مغربی افریقہ (جیوڈیسک) باہر سب سے پہلے ایبولا کی شکار ہونے والی ہسپانوی خاتون نرس ٹیریسا رومیرو نے ہسپتال سے خارج پر اپنے احوال کی ایک جذباتی منظر کشی کی ہے۔ ٹیریسا رومیرو نے کہا کہ جب انھیں خیال آتا تھا کہ وہ مر رہی ہیں تو وہ اپنے خاندان اور یادوں کا سہارا لیتی تھیں۔
خیال رہے کہ ٹیریسا رومیر اس ٹیم کا حصہ تھیں جنھوں نے ان دو ہسپانوی پادریوں کی دیکھ بھال کی تھی جنھیں ایبولا کا شکار ہونے کے بعد افریقی ممالک سیرالیون اور لائبیریا سے سپین لایا گیا تھا۔ یہ دونوں پادری بعدازاں انتقال کر گئے تھے۔
ٹیریسا رومیرو کا مختلف طریقوں سے علاج کیا گیا جس کے بعد وہ صحت یاب ہوئیں۔ ان کا اعلاج ایبولا کے مرض سے زندہ بچ چانے والے ایک مریض پیشنسیا میلگار کے خون کے پلازمے سے بھی کیا گیا تھا۔ رومیرو نے کہا کہ وہ اس راہبہ سے مل کر گلے لگنا چاہتی ہیں جنھوں نے انھیں خون دیا۔ ’میں ان کا احسان نہیں چکا سکتیں۔‘ رومیرو کو اینٹی وائرس دوا بھی دی گئی تھی لیکن ہسپتال کے حکام یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کونسی دوا موثر رہی۔
کارلوس سوئم ہسپتال سے خارج ہونے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں جذباتی ٹیریسا رومیرو نے کہا اگر ان کے خون سے ایبولا کے دیگر مریضوں کا آفاقا ہوتا ہے تو وہ ان کے لیے اپنا سارا خون دے دے گی۔ سالہ نرس نے کہا کہ ’جب مجھے محسوس ہوتا تھا کہ میں مرنے والی ہوں میں 44اپنے یادوں، اپنے خاندان اور شوہر کا سہارا لیتی تھی۔ مجھے علیحدہ رکھا گیا تھا اور میرا اپنے شوہر کے ساتھ ٹیلی فون پر رابطے کے لیے باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔‘
انھوں نے کہا ’مغربی ممالک کے لیے اس مرض کی اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں تھی جب تک یہاں یہ بیماری نہیں آئی تھی۔‘انھوں نے حکام کو ان کے پالتو کتے ’ایکس کیلیبر‘ کو موت کی نیند سلانے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے کتے کو غیر ضروری طور موت دی گئی۔