تحریر : شیخ خالد زاہد کبھی کبھی عادت سے مجبور ہونے کی وجہ سے لکھنا پڑتا ہے اور اکثر دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر لکھا جاتا ہے۔ گھر سے باہر نکل جائیے تو آپ کو سمجھ آجائے گا کہ مسائل کس طرح برہنہ و بے ہنگم ہمارے آگے پیچھے گھوم رہے بلکہ ناچ رہے ہیں۔ آپ کسی بھی رنگ کا چشمہ پہن لیجئے یا کسی بھی گاڑی میں بیٹھ جائیے یا پھر بغیر گاڑی کے کوئی راہ لیجئے یہ آپ کی نظر کی پیروی کرتے سامنے سامنے گھومتے رہنیگے۔ہم پاکستانیوں نے تمام مسائل سے نمٹنے کی ذمہ داری سرکار کو دے رکھی ہے اور سرکار ہے کہ نظر ہی نہیں آتی اور آتی بھی ہے تو ایسے کہ کالے شیشوں اور ٹھنڈی گاڑیوں میں ہم سے پرے پرے گزر جاتی ہے، اب جب سرکار نظر نہیں آتی تو یقیناً مسائل ہی نظر آئینگے جو روز بروز بچوں کی عمر سے کہیں تیزی سے بڑھتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے ملک میں کم و پیش تمام ادارے سیاست یا سیاستدانوں کے تابع ہیں اگر ادارے میں اکثریت حکومتی جماعت سے وابسطہ لوگوں کی ہے تو ادارے کچھ نا کچھ کام کرتے دیکھائی دیتے ہیں اور اگر صوبائی یا علاقائی حکومت کا تعلق بھی اسی سیاسی جماعت سے ہے تو پھر وہاں کے لوگوں کہ وارے نیارے۔ مگر پاکستان تو سب کا ہے اور ہم سب پاکستانی ہیں۔ سب وسائل پر حق کی برابری کی بات کرتے ہیں تو مسائل کے حل کیلئے کیوں ایک دوسرے کی جانب دیکھا جاتا ہے یا پھر مسائل اچھال کر دوسرے کی جھولی میں کیوں ڈال دیئے جاتےہیں۔ ان سوالوں کے جواب کبھی نہیں ملینگے۔
چار دھائیاں ارض پاک پر گزار چکے ہیں اور ہمیں یہ بات سمجھ میں بہت اچھی طرح آنے لگی ہے کہ مسائل حل کرنے کیلئے نہیں بلکہ جلسے جلوسوں کے اسباب ہوتے ہیں اگر مسائل ختم ہوجائیں تو ہمارے نام نہاد سیاستدان کیا کرینگے۔ جب کوئی مسلئہ حل نہیں ہوتا تو مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتا جاتا ہے پھر جلسہ گاہ میں مسائل کی نشاندہی ان لوگوں کے سامنے کرتے ہیں جو ان مسائل سے گزر کر ان جلسہ گاہ تک پہنچے ہوتے ہیں۔ آفرین ان جلسہ گاہ تک جانے والوں پر بھی جو انگنت مسائل کی گرد میں اٹے ہوئے ہوتے ہیں مگر جلسوں میں شرکت کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں، ان میں، ایسے لوگ بھی مل جائینگے جو مذہبی اجتماعت سے تو بہت دور سے گزرتے ہیں مگر سیاسی جلسوں جلوسوں میں اگلی صفوں میں پائے جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں ہمیشہ سے مسائل پر سیاست کو ترجیح دی جاتی رہی ہے اور تنقید برائے تنقید کا فارمولہ عوام میں رہنے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں سب کے سب ایک دوسرے کو بھرے اجتماعات میں پریس کانفرنس میں اور سب سے بڑھ کر میڈیا پر مغلظات اگلتے یا بکتے رہتے ہیں۔ مگر جب کوئی سیاسی گٹھ جوڑ ہوتی ہے تو ایسے بیٹھے نظر آتے ہیں جیسے ان سے زیادہ ایک دوسرے کا کوئی مخلص ہوہی نہیں سکتا (اور ہے بھی ایسا ہی)۔
