تحریر : انجینئر افتخار چودھری مدینہ منورہ سے نوجوان صحافی سوشل ورکر جہانزیب منہاس آئے ہوئے تھے۔ان سے تفصیلی ملاقات نہ ہو سکی تھی عزیزم عدیل اعجاز چودھری کے ولیمے پر انہیں بلایا تھا۔جہانزیب منہاس آج کل ان دنوں سے گزر رہے ہیں جن سے میں ١٩٤٨٤ میں گزر چکا ہوں۔تیس سال پہلے مدینہ منورہ میں جنرل موٹرز کی ایجینسی کے نوجوان مینجر کی حیثیت سے کچھ عرصہ گزارا تھا بعد میں ٩٠ کی دہائی اور تیسری بار ٢٠١٠ میں مجھے اس شہر عظیم میں وقت گزارنے ے میں بے شمار لوگوں کی میزبانی کا شرف رہا ان میں سیاسی اکبرین شعرا ادبا اور تحریک آزادی ء کشمیر کے ہیرو لوگ بھی خاکسار کے مہمان ٹھہرے اپنے ایک کالم آقا میریاں اکھیاں مدینے وچ رہ گئیاںمیں تذکرہ کیا ہے۔لیکن اس بار اس نوجوان کی آمد پر کچھ لکھ رہا ہوں۔میں مدینہ منورہ میں جاتا رہتا ہوں میرے دو ہی میزبان اور اور دونوں ہی گجر خان کے خطے سے تعلق رکھنے والے دوست ہیں ایک جہانگیر خالد مغل جو عرصہ ء دراز سے مدینے میں موجود ہیں اور دوسرے یہ نوجوان ساتھی۔مدینہ شہر نبویۖ بھی ہے اور اللہ کے محبوب شہروں میں سے ایک بھی ہے اس لئے کہ وجہ خالق کائنات محمد عربیۖ جس شہر میں مہاجر بن کر آئے اور اسی کے ہو کر رہ گئے اللہ نے اس شہر کو نوازنا تھا سو نواز دیا۔لہذہ اس شہر سے جڑی ہر چیز پیاری ہے ہر چیز نیاری ہے۔ جہانزیب اور میرے لئے نوجوان ڈاکٹر احسن نوید عرفان کے والد محترم ڈاکٹر نوید عرفان کی موت ایک صدمے سے کم نہ تھی۔
احسن نوید ینگ ڈاکتر ہیں اور خوشنصیب بھی ہیں کہ وہ پنجاب میں نہیں ہیں ورنہ وہ شہباز شریف کے رگڑے میں آ جاتے ۔انصاف ڈاکٹررز فورم کے صدر ہیں اور کمال کے نوجوان ہیں دھرنے میں تواتر سے کیمپ لگایا بے شمار مریضوں کا علاج کرایا۔ان کے دادا بھی عظیم ڈاکتر تھے اور والد مرحوم بھی۔اس نوجوان کے ساتھ سانحہ گزرا کہ چار روز پہلے اس دنیا ء فانی سے رخصت ہو گئے۔اس روز میں اپنی بیگم کو لے کر لاہور گیا ہوا تھا ۔دل کے عارضے میں مبتلا شریکہ ء حیات کی ادت حسنہ میں شامل ہے کہ وہ جس مسیحا سے علاج کرواچکی ہیں انہی سے چیک اپ بھی کرواتی ہیں حالنکہ میں راولپنڈی کے آرمڈ فورسز ہسپتال اور دیگر امراض قلب کے اداروں کی بھرمار کے باوجود لاہوراپنے اسی ڈاکٹر کے پاس جاتی ہیں۔گلے روز ان کا فون آیا کہ چلتے ہیں کسی کی تعزیت کرنا اور اس کے لئے سیکڑوں کلو میٹر کا سفر کرنا کارے دارد لیکن اس کا اجر بھی تو عظیم ہے میں اس کے لئے جہانزیب کا ممنون ہوں۔وہ صبح میرے پاس آ گئے ان کے ساتھ ان کے کزن جنید بھی تھے خوبصورت سمارٹ جنید بھی اپنی ذات میں ایک خوبصورت شخص ہی نہیں ذہین اور فطین بھی ہیں سارے راستے بڑی گپ شپ رہی۔ہم سہ پہر کو ایبٹ آباد پہنچ گئے تھے ۔ایبٹ آباد اپنے خوبصورت موسم کے ساتھ موجود تھا۔
