تحریر : ظہور دھریجہ لاہور میں 10 واں سالانہ دو روزہ سرائیکی فیسٹیول الحمرہ میں جاری تھا تو اس دوران الحمرہ کے ہال نمبر ایک میں تین روزہ بے نظیر لٹریری فیسٹیول کی تقریبات بھی جاری رہیں ۔ بے نظیر بھٹو لیٹریری فیسٹیول کا افتتاح کے لئے بلاول بھٹو آئے جبکہ جھوک سرائیکی فیسٹیول کا افتتاح سرائیکی رہنماؤں نے کیا ۔ اس دوران الحمرا میں خوب گہما گہمی رہی۔ اللہ معاف کرے، میں کوئی بڑائی کی بات نہیں کرنا چاہتا مگر پیپلز پارٹی کے اکابرین کے لئے یہ بات لمحہ فکریہ ضرور ہے کہ بلاول بھٹو کی آمد پر ہال کی کرسیاں خالی تھیں جبکہ سرائیکی فیسٹیول میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی اور عوام کے جم غفیر نے ہال کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر سرائیکی فیسٹیول کا نظارہ کیا ۔ سرائیکی فیسٹیول کی تقریبات میں سرائیکی کتابوں کی نمائش، کرافٹ بازار ملتان کے عالمی ایوارڈ یافتہ ہنر مندوں کے ہاتھوں سے بنائی گئی مصنوعات کی نمائش ، سرائیکی اجرک و ٹوپی کا ڈسپلے ، سرائیکی محفل مشاعرہ ،سرائیکی محفل موسیقی ، تقسیم ایوارڈ کے ساتھ تقریب پذیرائی لیجنڈ آف سرائیکی فوک عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی یہ تقریبات رات دن جاری رہیں اور ہزاروں افراد تقریبات میں شریک ہونے کے علاوہ سرائیکی سٹالز کا وزٹ کرتے رہے۔
ویسے تو بہت سی باتیں ہیں لیکن ایک بات کا میں تذکرہ کروں گا کہ سرائیکی شعراء انقلابی کلام پڑھ رہے تھے جس میں سرائیکی وسیب کی محرومیوں کا ذکر تھا اور سرائیکی صوبے کا ذکر تھا اور سرائیکی وسیب کے خلاف ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج تھا ۔ جب الحمراء کی انتظامیہ نے مشاعرہ سنا تو دو اہلکار جو کہ کلیریکل سٹاف میں سے تھے فوراً میرے پاس آئے اور کہا کہ مشاعرہ بند کرو ، حکومت کے خلاف یہاں کوئی بات نہیں چلے گی ۔ اسی دن الحمراء کے ہال نمبر 1 میں بلاول زرداری بھی آئے ہوئے تھے ، میں نے کہا کہ کیا بلاول زرداری حکومت کے حق میں تقریر کر رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ بلاول نے ہمیں پیسے دیئے ہیں ۔ میں نے کہا کہ کوئی آدمی پیسے دے کر آپ کے یا حکومت کے خلاف جو کچھ کہہ دے تو وہ جائز ہے اور اگر سرائیکی شاعر اپنے دل کی بات کر رہے ہیں تو غلط ہے ؟ انہوں نے کہا کہ الحمراء کی انتظامیہ کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اس طرح کا مشاعرہ بند کرائے کہ ہم حکومت سے تنخواہ لیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ الحمراء بھی سرائیکی وسیب کے فنڈ سے بنا ہوا ہے اور آپ کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں بھی سرائیکی وسیب کے خون پسینے کی کمائی شامل ہے اور جس طرح مولانا بھاشانی کو لاہور کی سڑکوں سے اپنے پٹ سن کی خوشبو آتی تھی ، مجھے الحمراء تو کیا لاہور کی ہر در و دیوار سے اپنی کپاس کی خوشبو آتی ہے ۔ آپ مہربانی کریں ، ہمارے ساتھ بحث نہ کریں اور مشاعرہ کو چلنے دیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم الحمراء کے اعلیٰ حکام تک آپ کی شکایت کرتے ہیں ۔ میں نے کہا کہ آپ شکاتی کر سکتے ہیں ، پھر وہ چلے گئے۔
عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی تقریب پذیرائی کے موقع پر میں نے اپنے سپاسنامے میں کہا کہ 1970ء کے عشرے میں عیسیٰ خیلوی کی گائیکی سرائیکی کا نیا جنم تھا ۔ سرائیکی نے عطا اللہ خان کو اور عطا اللہ خان نے سرائیکی کو شہرت کی بلندی پر پہنچایا ، پرائیڈ آف پرفارمنس دنیا کے واحد فوک سنگر ہیں جن کے پوری دنیا میں سب سے زیادہ آڈیو البم ریکارڈ اور فروخت ہوئے ۔ وہ دنیا کے واحد سنگر ہیں جس نے ماسوا اسرائیل دنیا کے تمام ممالک میں پرفارم کیا ۔ عطا اللہ خان نیازی 1952ء میں عیسیٰ خیل کے معزز گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ جب انہوں نے گائیکی شروع کی تو نیازی برادری کے لوگوں نے ناراضگی اور خفگی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اپنے نام کے ساتھ نیازی نہ لکھیں ۔ عطا اللہ خان نے عیسیٰ خیلوی لکھنا شروع کیا تو عطا اللہ کی وجہ سے عیسیٰ خیلوی کو بھی پوری دنیا میں پہچان بن گئی اور نیازی بھی امر ہوگئے۔عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کی دستار بندی پیر آف کوٹ مٹھن خواجہ غلام فرید کوریجہ ، سرائیکی رہنماؤں سید مہدی الحسن شاہ ، ملک اللہ نواز وینس، مطلوب شاہ بخاری ، عابدہ بخاری ، زاہد شمسی اور دوسرے عمائدین نے کرائی۔
تقریب پذیرائی سے خطاب کرتے ہوئے عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی نے کہا کہ آج کی شام میرے لئے یادگار شام ہے ، میں اسے کبھی نہیں بھول پاؤں گا ۔ انہوں نے کہا کہ سرائیکی میری ماں بولی ہے ،سرائیکی صوبے کا برسوں سے متمنی ہوں ۔ اس سے پہلے میڈیا پریس بریفنگ میں ایک چینل رپورٹر کہ اس سوال کے جواب میں کہ آپ لاہور کو ٹائم نہیں دیتے، سرائیکی پروگرام میں آ گئے ، عطا اللہ خان نے کہا کہ میں نے اپنی پوری زندگی لاہور کو دیدی ہے ۔ مگر میرے اعزاز میں تقریب پذیرائی میرے وسیب کے لوگ کر رہے ہیں ، یہ سوال تو میرا بنتا ہے کہ میں نے لاہور کو زندگی دی ، اہل لاہور نے مجھے کیا دیا؟ شمع بناسپتی کے شیخ احسن رشید نے اپنے پیغام میں کہا کہ جھوک سرائیکی کی ادبی و ثقافتی تقریبات کو تاریخی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور ان تقریبات کے ذریعے ہم ہر طرح کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے محفل مشاعرہ سے خطاب کرتے ہوئے تقریب کی صدر کیپٹن عطا محمد خان نے کہا کہ سرائیکی بہت میٹھی زبان ہے، میں تین سال رحیم یارخان میں ڈپٹی کمشنر رہا ، اس دوران مجھے سرائیکی زبان ، ثقافت اور سرائیکی خطے کی تاریخ کے بارے میں جاننے کا بہت موقع ملا ، انہوں نے کہا کہ خصوصی طور پر میں چولستان سے بہت متاثر ہوں اور میری شاعری میں چولستان کا بہت تذکرہ موجود ہے۔