سن 2005 میں آنے والا زلزہ پاکستان کی تاریخ میں جلی حروف میں جاگ رہا ہے، اس زلزلے نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں قیامت ڈھائی اور انگنت زندگیاں پیوندِ خاک ہوگئیں، مکان زمیں بوس ہوگئے اور تاریخی کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگے، پاکستانی قوم نے ایک آواز میں “لبیک” کا نعرہ بلند کیا اور اپنے ہم وطنوں کی مدد کیلئے پہنچنا شروع ہوگئے، اس مدد کہ پیچھے نا کوئی سیاست تھی اور نا ہی کوئی فرقہ تھا اور نا ہی کہیں تعصب تھا، تھا تو صرف پاکستان تھا اورانسانیت کہ دلدادہ پاکستانی تھے۔ قوم کے اس جذبے نے مشکل ترین حالات و موسم کو بالائے طاق رکھا اور اپنے ہم وطنوں کی بے دریغ مدد کی۔ اس کے بعد سن دوہزار دس میں پاکستانیوں کے ہمت اور حوصلے کا امتحان لینے سیلاب آگیا جس نے جنوبی پنجاب کو تہس نہس کر کے رکھ دیا، یہ قوم سرخ روح ہوئی اور فوج کہ شانہ بشانہ اپنے ہم وطنوں کی ہر ممکن مدد کو پہنچی۔ دھماکوں نے اس قوم کو لہولہان کر کے رکھدیا جہاں ہم آرمی پبلک اسکول کو کبھی نہیں بھولینگے تو لاہور کے پارک میں ہونے والا واقعہ بھی نا قابلِ فراموش ہے، نورانی کا دھماکہ اور پھر سہون کا سانحہ ایسے بہت سارے واقعات جن میں پاکستانیوں نے اپنے اتحاد کا عملی مظاہرہ کیا اور دشمن کے ناپاک عزائم کو مٹی میں ملا کر رکھ دیا۔ اس سارے ماحول میں پاکستانی عوام تو عوام ہی رہی مگر ہمارے ملک کہ معزز سیاست دانوں نے اپنی سیکیورٹی میں دگنا تگنا اضافہ کروالیا۔ ان سیاست دانوں نے ان واقعات پر خوب سیاست کی جسکا جہاں ہاتھ لگا اس نے آسرا نہیں کیا، ملک اور قوم کی فکر سے بالا تر یہ سیاسی لوگ کسی بھی واقعے کو بلکل ایسے ہی لیتے ہیں جیسے کہ کوئی خالی دستخط شدہ چیک ہاتھ آجائے۔
ہم پاکستانیوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ اگر ہمارے (عام آدمی) مسائل حل ہوگئے جیسے پانی کی باقاعدہ فرہامی ممکن ہوجائے، گٹروں کے ڈھکن لگ جائیں، نکاسی آب کا مسلئہ، ہسپتالوں میں دوا دستیاب ہوجائے اور وغیرہ وغیرہ اور مختصراً یہ کہ ایک غریب آدمی کو اپنی غربت پر خودکشی نا کرنے پڑجائے۔
آج کوئی اپنی سیاست کی نشو نما و افزائش کیلئے شہریوں کیلئے پانی کا تکازہ کرتا سنائی دے رہا ہے تو کوئی مجموعی مسائل کے ساتھ اداروں کی بحالی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔ پاکستان پر بار بار فوجیوں، وڈیروں اور صنعت کاروں نے حکومت کرلی ہے، اب کسی حقیقی عوامی نمائندے کو اقتدار کے تخت پر بیٹھانا ہوگا اور جو اس ملک سے روحانی محبت بھی رکھتا ہو۔
انتخابات کہ دن جوں جوں قریب آنا شروع ہو رہے ہیں اقتدار کہ متلاشی سڑکوں پر گلی محلوں میں عوام کو بہلاتے پھسلاتے نظر آنا شروع ہوجائینگے اور ہماری معصوم رعایا ان کی جھوٹی تسلیوں میں آکر انکے حق میں نعرے لگاتے نظر آنے لگینگے جبکہ ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ چار دن کی چاندنی ہے اور پھر اک طویل اندھیری رات ہماری منتظر ہوگی۔ یہی مسائل ہونگے اور یہی ہم لوگ ہونگے۔