اس شہر کی اپنی خوبصورتی ہے جہانزیب پوچھتے رہے کہ یہاں کی کون سی چیز خوبصورت ہے میں نے کہا کہ سردار شیر بہادر یہاں کی خوبصورت چیز ہے سچی بات ہے دوستوں سے حسین اور کون ہو سکتا ہے ۔شیر بہادر طویل عرصے تک ہماے ساتھ سعودی عرب رہے ہیں ۔حلقہ ء یاران وطن لے پلیٹ فارم سے ہم نے عروس البلاد احمر جدہ میں زندگی کے بہترین سال گزارے ہیں انہوں نے تو جدہ عرصہ ہوا چھوڑ دیا ہے لیکن ہماری اگلی نسل نے اس شہر میں مقام کر لئے ہے اور ویسے بھی حرمین کہاں چھٹتا ہے۔اس شہر کی سیاسی ادبی سماجی زندگی میں ہم نے اور ہمارے دوستوں نے ایک کردار ادا کیا ہے ادبی سیاسی سماجی تقریبات جتنی حلقہ ء یاران وطن نے کیں شاید ہی کوئی تنظیم نے کی ہوں ۔ہمارا ایک طریقہ کار تھا وہ سرکاری افسران سے دور رہ کر فنکشن کیا کرتے تھے۔اس شہر میں انجینئر عبدالرفیع مرحوم نے طویل عرصہ گزارا ہے وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے شیر بہادر ان کے داماد تھے رفیع صاحب سے ہمارا گہرا تعلق تھا اس حوالے سے ہمارا تعارف ان سے ہوا شیر بہادر کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا وہ اس پارٹی کے صدر بھی بنے بعد میں پاکستان آئے تو انہیں ہم تحریک انصاف میں لے آئے آج کل تحریک انصاف ایبٹ آباد کے ضلعی صدر ہیں۔کھانا ہم نے انہی کے گھر کھایا ان کے صاحبزادے عمر شیر اپنے والد سے بھی سوا نکلے ہیں آئی ایس ایف صوبہ کے پی کے نائب صدر ہٰیں۔وہ اپنی گاڑی لے کر ادھر پہنچ گئے
PTI
دوپہر کا کھانا انہی کے گھر کھایا ۔شیر بہادر ان دنوں ٹکٹ کے حصول میں تگ و دو کر رہے ہیں ویسے بڑی دلچسپ کہانی ہے جو شخص اس پارٹی کا صدر ہو اسے ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر کا ٹکٹ نہیں مل رہا۔بقول شخصے تحریک انصاف اگر چاند پر بھی ہو گی تو وہاں بھی گروہ بندی کا شکار ہو گی وہ علی اصغر خان کے گھر تھے ہم انہیں ملنے وہیں چلے گئے تھوڑا وقت گزاراوہاں سے اجازت لے کر ہم شاہ مقصود کی جانب نکل پڑے دل تو تھا کہ با با جی کی قدم بوسی کروں قاید تحریک ہزارہ جو ہمارے فیملی فرینڈ ہیں لیکن اصحاب سفر کا تقاضہ کچھ اور تھا ۔ شیر بہادر سے مل کر نکلے تو علی اصغر خان کے گھر دعا کی۔پی ٹی آئی کو اس وقت دعائوں کی ضرورت ہے۔اللہ یر کرے ہم چاند پر بھی چلے گئے تو وہاں بھی نئے پرانے کی لڑائی میں جت جائیں گے اس بار مشتاق غنی ان کے لئے پہاڑ کھڑا کئے ہوئے ہیں انہوں نے ئو کے سے اپنا سالہ در آمد کیا ہے تا کہ ضلعی صدر جو آگے جا کر ان کے لئے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں انہوں نے سوچا کہ ان سے اسی سطح پر جان چھڑا لیں وہ آج پتہ چلا ہے کہ انہیں ٹکٹ نہیں دیا جا رہا۔جناب مشتاق غنی ہمارے ساتھی ہیں لیکن بقول خان صاحب پی ٹی آئی کو صرف تحریک انصاف ہی شکست دے سکتی ہے ایک اکیلا خان کن کن کے جگھڑوں کو نپٹائے وہ جو کل پارٹی میں آنے کی بھیک مانگتے تھے وہ اب ٹکٹیں دے نہیں بانٹ رہے ہیں ۔پنجابی میں کہتے ہیں انہا ونڈے شیرینیاں مڑ چڑ کے اپنیاں نوں۔
