مر کر ہمیں زندہ کر جاتے ہو

Nara Takbeer

Nara Takbeer

تحریر: شاہ بانو میر
نعرہ تکبیر فلک شگاف نعرہ آسمان کو چیرتا ہوا دلوں پر ہیبت بٹھاتا ہوا دشمنوں کو نفسیاتی طور پے مرعوب کر جاتا اور یوں یکے بعد دیگرے فتوحات ایسی ہوئیں کہ اسلام دنیا میں پھیلنے لگاـ دنیا حیران ہو کر ان کی سیرت کو دیکھتی اپنے روحانی پیشواوؤں کی تعلیمات کی کمزوریاں ان پر عیاں ہوتیں تو حق ان کے دل پر اثر پزیر ہوتا اور وہ حلقہ بگوشِ اسلام ہو جاتےـ وجہ کیا تھی ؟ مفلوک الحالی میں ایسی دہشت ایسی دھاک ان کی کیوں ؟ قرآن پاک کی سورة التوبہ کا مطالعہ کریں تو آپکو معلوم ہوگا اس وقت جو لوگ ایمان لائے غزوہ تباک کا موقعہ تھا سخت گرمی تھی ـ کھجورون کے باغات تیار تھے گویا عربوں کی منافع بخش تجارت کا سیزن شروع ہو چکا تھا آجکل میں بس وہ اتارنے والے تھےـ

ایسے میں آپ ﷺ کو پتہ چلتا ہے لاکھوں کے حساب سے بڑا لشکر رومی افواج کا اسلام کے نوزائیدہ پودے کو نیست و نابود (نعوز باللہ ) کرنے پر تلا ہے آپ نے فورا اللہ کے اِذن سے اعلان جھاد کر کے بھرتی کا حکم دیا اور ساتھ ہی کہا کہ جو جو ہے وہ اللہ کی راہ میں لے آؤ یہ وہ لوگ تھے جو پہلے ہی مفلوک الحال تھے لیکن دلوں میں ایمان کا ولولہ اور حق کو قائم رکھنے کا، جنون کہ سب مومنوں سے جو جو بن پڑا انہوں نے کیا ـ یہی وہ موقعہ جب حضرت ابوبکر گھر کا سارا سامان آپﷺ کے اعلان پر اٹھا لائے اور عمر دل میں اِترا رہے کہ آدھا سامان لایا ہوں آج ابو بکر کو ہراوؤں گا صحتمند مقابلہ کی سوچ لیکن وہاں جا کر حالات دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھے کہ آپ ہمیشہ مجھ پر سبقت لے جاتے ہیں اس سے پہلے مساوات کا عالمی منظر جب مدینہ کے میزبان اپنے گھر سامان بانٹ رہےـ

یہ تھیں ہماری بنیادیں اور تب ہی ہم جہاں میں تاریخی بنے ـ جب بیت المال سے پکارا جاتا تھا زکوة کیلیۓ اور کوئی ملتا نہیںتھا غیرت حیا ایمان سچائی عمل کے ساتھ یہ وہ دور تھا جب مسلمان غریب تھے لیکن اسلام امیر تھا کیونکہ اصل خالص تربیت تھی قرآن میں جب ان کو کہا گیا کہ اللہ کی راہ میں دو یہ گھاٹے کا سودا نہیں اللہ پاک دس گنا بڑھا کر لوٹا دیتا ہے مگر یہ تعلیم اُس دور میں اثر کرتی تھی جب سادہ طرزِ زندگی اور علم پر زور تھاـ

Islam

Islam

کافروں نے مسلمانوں کے اس خالص جزبے کو توڑنے کیلیۓ انہیں لہو لعب میں مبتلا کر کے ان کے سامنے گلوبل ولیج کا تصور رکھ کر ان کو تجارتی فوائد گنوائے آزاد میڈیا پوری دنیا میں اسلام پھیلانے کا اب باعث بن رہا ہے ورنہ تو گندگی کو رواج دے کر نفسانی کواہشات کو باھر کر بطورِ مسلمان ایمانی قوت کو کمزور کر رہا تھاـ یہی وجہ ہے آج کا مسلمان قرآن سے دور ہوا تو اپنی جاہ و حششمت بھی بھول گیا مصلحتوں میں گم ہو کر اجتماعیت کے اسلامی تصور کو بھول کر ایک اللہ پر توکل بھول کر آج وہ اپنی ذات کی طاقت پر مرکوز ہے اور دنیا کے خداوؤں کی طرح ہر میدان میں جھوٹ سے سچ سے ظلم سے فراڈ سے خود کو منوانا چاہتا ہےـ

اس کا نتیجہ غیرت مفقود اور بے حسی کا طویل لبادہ سب نے اوڑھ لیا آج کا مسلمان امریکہ سے روابط بڑہانے کیلیۓ ہر سمت سے اٹھتی ہوئی مسلمانوں کی کراہیں آہ و بکاہ کو سننے سے پہلے کانوں میں روئی ٹھونس لیتا ہےـ آج ڈوب مرنے کا مقام ہے ہر اس مسلمان رہنما کیلیۓ کو کسی بھی حیثیت میں مسلمانوں کا سربراہ بنا ہوا ہے عیسائی پوپ کا اعلان پوری دنیا میں پھیلایا جا رہا کہ ہر چرچ ایک ایک مناہ گزین خاندان کو پناہ دےـ

