح پارک میں کیا گیا تھا ۔اس وقت کے ناظم اسلا می جمیعت الطلبہ پا کستان ظفر جمال بلوچ بھی اس جلسہ میں مہمان مقرر تھے ۔ ڈاکٹر نذیر کا فی لیٹ جلسہ میں آ ئے پتہ چلا کہ راستے میں ڈاکٹر نذیر کی جیپ خراب ہو گئی تھی جس کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب لیٹ ہو گئے تھیمیں نے پہلی دفعہ اس جلسہ عام میں داکٹر شہید کو سنا ۔ مجھے ڈاکٹر نذیر کے یہ الفا ظ یاد ہیں جو انہوں نے کہے تھے کہ بھٹو صاحب اگر زند گی رہی تو میں آ ئندہ جلسے میںآپ کے تا شقند کے تھیلے بلی نکال کر دکھا ئوں گا ۔ شاید لیہ میں ہو نے والا یہ جلسہ ڈاکٹر نذیر کا آ خری جلسہ تھا انہیں چند ہی دنوں بعد6 جون 1972 کے شام کے وقت کلینک پر گو لی مار کر ہلاک کر دیا گیا

اور یہ بات ہے 1976 کی اس وقت میری عمر اکیس برس تھی جب میں نے لیہ میں اپنا پہلا دفتر قائم کیاہوا یوں کہ چوک قصاباں پر علوی سویٹ ہا ئوس کے نام سے ایک مٹھا ئی کی دکان ہوا کرتی تھی دکان کے مالک ایک سادہ پر خلوص اور محبت کرنے والی شخصیت تھے میں ان کا نام بھول رہا ہوں وہ ہمارے پرانے جا ننے والوں میں سے تھے ہم کبھی کبھار منہ میٹھا کر نے ان کی دکان پر جا یا کرتے تھے ان کی دکان کے سا منے ایک چو بارہ تھا میں نے ان سے پوچھا کہ یہ چو بارہ کس کا ہے تو انہوں نے بتا یا کہ یہ دکا نیں اور چو بارہ ڈاکٹر ناظم حسین شا ہ کی ہیں میں ڈاکٹر صاحب کو جا نتا تو تھا اور یہ بھی پتہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب سا ما نہ کے سادات میں سے ہیں سا ما نہ ریا ست پٹیا لہ(اند یا ) کا شہر ہے ہمارے بزرگ بھی سا ما نہ سے ہی ہجرت کر کے پا کستان آ ئے تھے لیکن میری ان سے کبھی ملا قات نہیں ہو ئی تھی ڈاکٹر نا ظم حسین شاہ ایک خوش لباس شخصیت تھے ان کا کلینک با تش مارکیٹ والی گلی میں تھا کلینک کے اوقات مقرر تھے اپنے وقت پر کلینک آ تے اور مقررہ وقت پر چلے جا تے ۔ میں ان سے ملا تعارف کے دوران جب انہیں یہ پتہ چلا کہ میں مو لوی ساحب کاپڑ پو تا ہوں ان کی خوشی اور گرم جو شی دید نی تھی ۔میرے پڑ دادا کا نام مو لوی قلندر بخش تھا وہ اپنے علا قے میں درس و تدریس سے وابستہ تھے قیام پا کستان سے قبل سا ما نے کے اکثر مسلمان نو جوانوں نے مو لوی صاحب سے کسب فیض حا صل کیا ۔ داکٹر ناظم حسین شاہ بھی مو لوی ساحب کے شا گردوں میں سے تھے سو ڈاکٹر صاحب اور مو لوی صاحب کے اس تعلق نے میرا کام آ سان کر دیا اور وہ چو بارہ مجھے کرایہ پر مل گیا ۔ اور یوں میں نے چو بارہ کے باہر سیڑ ھیوں کے اوپر ‘ دیہات ‘ کا ایک چھوٹا سا بورڈ لگا کر اپنی چو پال سجا لی۔