مغرب کی اذان کے وقت ہم لورہ چوک پہنچے عزیز، زاہد نے چائے پلائی سر درد کی گولی کھائی۔ویسے ایک بات میںنے نوٹ کی ایبیٹ آباد شہر سے نکلتے وقت ایک لمبی قطار نظر آئی تقیبا ڈیڑھ کلو میٹر ہو گی۔یہیں سے اندازہ ہوا کہ کہ ہم کسی نئے کے پی کے میں ہیں پولیس نے لاقانونیت کرنے والوں کو نتھ ڈال رکھی ہے۔شام ہو چکی تھی لورہ روڈ پر سائے گہرے ہو چکے تھے میرا اور ہم سفروں لا دل تھا کہ نئی جگہ دیکھیں چاندنی رات میں ہم اس سڑک پر گامزن تھے جہاں پر اکا دکا گاڑی نظر آتی تھی سنسان جنگل پھلہ گلی کی چڑھائی پر ہم گزرے تو میں نے انہیں بتایا کبھی یہ سڑک محفوظ نہ تھی مفرور لوگ مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔کرہکی کے پاس ہمیں الیکشن کمپیئن کرنے والے ملے ان سے ہیلو ہائی ہوئی ہری پور اور ایبٹ آباد میں لگتا ہے پی ٹی آئی کلین سویپ کرے گی دیکھیں کیا ہوتا ہے۔کرہکی سے آگے بری شاہ لطیف کی زیارت پر بر۔۔۔برررر کے نعرے لگ رہے تھے لوگ چاند کی چودھویں کو منتیں مانگنے آئے ہوئے تھے اسی کے ساتھ درہ ہے لسن میرے ننھیالی گائوں کی ملحقہ بستی۔مرحوم چودھری بہادر یہاں رہا کرتے تھے جو رشتے میں ماموں تھے اس علاقے کی معروف شخصیت تھے اولاد گمنام نکلی باپ کا نام اب پرانے لوگوں سے سننے کو ملتا ہے ساتھ ہی بلند خان،اکرم خان ملک عبدالرحمن چودھری دادو پیر سرور کی تیسری نسلیں اپنا نام پیدا کر رہی ہیں ۔ماموں بہادر کا نام تک نہیں۔ہم نو بجے کے قریب جبری بازار سے گزرے چھوٹا سا بازار ایک آدھ بس کھڑی تھی جو پہلا ٹائم لے کر جائے گی۔
صابر مرحوم کا ہو ٹل کھلا ہوا تھا ایک آدھ شخص چائے پی رہا تھا۔اسی بازار سے نکلے تو اگلے موڑ پر کچھ نئی دکانیں بن رہی تھیں ڈسپنسر کلیم جو ہمارے وقتوں میں ڈاکٹر کہلایا کرتے تھے انہوں نے اپنے بیٹے کو ایم بی بی ایس کروایا ہے۔اللہ کرے ان کے بچے سے علاقہ مستفید ہو۔جبری بازار ملحق گائوں کی ضروریات پورا کرتا ہیلسن بدھار ٹیال سب ہی اسی بازار ست استفادہ کرتے ہیںاب ہم ایک موٹ کاٹ کر حسین سی وادی میں داخل ہو رہے تھے۔نوجوان جنید گاڑی بڑے اچھے انداز میں چلا رہے تھے وہ اپنے خوبصورت سوالات سے نہ صرف اپنے بلکہ ہمارے نالج میں بھی اضافہ کئے جا رہا تھا۔جہانزیب منہاس پچھلی سیٹ سے اس وقت تک تصاویر بناتے رہے جب تک انہیں اپنے موبائیل کیمرے کی آنکھ اجازت دیتی رہی۔چاندنی رات کا سماں اجاڑ سڑک آسمان کو چھوتے ہوئے چیڑھ کے درخت چاندنی کی رم جھم لہریں خوبصورت ندی ہرو سے ایسے اٹھکیلیاں کر رہی تھیں جیسے کسی نازک حسینہ کی لمبی پور والی انگلیاں ساز کے پتلے تاروں کو چھیڑتی ہیں بلکل ویسے ہی۔