آھ امتِ مسلمہ اس سے بڑا زوال اور کونسا ہے؟ جرمنی سے آواز آئی کہ ہم پناہ گزین سنبھال رہے ہیں تا کہ مستقبل میں انی نسل کو کہہ سکیں کہ ہم نے انہیں پناہ دی حالانکہ مکہ مدینہ ہم ست کم فاصلے پر تھا یہ کیسی سزا ہے؟ کیسی امت کی رسوائی ہےـ ایک گھر کی نوکرانی سعودیہ سے جاتے ہوئے چیک ہوتی ہے تو اس کے سامان میں سے کم و بیش بِلا مبالغہ 50 کلو سونے سے کم نہیں نکلا ہوگا ایسے ایسے بھاری بھرکم زیورات کہ اللہ کی پناہ یہ ایک گھر کی بات ہے ہزاروں گھر اس سے بھی بڑھ کر ہوں گے ٌحرام کمائی کر کے طوائفوں پے لٹانے والے آج جاگ جائیں کہ ان بازاری عورتوں پر لٹانے والو اس مالِ حرام کو ان بد نصیبوں پر لگا دو تو شائد آتشِ جہنم سے بچ سکو

Pope Francis

Pope Francis

سارے اسلامی ممالک او آئی سی گونگا بہرہ بے وجود ناکام ترین ادارہ مردہ ہو کر جامد ن عرب امارات جہاں دنیا جہاں کا گند صرف حرام پیسوں کے دم سے جنت ِ ارضی کا خطاب اس جنت مئن بسنے والو ذرا اک نظر ڈالو آج جیسی بے غیرتی کا مظاہرہ اسلامی ممالک کی جانب سے کیا جا رہا اور جیسی محبت اور عزت یورپی ممالک دے رہے ہیں ظالمو ذرا اپنے سرد محلات میں بیٹھے سوچو یہ کیسے مسلمان رہ جائیں گے دس سال بعد؟ جن کو بہترین سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں غیر اسلامی ملک کی جانب سے انسانیت نے ان کا بہت تماشہ دیکھا مگر کسی کا دل نہیں مسیجا آخر وہی ہوا جو پشاور میں ہوا تھا جس نے ساری قوم کو ایک ساتھ ایک لڑی میں پرو دیا وہی حادثہ قدرت نے یہاں بھی دوھرایا اور ایک حسین و جمیل بچہ اس کے بھائی بہن ماں قربان ہو گئے تو شامی پناہ گزینوں کی قسمت کھلی اور یورپی ممالک نے اتفاقِ رائے سے یہ تاریخی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا

جو انسانیت کیلیۓ تو بہترین ہے لیکن امتِ مسلمہ کیلیۓ ایک تمانچے سے کم نہیں ہے کہ جس امت کو باہمی جسم کی مانند قرار دیا گیا ہو وہ امّت سمندر میءں بھٹکتے ہوئے اپنے اسلامی بہن بھائیوں کی بے بسی پر کاموش تماشائی بنے بیٹھے رہےـ پاکستان میں 141 بچوں کی معصوم قربانی رنگ لائی اور مستقبل میں فوج کے ہر جوان کے خون کی قیمت کا احساس دلانے کیلیۓ اب تمام سفاک سیاسی رہنماوؤں اور دیگر بڑے مگر مچھوں کا صفایا شروع ہوگیا کیونکہ اس بار دشمن نے بہت ہی حساس ظلم ڈھایا تھاـ نتیجہ آج پاکستان بہترین انداز میں کامیابی کی شاہراہ پے رااستے کو صاف کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہےـ

یہی یہاں ہوا اس معصوم کی لاش نے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو ہلا کر رکھ دیا اور انسانیت جاگ اٹھی مذبی رواداری سامنے آئی ـ میں بیحد شرمندہ ہوں بطورِ پاکستانی کہ ہم اپنے ان بہن بھائیوں کی مدد نہیں کر سکی اور تمام پاکستانی قوم کی طرف سے شکریہ ادا کرنا چاہوں گی ہر اس ملک کا جس نے اس وقت ان مظلوموں کو نہ صرف زندگی دی بلکہ پورے انسانی احترام کے ساتھ خوش آمدید کہتے ہوئے کشادہ دلی کا ویسا مظاہرہ پیش کیا جو کبھی ہمارا خاصہ تھا اسلام کی تعلیمات بھلا کر صرف اپنی اور اپنی اولاد کی فکر کرنے والو بطورِ مسلمان بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس سے عہدہ براء ہونا روزِ محشر ممکن نہیں ہوگاـ
یہ بچے کیسی مخلوق ہیں
پشاور ہو یا ترکی کا ساحل
خود مر کر ہمیں زندہ کر جاتے ہیں

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر: شاہ بانو میر