یمن (جیوڈیسک) یمن کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ عبدالملک المخلافی نے واضح کیا ہے کہ ”جب تک ضمانتیں نہیں دی جاتی ہیں اور ایک نظام الاوقات طے نہیں کر دیا جاتا،اس وقت تک (حوثی باغیوں کے ساتھ) کوئی امن مذاکرات نہیں ہوں گے”۔
عبدالملک المخلافی نے صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کے ترجمان راجح بادی کے اس بیان کا اعادہ کیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ضمانتیں ملنے، ڈیڈ لائن اور ہادی حکومت کی قانونی حاکمیت قبول کرنے کی صورت میں ہی امن مذاکرات بحال کیے جائیں گے۔
کویت میں حوثی باغیوں اور صدر منصور ہادی کی حکومت کے درمیان 21 اپریل کو اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے یمن اسماعیل ولد شیخ احمد کی ثالثی میں امن مذاکرات شروع ہوئے تھے۔یہ مذاکرات دو ماہ سے زیادہ عرصے تک جاری رہے تھے لیکن ان میں بحران کے پائیدار حل کے لیے کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوسکی تھی اور صرف فریقین کے درمیان قیدیوں کا ہی تبادلہ ہوا تھا۔
ان مذاکرات کے دوران عبدالملک المخلافی کی قیادت میں یمنی وفد گذشتہ سال اپریل میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔اس میں ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا سے کہا گیا تھا کہ وہ ہتھیار ڈال دے اور دارالحکومت صنعا سمیت اپنے زیر قبضہ تمام علاقوں کو خالی کردے۔
حوثی باغی اس کے جواب میں صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کی جگہ ایک نئی حکومت کے قیام کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن سرکاری وفد کا یہ موقف رہا ہے کہ منصور ہادی ملک کے منتخب اور جائز صدر ہیں اور ان کی صدارت پر کوئی کلام نہیں ہوسکتا۔
اقوام متحدہ کے ایلچی شیخ اسماعیل ولد احمد نے کویت امن مذاکرات کے پہلے دور کے اختتام پر دونوں فریقوں کو ایک تین نکاتی منصوبہ پیش کیا تھا۔اس میں یمن میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے اقدامات کے خدوخال بیان کیے گئے تھے۔اس تجویز کا پہلے حصے میں سب سے اہم فروری 2015ء کے بعد حوثی ملیشیا کی جانب سے جاری کردہ آئینی اعلامیوں کو کالعدم قراردینا اور اس کے نتیجے میں ریاستی اداروں میں رونما ہونے والی کسی تبدیلی کو ختم کرنا ہے۔
اس کا دوسرا حصہ بین الاقوامی حمایت یافتہ ایک فوجی کونسل کی تشکیل ہے۔یہ ان فوجی لیڈروں پر مشتمل ہوگی جو کسی بھی طرح جنگ میں شریک نہیں رہے ہیں۔اس کے تحت دارالحکومت صنعا اور اس کے نواحی علاقوں پر مشتمل ایریا اے سے حوثی فورسز کا انخلاء ہوگا اور دو ماہ کے اندر حکومت صنعا میں واپس آجائے گی۔
اس مجوزہ منصوبے کے مطابق حوثی ملیشیا جب صنعا کو خالی کردے گی اور اپنے ہتھیار بھی حوالے کردے گی تو پھر قومی اتحاد کی ایک نئی حکومت تشکیل دی جائے گی۔یہ حکومت عام معافی کا اعلان کرے گی اور مصالحت کا عمل شروع کرے گی۔اس کے تیسرے حصے کے تحت دوسال کے عبوری عرصے کے دوران میں ملک میں سیاسی عمل بحال کیا جائے گا۔