Kot Sultan

Kot Sultan

دفتر کا کرایہ کچھ زیادہ نہیں تھا لیکن جتنا بھی تھا ہما ری بساط سے با ہر تھا کرایہ کی ادا ئیگی میں ہمیشہ ہی دیر ہو تی مگر کیا کمال کی وضعداری تھی کہ ڈا کٹر نے کبھی اپنے استاد زادے کو نہ شرم شار کیا اور نہ نو ٹس دیا کہ نکلو اتنے مہینے ہو گئے ہیں کرایہ نہیں دیا چلو چو بارہ خالی کرو ۔ میں نے چو پال کا لفظ محا ورة استعمال نہیں کیا بلکہ ہمارا وہ چھوٹا سا دفتر واقعی چو پال کی شکل اختیار کر گیا تھوڑی ہی مدت میں ہمارے دوستوں کی تعداد اتنی ہو گئی کہ دفتر کا کمرہ اپنی تنگ دا منی کا شکوہ کر نے لگا ۔ دیہات کے دفتر کے توسط ہمارے دوستوں میں گرانقدر اضا فہ ہوا ان میں شیرخان ،جا وید لو دھی ، افتخار بیگ ،ایوب شیروانی ، حنیف قمر شیرازی ، عبد الرزاق را ہی ، سعید اختر اور بہت سے لوگ شا مل تھے جن کے نام ابھی میرے ذہن میں نہیں آ رہے ۔انہی دنوں کوٹ سلطان کے عا بد فا رو قی بھی سیا ست اور صحا فت میں متحرک تھے کوٹ سلطان میںان کا اور میرا گھر ایک ہی گلی میں تھا اس گلی کی ایک اور انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس گلی سے وا بستہ تین خاندانوں کے بچے پاک آ رمی میں آ فیسر بنے ۔ عا بد فارو قی ڈاکٹر خیال سے خا صے متا ثر تھے وہ جب بھی لیہ آ تے شفقت کرتے اور ہمار ملا قات ہو تی عا بد فاروقی کی زما نہ طا لب علمی سے ہی ایم ایس ایف ( مسلم سٹو ڈنٹس فیڈ ریشن ) سے وا بستگی رہی ۔زما نہ طالب علمی کے بعد مسلم لیگ سے وا بستہ ہو گئے ابھی گذ شتہ دنوں مقامی ریڈیو ایف ایم کے پرو گرام فورم 89 میں میرے مہمان بنے تو بتا یا کہ وہ آج کل مو جودہ ایم این اے سید ثقلین شاہ بخاری کے پو لیٹیکل سیکرٹری کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔

خو بصورت مقرر اور شا عر ہیں ۔ اور نوا ئے وقت سے ان کی وابستگی سالوں پر محیط ہے سیا سی نظر یا تی ہم آ ہنگی نہ ہو نے کے سبب ہمارے سیا سی را ستے ہمیشہ جدا رہے لیکن سما جی سطح پر ہو نے والی تمام سر گر میوں میں ان کا تعاون مجھے حا صل رہا ۔یہاں مجھے ایک اور دوست بھی بہت یاد آ رہے ہیں طارق پرنس ۔ طارق بے روز گار تو نہیں تھے رینجرز میں ملازم تھے مگر تھے بہت ادب شناش تھے لکھتے بھی خوب تھے اور انہیں بو لنا بھی آ تا تھا ۔ بہت شا ندار شخصیت کے مالک تھے وہ بھی جب چھٹی پر لیہ آ تے ہمارت دفتر آ تے اور گھنٹوں علم و دانش اور ادب کی با تیں کرتے ۔ انجمن بے روزگاران پا کستان سے قا ئم ہو نے والی اس چو پال میں آ نے والے ہم سب دو ستوں میں ایک قدر مشتر ک تھی وہ یہ کہ ہم سبھی بے روزگار تھے اس زما نے میں سیا ست دائیں اور با ئیں با زو میں بٹی تھی ایشیا سرخ ہے اور ایشیا سبز ہے کے نعرے تعلیمی اداروں اور سیا سی دھینگا مستیوں میں سننے کو ملتے تھے مگر بے روز گا ری ایک ایسا جن تھا جو کسی کے قا بو نہیں آ رہا تھا چند دوستوں نے را ئے دی کہ ملتے تو ہم روز ہی ہیں دفتر مین آ نا جا نا بھی روز ہی لگا رہتا ہے اسلام ، اشترکیت اور سر ما یہ داری کے مو ضو عات پر بحث و مبا حثہ بھی روز ہی ہو تا ہے کیوں نہ بے روز گا ری کی وجوہات اور خاتمے کی تجا ویز بارے ہوم ورک کیا جا ئے سو دو ستوں کی یہ تجویز ہمیں بہت پسند آ ئی اور ہم نے انجمن بے روز گاران پا کستان کے نام سے ایک تنظیم قا ئم کر کے ایک سٹڈی سر کل قائم کر لیا جس میں بے روز اور بے روزگاری کے مو ضوع پر آ ئے روز سیر حا صل بحث و مبا حثہ ہو نے لگا۔

