تحریر : روہیل اکبر عجب قانون ہے پاکستان کا یہاں پر چھوٹے بچے سبزی منڈی سے دو تربوز اٹھا لیں تو انہیں ننگا کرکے پوری منڈی میں گھمایا جاتا ہے انکی شرمناک ویڈیوبنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی جاتی ہے اور بعد میں پولیس اپنی کاروائی شروع کرکے سرخرو ہوجاتی ہے جبکہ ملک کی بنیادوں کو دیمک کی طرح کھوکھلا کرنے والے ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمران اوربیوروکریٹ جنہوں نے ایک طاقتور اور مضبوط پاکستان کو کمزور اور ناتواں بنا دیا نہ صرف ان صاحب اختیار اور اقتدار لوگوں نے بلکہ انکے بچوں ،عزیز وں،رشتہ داروں اور دوستوں نے بھی پاکستان کو جی بھر کر لوٹا اور برباد کیاانہیں ہم بڑی عزت اور احترام سے ملتے ہیں پولیس انکے گھر کی ملازم بنی ہوئی ہے اور پروٹوکول کے نام پر عوام کی بے بسی کا مذاق اڑایا جارہا ہے جن سے ووٹ لیکر اقتدار میں جاتے ہیں وہ پسماندگی کی دلد ل میں دھنسے ہوئے ہیں جو حکمران بن جاتے ہیں وہی لٹیرے بن کر ملک و قوم کا خون چوسنا شروع کردیتے ہیں پانامہ پیپرز کی پہلی قسط نے ہمیں تھوڑی دیر کیلیئے جھنجوڑا تھا۔
مگر ہم روایتی طور پر اتنے مردہ ضمیر ہوچکے ہیں کہ اب دوسری قسط بھی ہمیں فضول اور واحیات سی محسوس ہونے لگی ہے کیونکہ ہم نے بڑے ڈاکوؤں کو اب اپنا سردار تسلیم کرلیا ہے رہی سہی کثرہمارے سرکاری افسران پوری کررہے ہیں جبکہ ہمارا نظام انصاف اس حدبوسیدہ ہوچکا ہے کہ عام آدمی حصول انصاف کی خاطر ایڑیا رگڑ رگڑ کر موت کی آغوش میں جا پہنچتا ہے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں اور مظلوم حصول انصاف کی خاطر اپنی تمام پونجی لٹا رہے ہیں جہاں سیاستدانوں کی دلچسپی ہوتی ہے وہاں قاتل بھی گرفتار ہوجاتے ہیں مگر جہاں حکمرانوں کی دلچسپی نہ ہو وہاں سالہا سال ملزم کا نام ونشان نہیں ملتا ۔مجھے یاد ہے۔
پاکستان کی ایک وزیراعظم ہوا کرتی تھیں جنکا سر عام قتل کر دیا گیا ،قتل کیوں ہوا تھا،کس نے کیا تھا یا چلیں یوں کہہ لیں کہ کس نے کروایا تھا؟ آج9 سال گزر جانے کے بعد بھی بے نظیر قتل کیس کا کوئی ملزم پکڑا نہیں گیا ملزم پکڑنا تو کیا تھا حسب معمول بے نظیر کیس کے گواہ خالد شہنشاہ کو ٹارگٹ کلنگ میں مار دیا گیا اور اس قصے کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیاکسی نے سوال نہیں کیا کہ اس بڑی عورت کو گولی آخر کس نے ماری؟؟؟وہ تو بڑی عورت تھی ایسی نہ جانے کتنی عوام ہے جنکے کیس بند فائلوں میں گل سڑ جاتے ہیں۔اب ذرا یاد کیجیے کچھ ہفتے قبل کے پی کے سے ایک خبر آئی کہ وزیر اعلی کے پی کے مشیر سردار سورن سنگھ کا قتل ہو گیا ہے۔
Sardar Soran Singh
