تحریر : حفیظ خٹک وطن عزیز پاکستان کے 70ویں یوم آزادی کو جس انداز میں عوام نے ملک میں اور اس کے ساتھ عالمی سطح منایا گیا وہ تاریخ میں ہمیشہ سنہرے الفاظ کی زینت بنے گا ۔ پاکستان میں اور پاکستان سے باہر،دنیا کے کسی بھی حصے میں ہم وطنوں نے اپنے طور پراس دن پرجوش چہروںکے ساتھ اپنے جذبوںکی عکاسی کرتے رہے۔ کہیں ملی نغموں پر رقص کر کے، کہیںملی نغمے سن اور سناکرتوکسی جگہ پر کیک کے گرد جمع تنہا واجتماع بناکر، سپہ سالار کی طرح رحمت خداوندی میں عظیم ملک کا عظیم پرچم دشمنوںکے ساتھ واقع سرحدوںپربلندکرکے اورکہیں مدرسے،اسکول، کالج ویونیورسٹی میںجمع ہوکربلندوبانگ نعروںکے ساتھ قومی ترانہ پڑھ کراوراس کے ساتھ ایسے بھی کہ تنہا ساحل سمندر پراوراسکے ساتھ کسی اونچی پہاڑی چوٹی پرآسمان کو دیکھتے اوراپنے ہاتھوںکو پھیلاتے ہوئے توکہیں کسی مسجد میں سجدوںکی صورت میںآنکھوںکونم کرتے ہوئے اس ملک کی اصل مقاصد حصول کو پورا کرنے کا عزم، اندرونی و بیرونی دشمنوں سے جانفشانی کے ساتھ نبردآزما ہونے کا پرعزم عہدوپیمان اوراسی کے ساتھ اپنے اہداف کے حصول کیلئے سایہ خدائے ذوالجلال کررہے تھے۔ 20کڑور سے زائد عوام نے یکجا ہوکر دنیا میں موجود تمام دشمنوں وطن عزیز کے سپہ سالار کے ان الفاظ کی صورت میں یہ بتادیا کہ تمہاری گولیاں ختم ہوجائیںگی مگر ہمارے جوانوںکے سینے ختم نہیں ہونگے۔ ہاں ہم قابل فخر پاکستانی ہیںاورہم واحداسلامی ایٹمی قوت ہونے کے ساتھ اک زندہ قوم ہیں۔ تمام ٹی وی چینلزپروہ تقاریب بھی دیکھائیںگئیںکہ جن میں غیرملکی دوست اپنے انداز میں یوم آزادی پروطن عزیزکوخراج تحسین پیش کررہے تھے۔
کہیں پر انگریز توکہیں پر چینی، کہیں پر ترقی توکہیں پر آذر بائیجانی، کہیں جاپانی توکہیں پر آسٹریلوی وکینیڈین غرض سب کے سب اس پاکستان کی یوم آزادی کو اس انداز میں منارہے تھے کہ جیسے یہ کسی ایک قوم کا اک نسل کا ملک نہیں بلکہ یہ سبھی کا ملک ہے اور پسندیدہ ترین ملک ہے۔ دل دل پاکستان تو کہیں پر جان جان پاکستان اورکہیں پر جیوے جیوے پاکستان توکہیں پر یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبان اسکے بس جذبات واحساسات تھے کہ جو ناقابل بیاں ہیں۔ اسی بات کی ترجمانی نیٹ کی دنیامیںگوگل تک اس طرح سے کی کہ گوگل کو پاکستان کے جھنڈے سے مزین کرکے پیش کیا۔ خانہ کعبہ کے سامنے سربسجود لوگوںکا ذکر جذباتی آواز میںکرتے دوست احباب تھے کہ جو بتا نہیں پارہے تھے کہ اس مقدس ترین جگہ پر پاکستان، پاکستان اور پاکستان ہورہا ہے۔
اس یوم آزادی کودیکھ کردشمنان ملک کی انگلیاں انکے منہ میں چلی گئیں ہیں۔ عوام کو انکے جذبات کو دیکھ کرانہیں کچھ نہیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ پاکستانی عوام نے ان کوبتا دیا ہے کہ کشمیرہمارا تھا ہمارا ہے اور ہمارا رہے گا اسی طرح سے ہر سازش کا خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں بنائی اور منائی جارہی ہواس کا پرجوش انداز میں نہ صرف مقابلہ کیا جائے گا بلکہ ایسے منصوبے بنانے والوں تک نیست ونابودکردیا جائے گا۔
یوم آزادی کے موقع پرراقم نے اک سروے کیا جس میں تین سوالات سوشل میڈیا اور اس کے ساتھ ایس ایم ایس وبالمشافہ انداز میں کرکے عوامی آراءمعلوم کی گئیں۔ اک محتاط اندازے کے مطابق ایک ہزار سے زائد افراد سے رابطہ کرکے جوابات کا حصول کیا گیا تاہم یہ نقطہ قابل اعتراض ہے کہ اکثریت نے اس حوالے خاموشی کا اظہار کیا۔ 20فیصد نے اپنے خیالات اور پرعزم جذبات کا نہ اظہار کیا بلکہ اپنے مقاصد کوحاصل کرنے کیلئے عہد تک کیا۔ سروئے کے سوالات کی ترتیب کچھ اس طرح سے تھی ۔
سوال نمبر1: تحریک آزادی کے رہنماﺅں میں آپ کا پسندیدہ رہنما کون ہے؟ سوال نمبر2 :آپ وطن عزیز پاکستان کیلئے مستقبل میں کیا کرنا چاہتے ہیں، کوئی ایک کام بتائیں؟ سوال نمبر3 : یوم آزادی کے موقع پرآپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب کیلئے انہیں واٹس اپ نمبر، فیس بک اور موبائل نمبر دیئے گئے اس کے ساتھ جن سے بالمشافہ ملاقاتیں ہوئیں ان سے براہ راست جواب لئے اور نوٹ کئے گئے۔ فیس بک، واٹس اپ اور ایس ایم ایس کے ذریعے جواب کی تعداد قابل حیرت حد تک کم رہی جبکہ براہ راست جوابات میں بعض ہم وطنوں نے ہچکچاہٹ کامظاہرہ، بعض نے حیرت و ساتھ مسرت کا بھی اظہار کیا۔ راقم کو یہ جان کر تشنگی سی محسوس ہوتی رہی تاہم عام انتخابات میں مجموعی ووٹوں کی شرح سمیت ڈلنے والے ووٹ کے تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ واضح ہوگیا کہ بحیثیت مجموعی ہماری عوام جذباتی ہونے کے ساتھ ہی اپنے خیالات و عزائم کا اظہار بھی اسی طرح کرتی ہے۔