Islamabad
یہی وہ جگہ تھی جہاں ندی کے اس پار میرا گائوں نلہ واقع ہے۔پانیوں کا دیس مرغزاروں کی بستی نلہ اسلام آباد سے ٠٥ کلو میٹر دور ایک جنت نظیر وادی ہے ہم اس وقت ہرو پل کے اوپر ہیں اس کے درمیانی راستوں میں اوور ٹیکینگ کے لئے جگہ بنی ہوئی ہے جنید سے کہا کہ رک جائو اس لئے کہ اسی چاندنی رات کو یہاں پریاں اترتی ہیں دل والے یہاں پیار اور محبت کے پیمان بنادھتے ہیں۔مغربی طرف میں نے جہانزیب کو بتایا کہ گائوں پینہ ہے جہاں کا اشتیاق عباسی ہے ۔ان خوبصورت پانیوں پر بنے اس پل پر میں نے اور جہانزیب نے بھی پیمان وفا باندھا اور وہ تھا پاکستان سے لازوال محبت اور پیار کا۔جہانزیب کو بار بار فون آ رہے تھے قاضی صاحب کہ جو انہیں کسی فارم پر بلا رہے تھے جہاں ایم این اے راجہ جاوید اخلاص جماعت کے سابق امیر منور حسن بھی تھے۔میں انہیں اپنا گائوں دکھانا چاہتا تھا۔فاریسٹ بنگلو سے ہم نلہ کی طرف مڑ گئے میں نے انہیں کہا تھا کہ ہم صرف گائوں کا چکر لگا کر واپس آ جائیں گے۔میں یہ تو نہیں کہتا کہ نلہ گائوں خوبصورت ترین ہے اس لئے کہ پاکستان کا تو ہر گوشہ حسین ہے۔لیکن یقین کیجئے خوبصورتی میں اس کا جواب نہیں۔
ہم ساڑھے دس بجے کے قریب گائوں پہنچ گئے میرے کزن نثار نے حال ہی میں ایک خوبصورت گھر بنایا ہے جسے ہم فیملی کا گھر کہتے ہیں۔میرا بھانجہ ماجد مختار گجر اس حلقے سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہا ہے انشاء اللہ جیتے گا بھی۔وہاں ہم تھوڑی دیر کے لئے رکے نوبیاہتا عدیل اعجاز چودھری آج کل میدانی علاقوں کو فتح کرنے کے بعد پہاڑی علاقوں میں دعوتیں کھا رہا ہے۔چائے کی پیالی کے ساتھ اچھے سے بسکٹون سے اس خوبصورت گھر میں تواضح کی گئی۔حالنکہ چاولوں کے دیگچہ زیر دم تھا مگر ہم تھے کی بھاگ نکلنے کی باتیں کر رہے تھے۔کوئی ١٢ بجے کے قریب ہم لا منٹانا پیر سوہاوہ ٹاپ پنچے راستے میں نلہ سے صرف ایک کلو میٹر دور وہ جگہ ہے جہاں عمران خان نے پودہ لگا کر شجر کاری کی مہم کا آ غاز کیا تھا وہاں کچھ تصویریں بنائی گئیں لامنٹانا پیر سوہاوہ ٹاپ پر ایک خوبصورت ریٹورینٹ ہے وہاں برادر خورد کی چائے اور ایک صحافی کے ساتھ چکن ونگز کھائے۔ ایک بجے گھر پہنچے۔
میرے لئے جہانزیب کے ساتھ گزرے دن کی بڑی اہمیت ہے۔مدینے میں بھی ان کی میزبانی کے مزے لوٹے ہیں۔گئے تو ہم اپنے نوجوان دوست کا دکھ بانٹنے مگر یہ سفر یاد گار ہو گیا۔جہانزیب کی دوستیوں کے مزے اب بھی اڑا رہا ہوں کل جب خان صاحب کی پریس کانفرنس سے فارغ ہوئے تو ان کے عزیز ابرار منہاس سے بھی ملا جو جماعت اسلامی کے داممیں ہیں ان سے ملنا اچھا لگا مگر رات کو گجر خانیوں نے ایک خوبصورت شام کا اہتمام کیا جو ویلج ہوٹل میں تھی ملک نوید راجہ الطاف اور ان کے دوستوں سے مل کر خوشی ہوئی۔ دو دن یاد گار دن