سردار سورن سنگھ غیر مسلم ہونے کے باوجود ایک انتہائی محب وطن پاکستانی تھے یہاں تک کہ سردار کا خاندان بھارت جانا چاہتا تھا مگر وہ صرف مٹی سے محبت کی وجہ سے یہاں رہتے تھے۔تھا تو یہ بھی ایک سیاسی قتل مگر تین دن کے اندراندر کے پی پولیس سردار سورن کے قاتلوں تک پہنچ گئی اور قاتل نکلا بھی تحریک انصاف کا ایک اور اسمبلی ممبر بلدیو کمار جسے بغیر کسی دباو کے گرفتار کر لیا گیااسی طرح چند دن قبل ایبٹ آباد کی خوبصورت وادی میں ایک پندرہ سالہ لڑکی کو زندہ جلا کر مار دیا گیااور ٹھیک دس دن بعد پولیس نے اس کیس کے دس ملزمان کو گرفتار کر کہ ریمانڈ لے لیا ہے اس کیس کے ملزمان تھے بھی جرگے والے اور جرگے کو کے پی میں کیا مقام حاصل ہے۔
یہ آپ سب جانتے ہی ہیں مگر ملزمان کوگرفتار کر لیاگیا کیونکہ اس بے گناہ کے قتل کو میڈیا میں بہت اچھالا گیا اور مجبورا پولیس کو ملزمان گرفتار کرنا پڑے۔میں بات کررہا تھا ملک کو لوٹنے والوں کی جن میں سیاستدان اور بیوروکریٹ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر لوٹ مارکررہے ہیں جنکے احتساب کا کوئی طریقہ کار ہی نہیں ہے یہاں تربوز چرانے کی سزاتو ہے مگر ملک لوٹنے والوں کے لیے کوئی قانون نہیں ہے۔
بلکہ ان بڑے بڑے لٹیروں کے سامنے قانون اندھا ہوجاتاہے ابھی چند دن قبل بلوچستان کے سیکریٹری خزانہ سے کروڑوں روپے رشوت کے برآمد ہوئے جبکہ پانامہ پیپرز نے تو ہمارے سیاستدانوں کو بلکل ہی ننگا کردیامگر اس کے باوجود پوری قوم خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہے کسی کو کوئی پرواہ ہی نہیں ہے کیونکہ ہمارے حکمرانوں عوام کے ضمیر بھی سلادیے ہیں اسی لیے تو وہ کھل کر کھیل رہے ہیں باپ کے بعد بیٹا لوٹ مار کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
Quaid e Azam
کاش کوئی سمجھ سکے کہ قائد نے کتنی قربانیاں دی اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے ،قائد اعظم نے رتی جناح سے پسند کی شادی کی لیکن ان دنوں قیام پاکستان کے سلسلہ میں اتنے مصرو ف تھے کہ رتی جی کو وقت نہ دے سکے رتی بہت ناراض رہنے لگیں اور آخر ایک دن غصے سے گھر ہی چھوڑ کرچلی گیں قائد اعظم کو افسوس تو تھا لیکن انہوں نے اپنی لگن اور محنت پاکستان کے حصول کے لیے مختص کررکھی تھی رتی قائد اعظم کی دوری سے افسردہ اور بیمار رہنے لگی تھی۔
ایک دن انہیں خط ملا کہ رتی بہت بیمار ہے قائد اعظم جب رتی کے پاس پہنچے تو تب تک بہت دیر ہوچکی تھی رتی کو لحد میں اتارا جارہا تھاوہ 29برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملی اور انکی وفات پر قائد اعظم کو پہلی بار کسی انسان کی محبت میں روتے دیکھا گیا۔
قائد اعظم نے ہمیں غیر مسلموں سے تو ملک آزاد کروادیا اب ہمیں ان لٹیرے مسلمانوں سے کون آزاد کروائے گا جو لٹ لٹا کر پاکستان آنے والوں کومزید لوٹ لوٹ کرخود کشیوں پر مجبور کررہے ہیں اور مک مکا کی سیاسی نورا کشتی نے جہاں پاکستان کی بنیادوں کو ہلا کررکھ دیا ہے وہیں عوام کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