افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی حکام کے مطابق افغانستان میں ہر چیز غلط سمت میں چل پڑی ہے اور طالبان پیشگوئی سے بھی قبل کابل پر قابض ہو سکتے ہیں۔ افغان حکومت نے اپنا فوجی سربراہ تبدیل کر دیا ہے تاہم طالبان کی پیشقدمی کا سلسلہ جاری ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز اور معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے امریکی خفیہ اداروں کے حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ طالبان آئندہ 90 دن کے اندر ہی افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قابض ہو سکتے ہیں۔ یعنی پہلے جو اندازہ لگایا گیا تھا اور پیشگوئی کی جار ہی تھی اس سے بھی بہت پہلے کابل کا سقوط ممکن ہے۔
طالبان گزشتہ جمعے سے اب تک افغانستان کے نو صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر چکے ہیں۔ امریکی خفیہ ادارے کے ایک سینیئر افسر، جو حالات سے اچھی طرح واقف ہیں، نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ طالبان 30 دن کے اندر کابل کا محاصرہ کر کے اسے باقی ملک سے الگ کر سکتے ہیں۔
ایک اور امریکی افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ افغانستان میں ”ہر چیز غلط سمت میں جا رہی ہے۔”
یہ نئی پیش گوئی کہ کابل اتنی جلدی طالبان کے ہاتھ میں آ سکتا ہے، اس حوالے سے ابتدائی اندازوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ اس سے قبل جون میں انٹیلی جنس کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ افغان دارالحکومت چھ ماہ میں اس گروہ کے قبضے میں آ سکتا ہے۔
گزشتہ روز ہی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ انہیں افغانستان سے فوجی انخلاء کے اپنے فیصلے پر کوئی افسوس نہیں اور افغانستان کی لڑائی لڑنے اور اس کا دفاع کرنے کی ذمہ داری اب افغان رہنماؤں پر عائد ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے ایک ٹریلین سے بھی زیادہ کی رقم خرچ کی ہے اور وہ اب بھی اپنے وہ تمام وعدے پورا کر رہا ہے جو اس نے افغان حکومت سے کیے تھے۔ جیسے قریبی فضائی مدد پہنچانا، افغان فوجیوں کو کھانے پینے اور ساز و سامان کے ساتھ ہی تنخواہیں دینا وغیرہ۔ لیکن، ”افغان رہنماؤں کو ایک ساتھ آنا ہو گا، انہیں اب اپنے لیے خود ہی لڑنا ہوگا۔”
طالبان نے اب تک بدخشاں کے دارالحکومت فیض آباد پر قبضہ کرنے کے ساتھ ہی نو صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کا دعوی کیا ہے۔ افغانستان میں کہ 34 صوبے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بدھ کو دن بھر غزنی اور قندھار جیسے علاقوں میں شدید لڑائی جاری رہی جس میں زبردست جانی نقصانات کی اطلاع ہے۔
جن علاقوں پر طالبان نے اب تک قبضہ کیا ہے ان بیشتر علاقوں میں مختصر سی لڑائی کے بعد ہی افغان فوج نے راہ فرار اختیارکرلی جس کی وجہ سے طالبان کو کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
صورت حال کی سنگینی کے مد نظر افغان صدر محمد اشرف غنی نے فوجی سربراہ جنرل ولی محمد احمد زئی کو ہٹا کر ان کی جگہ نیا فوجی سربراہ مقرر کیا ہے اور اب ہیبت اللہ علی زئی افغان فوج کے نئے چیف آف اسٹاف ہیں۔ ہیبت اللہ علی زئی کے سامنے ملک کے مختلف حصوں میں طالبان کے شدید حملوں سے نمٹنے کا ایک بڑا چیلنج کسی امتحان سے کم نہیں ہے۔
اطلاعات کے مطابق سابق فوجی سربراہ ولی محمد احمد زئی کو بھی دو ماہ قبل ہی چیف آف اسٹاف مقرر کیا گیا تھا۔ تاہم جس تیزی سے طالبان کی پیشقدمی جاری ہے اور آئے دن جو خبریں آ رہی ہیں کہ مختصر سی لڑائی کے بعد ہی افغان فورسز راہ فرار اختیار کر رہی ہیں اس کی وجہ سے ولی محمد زئی پر نکتہ چینی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے حکومت نے مزار شریف کے تیسرے کور کمانڈر کو بھی برطرف کر دیا تھا۔
ایک ایسے وقت جب طالبان ایبک پر قبضے کے بعد ملک کے سب سے بڑے شہر مزار شریف کی جانب بڑھ رہے ہیں، صدر اشرف غنی نے مقامی قبائل اور اپنی فوج کی حوصلہ افزائی کے لیے بدھ کے روز مزار شریف کا دورہ کیا۔ روایتی طور پر مزار شریف کا علاقہ طالبان کے خلاف رہا ہے۔
اشرف غنی نے مزار شریف میں وہاں کے مقامی ازبک قبائلی لیڈر عبد الرشید دوستم اور معروف مقامی تاجک لیڈر محمد نور سے ملاقات کی اور شہر کے دفاع کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ مقامی میڈیا میں جنرل دوستم کے حوالے سے ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے، ”طالبان شمالی علاقوں میں کئی بار آئے ہیں تاہم وہ ہمیشہ پھنس کر رہ گئے۔”
اشرف غنی اب جن قبائلی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں انہیں کو وہ گزشتہ چار برسوں سے پوری طرح سے نظر انداز کرتے رہے تھے۔ ایسا وہ اپنی فوج کو مضبوط کرنے کے لیے کر رہے تھے تاہم اب ضرورت پڑنے پر انہیں کے پاس پہنچے ہیں۔
گزشتہ روز ہی افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ وہ طالبان سے مقابلے کے لیے علاقائی ملیشیا سے مدد طلب کر رہے ہیں۔ انہوں نے افغان شہریوں سے ملک کے جمہوری تانے بانے کی حفاظت اور اس کے دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی بھی اپیل کی تھی۔
افغانستان کے مختلف علاقوں میں اس وقت حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے جس میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران ایک ہزار سے بھی زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔ تاہم اس سے سب سے زیادہ بچے اور خواتین متاثر ہو رہی ہیں۔