تحریر: لقمان اسد یہ مقدمہ اول تو مجھے صاحبان اقتدار کی عدالت میں دائر کرنا چاہیئے تھا مگر کیا کیجیئے کہ صحبان ِ اقتدار نے اپنی عدالتوں کو مقفل کر رکھا ہے ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نے انقلاب کے جنون میں روایتی سیاست دانوں کو نظر انداز کیا کہ جو جتنے بھی مفاد پرست تھے یا جو بھی خامیاں اُن میں ہمیں نظر آتی تھیں مگر ایک صفت اُن میں ضرور تھی کہ نہ اُن کے دل کے دروازے علاقہ کے عوام کیلئے کبھی بند تھے اور نہ ہی اُن کے ضمیر کی عدالتوں کو تالے لگے۔
جناب ڈی سی او لیہ !آپ بھی شاید ہمارے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی طرح اس بات سے قطعی طور پر بے خبر ہوں کہ اس برس کا ماہ اگست یعنی آزادی کا مہینہ ضلع لیہ کے نشیبی علاقہ کے مکینوں کیلئے گویا ایک عذاب اور قیامت بن کر ٹوٹا ضلع لیہ کی تحصیل کروڑ سے لیکر تحصیل لیہ کی آخری پٹی تک نشیب کا وہ علاقہ خوش قسمت ہی ہوگا جو شیر دریا یعنی دریائے سندھ کے کٹائو سے مححفوظ ہو گا لیہ سٹی کے قریب ترین تین مواضعات ڈلو نشیب ،سامٹیہ نشیب اور لوہانچ نشیب ایسے مواضعات ہیں کہ جن میں مسلسل ایک ماہ سے دریا کا بد ترین کٹائو جاری ہے لیکن اس قدر تباہی کے باوجود بھی ایک ماہ میں دریا نے شمالاًجنوباً3کلومیٹر اور مغرب سے مشرق دو کلومیٹر کی حدود میں قیمتی زرعی اراضی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جبکہ عوامی نمائندگی کے دعویدار کسی ایم این اے یا ایم پی اے کو آج دن تک یہ خیال اور احساس تک نہ ہوا اور اُنہوں نے مذکورہ علاقوں کا وزٹ تک نہ کیا۔
Injustice
نشیبی علاقہ کے لوگ انتہائی محنت کش اور انتہائی پر امن لوگ ہیں کوئی چیز حکومت نے مہنگی کردی تو وہ اس پر بھی خاموش رہے اگر کسی وڈیرے یا جاگیر دار نے اُن پر کوئی ظلم کیا یا کوئی ناجائز مقدمہ کرا دیا تو وہ وڈیرے کے اس ظلم پر بھی کبھی سیخ پا نہ ہوئے شاید اسی شرافت کی سزا اُنہیں یہاں کا سماج اور نظام دے رہا ہے مجھے ڈی سی او لیہ واجد علی شاہ سے یہ عرض کرنا ہے کہ جناب ایک ماہ سے مسلسل شیر دریا شیروں کی حکومت میں اُس قیمتی زرعی اراضی کو ہڑپ کرتا چلا آرہا ہے کہ اُس پر کھڑی گنے کی تیار فصل جس پر یہاں کے مکینوں کی معیشت کا کلی انحصار تھا اب جبکہ دریا کا رخ انتہائی تیزی کے ساتھ نشیبی علاقہ کی آباد انسانی بستیوں کی طرف بڑھ چکا ہے تو کیا ان حالات میں آپ بھی ہمارے ضلع کے بے حس سیاستدانوں کے انتظار میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے اپنے آفس کے اے سی کمرے کی پر لطف ٹھنڈک سے محظوظ ہوتے رہیں گے یا دوپہر کی مچلتی دھوپ کو اپنا ہمسفر اور اپنا ہمرکاب بنا کر اُن لوگوں کے درد میں شرک ہونا پسند کریں گے کہ جو اپنی مدد آپ کے تحت اپنے ہنستے بستے گھروں کو خیر باد کہہ کر ایک طرف نقل مکانی اور ہجرت کے آسیب سے گزر رہے ہیں تو دوسری طرف انتہائی بے بسی کے عالم میں اپنی قدیمی بستیوں کو دریا بردگی کا نوالہ بنتے دیکھ رہے ہیں۔
ڈی سی او لیہ کے گوش گزار یہ بھی کرنا ہے کہ نشیبی علاقہ کے کاشتکار جو برس ہا برس سے لیہ شوگر ملز لیہ کو 100 فیصد گنے کی فراہمی یقینی بناتے چلے آرہے ہیں آج اگر اُن پر اُفتاد ٹوٹ پڑی ہے تو لیہ شوگر ملز لیہ کے آفیسرز کا رویہ اُن نہتے کاشتکاروں کے ساتھ ہتک آمیز کیوں ہے اور وہ ستمبر کاشت کی غرض سے خود اپنی ہی طرف سے علاقہ نشیب کے کاشتکاروں کو فراہم کی گئی گنے کی ورائٹی کو خریدنے میں عدم دل چسپی کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں مجھے پتہ ہے کہ آپ ایک فرض شناس آفیسر ہیں اور شاید مجھ میں اتنی جرات تو نہ تھی کہ میں یہ انسانی المیہ اور یہ افسوسناک کہانی کسی منتخب عوامی نمائندے کے سامنے رکھتا مگر میرا حوصلہ اتنا ضرور تھا کہ آپ کی عدالت میں ان بے کسوں اور لاچاروں کا مقدمہ پیش کروں کہ آج جب اُن پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے تو تباہی کے اس کرب و بلا میں اُن کی آواز سے آواز ملانے والا کہیں بھی کوئی دور تک نظر نہیں آتا۔
Nawaz Sharif and Shahbaz Sharif
مجھے آج ڈی سی او لیہ کے ساتھ ساتھ اپنے ضلع کے دونوں ایم این ایز سید ثقلین شاہ بخاری اور صاحب زادہ فیض الحسن کے سامنے یہ بات بھی رکھنا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم سے بات کریں کہ وہ اس بھیانک ترین المیہ کا فوری نوٹس لیں اگر اربوں روپے اپر پنجاب کی خوبصورتی پر خرچ کئے جاسکتے ہیں تو کیا محض کروڑوں روپے جنوبی پنجاب کی بنیادی ضرورتوں پر خرچ نہیں کئے جاسکتے ؟۔
ماضی کے ایک درویش صفت اور باوقار سیاسی کارکن ملک غلام محمد سواگ مرحوم (سابق ایم پی اے) نے ایک مکمل چک شہباز آباد کے نام سے وزیر اعلیٰ پنجاب جو خادم اعلیٰ بھی ہیں سے اُن متاثرین کیلئے الاٹ کرا لائے تھے جن کی زمینوں کو دریائے سندھ نگل گیا کیا موجودہ عوامی نمائندے ایسی کوئی فائل اب خادم اعلیٰ کی میز پر نہیں رکھ سکتے ؟پروین شاکر کے بقول گھر کے مٹنے کا غم تو ہوتا ہے اپنے ملبے پہ کون سوتا ہے