اس زما نے میں ظفر زیدی بڑے انقلا بی دا نشور تھے انہوں نے نے محنت کش محاذ کے نام سے ایک مزدور تنظیم قا ئم کی ہو ئی تھی ہم نے ان سے ملا قات کی اور انہیں انجمن بے روزگاران کے مقا صد بارے آ گاہ کیا ۔ چو نکہ ہمارا مقصد بے روزگاری کے اصل اسباب کو بے نقاب کر نا اور بے روزگاروں کو منظم کر نا تھا اس لئے انہوں نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم بے روز گار اور بے روزگاری کے مو ضوع پر ایک سیمینار منعقد کرا ئیں اور تمام مکا تب فکر کے نما ئند گان کو اس مو ضوع پر گفتگو کی دعوت دیں تجویز دل کو لگی مگر سر دست ہما رے مالی حالات ایسے نہیں تھے کہ اسے عملی جامہ پہنا یا جا سکتا سو ابتدا ئی سطح پر ہم نے انجمن بے روزگاران پا کستان کے انتخا با ت کرا نے اور منتخب عہد یداران کی حلف برداری کی تقریب کرا نے کا فیصلہ کیا گیا ایک اجلاس میں متفقہ طور پر مجھے صدر اور رزاق راہی ( عبد الرزاق راہی ایڈ وو کیٹ )کو جزل سیکر یرٹری منتخب کر کے طے کیا گیا کہ اسی ہفتے تقریب حلف برداری منعقد کی جا ئے ، پرو گرام کے مطا بق انجمن بے روزگاران پا کستان کے منتخب عہدیداران کی تقریب حلف بر داری شمالی چوک صدر بازار کے ساتھ بنے استرانہ خان ہو ٹل کے سا منے بر لب سڑک منعقد ہو ئی تقریب کے مہمان خصو صی سینئر وکیل شیخ غلام ربا نی ایڈ وو کیٹ تھے اور یہ بات ہے 1976 کی اس وقت میری عمر اکیس برس تھی۔ اس تقریب میں اور سے بہت سے معززین شہر نے بھی شر کت کی ہمارے لیئے حو صلہ افزا ئی کی بات یہ تھی کہ اس تقریب میں شہر کے بہت سے بے روزگار افراد کثیر تعداد میں شر یک ہو ئے پہلی تقریب کی کا میا بی نے ہمارے حو صلے دو چند کر دیئے اور ہم سبھی دو ستوں نے تنظیم کو متحرک اور فعال بنا نے کے لئے دن رات جدو جہد کی ہماری شب و روز کی محنت کے سبب علا قا ئی سیا سی پرو ہت بھی ہماری جا نب متوجہ ہو ئے مگر انجمن بے روزگاران کے سبھی متحرک دوست ایک بات پے متفق تھے کہ ہم نے کسی سیا سی ابو الہلول کے لئے استعمال نہیں ہو نا ۔سو ہم نے نہ کسی سیا سی جماعت کا دفتر کھٹکھٹا یا اور نہ ہی کسی ڈیرے پہ حاضری دی ۔باقی اگلی قسط میں

Anjum Sehrai

Anjum Sehrai

تحریر : انجم صحرائی