بدقسمتی سے پاکستان کے حالات گزشتہ بہت سالوں سے انتہائی مخدوش ہیں۔ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی کو دیکھ لیں یوں لگتا ہے کہ جیسے سبھی کچھ انحطاط پزیر ہے ۔جو قومیں اور ملک ترقی اور خوشحالی کے خواب دیکھتی ہیں وہ اس کی تعبیر کے لیئے پانچ یا دس سالہ منصوبہ نہیں بلکہ بیس اور تیس سالہ منصوبہ بنایا کرتی ہیں۔ اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچتی ہیں ۔ اور ان کے روشن مستقبل کے لیئے دو ررس اچھے اور کامیاب نتائج کی حامل منصوبوں کی پایہ تکمیل کی فکر میں رہتی ہیں ۔ لیکن اس معاملے میں پاکستان انتہائی بدقسمت واقع ہوا ہے۔ پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ نااہل سیاست دان ان کی ناقص منصوبہ بندی اور جاری منصوبوں کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچانا ہے۔ اور جو منصوبے اگر شروع بھی کئے گئے تو ان میں فراڈ دھوکہ دہی ناقص مٹریل کا استعمال اور عوام کو فوائد کی بجائے الٹا نقصان ہی اٹھانا پڑا۔
حال ہی میں پنجاب میں اربوں روپے سے بنی میٹرو بس منصوبہ ۔ فلپس کمپنی سے خریدے گئے ناقص بلب ،اس کی واضح مثال ہے۔ اسی طرح کے بے شمار اور بھی فراڈ اور منصوبے ہیں جن کا فائدہ ہوسکتا ہے حکومت کو تو ضرور ہوا ہوگا ،مگر ایک عام آدمی ان سب سے کلیة محروم رہا ہے۔
ایک حکومت کی سب سے پہلی اور اولین ترجیح عوام کو اتنی سہولت ضرور فراہم کرنی ہوتی ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی کو نہ ترسے۔ اس کے بعد دیگر ترقی کے منصوبے شروع کرنا ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ برقرار رہے۔ اور پھر آہستہ آہستہ ترقی کی منزلیں طے کرنا ہوتی ہیں ۔ مگر افسوس کے ایسا نہیں ہوا ، اگر ایک حکومت نے کوئی منصوبہ شروع بھی کیا تو نئی آنے والی حکومت نے اس کو ختم کر وا دیا ، یوں جہاں سے سلسلہ شروع ہوتا تھا وہی آکر ٹہر جاتاہے۔
ان سب کارکردگیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ کہیں عوام کھانے کو ترس رہی ہے تو کہیں بوند بوند پانی کو۔ پنجاب ،سندھ ،خیبر پختون خواہ ، بلوچستان کوئی بھی صوبہ ایسا نہیں جہاں عوام مشکل حالات کا سامنا نہ کر رہے ہوں۔
کبھی مائیں بھوک سے نڈھال بچوں سمیت خودکشی کر رہی ہیں تو کہیں ان کا گلا گھونٹ رہی ہیں۔ کہیں انصاف نہ ملنے کی وجہ سے اپنے آپ کو آگ لگائی جارہی ہے۔ اس قدر دلخراش اور لرزہ خیز واقعات ان کچھ سالوں میں ہوئے ہیں کہ روح تک کانپ جاتی ہے۔ مگر بے حس حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی وہ اسی طرح اپنے طے شدہ پروگرام کی طرح غیر ملکی دوروں پر جاکر ملک کا پیسہ پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔ اور عوام کو بے وقوف بنانے والے حکمران الیکشن کے دنوں میں ایک دوسرے پر اس طرح الزامات کی بارش کرتے ہیں کہ جیسے ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوں ، مگر جونہی الیکشن ختم ہوتا ہے مسند حکومت پر جلوہ افروز ہونے کے بعد جب ان کو اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے تو گویا یک جان دو قالب ہوجاتے ہیں ۔ اس کی حالیہ مثال عمران خان ،جو اب طالبان خان کے نام سے زیادہ مشہور ہیں اور نواز شریف کی ملاقات ہے۔ جو ایک خوشگوار موڈ میں ہوئی۔
Dollar
کہا یہ جاتا ہے کہ قریبی اسلامی بظاہر دوست ملک سے ڈیڈھ ارب ڈالر کی امدادملی ہے۔ شاید اسی کی تقسیم کا مرحلہ درپیش ہو۔ اور عمران خان کو اسی لئے اعتماد میں لیا گیا۔ اور کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ یہ رقم اب طالبان پر خر چ کی جائے گی اور ان کو شام میں کاراوئی کے لئے بھیجا جائے گا۔۔ اس میں صداقت ہو بھی یا نا بھی ہو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غریب عوام کو کیوں اس کے حق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ تھر کے باسیوں کا قصور کیا ہے۔ کیوں ان بچارے غریب لوگوں کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا ہے ۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ اگر کوئی ڈیم بنا لیا جاتا تو شاید یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔
ان سب حالات کے باوجود عوام بے بس اور لاچار ہے وہ موت کو گلے نہ لگائے تو کیا کرے ۔ ایک اور خوفناک صورتحال یہ ہے کہ پولیس امن و امان تو قائم نہیں کر سکی اور نہ ہی مجرموں کو پکڑنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ مگر اب ان سے ایک عجیب کام لیا جارہا ہے ۔جماعت احمدیہ کے قبرستان میں لگے کتبوں کو اکھاڑا جارہا ہے ، ان کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔ قبروں کو مسمار کیا جارہا ہے۔ اور یہ سب اسلام کے نام پر کیا جارہا ہے۔ کیا یہ اسلام کی تعلیم ہے ۔ ؟؟ کہا جاتا ہے کہ جو اس دنیا سے چلا جاتا ہے اس کا معاملہ اللہ اور اس بندے کے درمیان ہوتا ہے۔ پھر زمین کے لوگوں کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ اس قسم کی غیر اخلاقی غیر قانونی اور غیر اسلامی حرکات کے مرتکب ہوں۔ حکومت اور پولیس زندہ لوگوں کو تو سکون اور راحت فراہم کر نہ سکی اب مردوں اور قبرستانوں کی بے حرمتی کرنا تو چھوڑ دیں۔