پہلے سوال پرآنے والے جوابات میں اکثریت کے پسندیدہ رہنما بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح تھے، ان کے بعد علامہ اقبال کا نام آیا اور ان کے ساتھ ہی فاطمہ جناح کا نام بھی لیا گیا۔ علامہ اقبال کا نام لینے والوں کا یہ کہناتھا کہ پاکستان کا خواب تو انہوںنے ہی دیکھا تھا اس لئے وہی ان کے پسندیدہ رہنما ہیں۔ اپنی بات کواس شعر کے ذریعے بھی واضح کیا
تجھے اقبال سے الفت ہے توتلوار اٹھا قبر پہ پھول چڑھانا تو کوئی بات نہیں ۔۔۔۔
بعض ہم وطنوں نے سید ابواعلی مودودی تک کو تحریک آزادی کے رہنماﺅں میں اپنا پسندیدہ رہنما قراردیا۔ انہیں یہ بتانے پرکہ انہوںنے تو ابتدا ءمیں پاکستان کی مخالفت کی تھی تو اس بات پر ان کے جوابات قابل تعریف تھے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد جس طرح سے انہوں نے اور ان کی پوری جماعت نے اس وطن عزیز کی حفاظت کی اسے ذہن نشین رکھاجانا چاہئے۔ ابواعلی مودودی کی تفہیم القران کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے دیگر لاتعداد تحریروں کا ذکرکیا۔ بہرحال سروئے میں پہلے سوال کے جواب میں اکثریت کی رائے میں قائد اعظم ہی ان کے پسندیدہ رہنما تھے۔
دوسرے سوال کے جواب عوام میں سے کم ہی افراد نے کسی ایک کام کا ذکرکیا یہاں بھی اکثریت کی رائے یہی تھی کہ وہ مستقبل میں وطن عزیز کیلئے ایک نہیں بلکہ لاتعداد کام کرنا چاہتے ہیں۔ کسی نے تعلیمی نظام کی بات کی، کسی نے سستا اور تیز انصاف کی فراہمی کی، کسی نے غربت خاتمے کی، تو کسی حقیقی آزادی کی قدر کے متعلق آگاہی کی، کچھ نے اردو کے عملی نفاذ کی۔ کچھ نے ذرائع ابلاغ کی درستگی کی توکچھ نے کشمیر سمیت دنیا میں جہاں بھی مسلمان مظالم کا شکار ہیں ان کیلئے امداد کی بات کی، کئی ہم وطنوں نے واضح کیا کہ وہ مستقبل میں صرف ان مقاصد پرکام کرینگے جن کیلئے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا، جس کیلئے اس قدر قربانیاں دی گئیں۔ اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کو ہی انہوںنے اپنا پہلا اور آخری کام گردانا۔ سروے میں بچے،بچیاں بھی شامل تھیں ان کے جوابات دوسرے سوال کے حوالے سے یہی تھے کہ وہ استاد، ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، بہترین کھلاڑی بن کے اس ملک کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
سروے میں تیسرے سوال کے جواب میں اکثریت کی قریبا ایک ہی رائے آئی جو کہ کچھ اس طرح سے تھی کہ وہ چاہتے ہیں اس ملک میں اس وقت جو صورتحال ہے اس کے تخت ایسے رہنماﺅں کا چناﺅ ہونا چاہئے جوکہ ایماندار ہوں،اس ملک کیلئے مخلص ہوں۔ووٹ دینا اور ضرور دینا چاہئے اور 5سال کے بعد آنے والے انتخابات میں اپنا حق ضرور استعمال کرنا چاہئے۔ اس ملک کی تعمیر میں قربانیوںکو مدنظر رکھا جانا چاہئے۔ اپنے کاموں کو احسن انداز میں کیا جاناچاہئے۔ بعض کی رائے تھی کہ کرپشن خاتمے میں انہیں کردار ادا کرنا چاہئے۔ اللہ نے جو شعور عطاکیا ہے اسے مثبت انداز میں مثبت سرگرمیوں کیلئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ کچھ ہم وطنوں کا یہ کہنا تھاکہ جھنڈا ہمار امقدس ہے لہذا صرف جھنڈا سینے، گاڑی ، مکان و دکان کی چھت پر لگانے کے ساتھ اس تاریخ کے گذر جانے کے بعد بھی اس کا احترام کیا جانا چاہئے۔ گلی کوچوں میں یہ پرچم گرے ہوئے نظر آتے ہیں لہذا ہم اپنے ہم وطنوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اس جھنڈے کا آپ احترام اس انداز میں کرینگے تو مستقبل میں اسی جھنڈے کو اونچا کرنے کا بھی موقع ملے گا۔ سروے میں اک ہم وطن نے آخری سوال کا جواب آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے قومی ترانہ سناتے ہوئے کیا۔