جھوک سرائیکی میلہ کی رنگارنگ تقریبات میں عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی ، ان کے صاحبزادے سانول عطا عیسیٰ خیلوی ، مشتاق چھینہ، نسیم سیمی ، ہیر سنگھار، حنا ملک، نادرہ چوہدری، محبوب شاہ ، طارق صابری ، عارف صابری ،صابر لبانہ ،اقبال لاشاری ، دنیا نیوز کے کامیڈین احمد نواز اور دوسروں نے رسیلی اور میٹھی آوازوں میں شاندار سرائیکی گیت پیش کر کے لاہور کی تاریخ کی بے مثال ثقافتی محفل بنا دیا ۔الحمرہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیپٹن عطا محمد خان ، ڈائریکٹر ذوالفقار زلفی اور پروگرام آفیسر نیاز حسین لکھویرا نے جھوک سرائیکی میلہ کے بارے میں کہا کہ سرائیکی میلہ تو ہر سال ہوتا ہے مگر ثقافتی حوالے سے اس سال سرائیکیوں نے لاہورکو فتح کر لیا ہے۔ بندہ ناچیز نے قراردادیں پیش کرے ہوئے کاہ کہ ہم ہر سال لاہور میں سانگ رچانے نہیں آتے یہاں آنے کا ایک مقصد ہے وہ مقصد ہے صوبہ سرائیکستان ، ہم ہر سال باور کراتے آ رہے ہیں کہ وسیب کی محرومیاں بڑھنے کے ساتھ تلخیاں اور رنجشیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں ۔ اقتدار کے مرکز لاہور کی فاصلاتی دوری تو مسلمہ ہے مگر اس کے ساتھ یہ حقیقت کو جاننے کی کوشش کیجئے کہ سرائیکی وسیب اور تخت لاہور کے دل ایک دوسرے سے کتنے دور ہو رہے ہیں ؟ قرارداد میں کہا گیا کہ سرائیکی وسیب تاریخی ، ثقافتی اور جغرافیائی طور پر ہمیشہ پنجاب سے الگ اکائی کے طور پر موجود رہا ،اس کی شناخت ، اس کا اختیار، اس کا وہ صوبہ بحال کیا جائے جو سکھوں اور انگریزوں کی یلغار سے پہلے موجود تھا۔
اس موقع پر وسیب کی محرومیوں کا تذکرہ بھی ہوا۔ سرائیکستان عوامی اتحاد کے رہنماؤں خواجہ غلام فرید کوریجہ، سید مہدی الحسن شاہ ، ملک اللہ نواز وینس، عابدہ بخاری ، مطلوب بخاری کہا کہ ہم باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہماری بنگالی بھائی بھی اسی طرح لاہور میں آ کر اپنے مسائل اور اپنی محرومیوں کا تذکرہ کرتے تھے اور وہ بھی ہماری طرح اپیلیں کرتے تھے کہ خدارا ہمیں پاکستانی سمجھا جائے اور ہمارے حقوق دیئے جائیں ۔ افسوس کہ مشرقی پاکستان کے بنگالی بھائیوں کی بات کو بھی نہ سنا گیا اور نتیجہ علیحدگی کی صورت میں سامنے آیا۔ آج سرائیکی وسیب کے لوگ بھی لاہور میں آ کر سالہا سال سے اپنے ساتھ ہونیوالے مظالم کا ذکر کر رہے ہیں ۔ وسیب کے لوگ ماسوا انصاف کسی چیز کے طلبگار نہیں۔ تخت لاہور کے حکمرانوں کو سرائیکی وسیب کے کروڑوں لوگوں کی آواز کی طرف توجہ دیتے ہوئے صوبہ بنا دینا چاہئے اور یہ اچھا کام میاں برادارن کے ہاتھوں تکمیل پذیر ہو تو وہ امر ہو جائیں گے اور ان کا نام رہتی دنیا تک رہے گا۔ سرائیکی رہنماؤں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم ہر سال لاہور میں سانگ رچانے نہیں آتے یہاں آنے کا ایک مقصد ہے وہ مقصد ہے صوبہ سرائیکستان ، ہم ہر سال باور کراتے آ رہے ہیں کہ وسیب کی محرومیاں بڑھنے کے ساتھ تلخیاں اور رنجشیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں ۔ اقتدار کے مرکز لاہور کی فاصلاتی دوری کے ساتھ سوچ کے فاصلے بھی بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سرائیکی وسیب تاریخی ، ثقافتی اور جغرافیائی طور پر ہمیشہ پنجاب سے الگ اکائی کے طور پر موجود رہا ،اس کی شناخت ، اس کا اختیار، اس کا وہ صوبہ بحال کیا جائے جو سکھوں اور انگریزوں کی یلغار سے پہلے موجود تھا۔