اللہ رب العزت پوری کائنات اور اس میں جو کچھ بھی موجودہے ، اس کا خالق ہے۔اللہ کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ مخلوق ہے۔اللہ ازل سے ہے اور ابد تک ہوگا۔اس ازل کی ابتدا کیا ہے اور اس ابد کی انتہاکیا ،اس کو سمجھنے سے انسان کی عقل معذور ہے۔البتہ ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ تمام مخلوق کی ایک ابتداء بھی ہے اور ایک انتہا بھی۔جو کچھ بھی پیدا ہوا، فنا ہوگا۔کوئی استثنا نہیں۔رہنے والی صرف اللہ کی ذات ہے۔ ”روئے زمین پر جو بھی ہیں سب فانی ہیں۔اور تیرے رب کی عظمت و عزت والی ذات باقی رہنے والی ہے۔” (الرحمٰن ٢٦۔٢٧)ہم اور ہمارا اردگرد اپنے مقررہ وقت پر ضرور بالضرور ختم ہوگا اور جب اس خاتمے کاوقت آن پہنچے گااس کو کوئی بھی طاقت ادھر ادھر نہیں ٹال سکتی۔ چنانچہ فرمان ربانی ہے۔”سو جس وقت ان کی میعاد معین آجائے گی اس وقت ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے۔(الاعراف: ٣٤)”۔۔۔اور تمہیں ایک وقت مقررہ تک باقی رکھے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آجاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں جاتا۔کاش !تمہیں اس کا علم ہو۔” (نوح ٤)مسلمان کیلئے اللہ کا احسان ہے کہ اس کیلئے یہ راز بھر پور انداز میں واشگاف کیا گیا ہے کہ موت کے بعد ہمیں کہاں جانا ہے اور وہاں ہمارے تعلق سے کیا کارروائی ہوگی۔ جب انسان یہ سمجھ لے تو اس دنیا میں اس کے ہر فعل میں جواب دہی کا احساس موجزن ہوگا۔موت سے کوئی بھاگ نہیں سکتا۔فرمایا۔”ان سے کہو، ”جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تو تمہیں آکر رہے گی۔” (الجمعہ ٨)”پھر دیکھو، وہ موت کی جان کنی حق لے کر آپہنچی،یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔” (ق ١٩)کوئی مال،کوئی دولت،کوئی دعا ،کوئی جھاڑپھونک وقت مقررہ پر اس موت کو ٹال نہیں سکتا۔ملاحظہ ہو۔ ”اور اس کا مال آخر اس کے کس کام آئے گا جب کہ وہ ہلاک ہوجائے ؟” (الیل ١١) کہیں اور فرمایا۔”جب جان حلق تک پہنچ جائے گی،اور کہا جائے گاکہ ہے کوئی جھاڑپھونک کرنے والا،اور آدمی سمجھ لے گا۔
یہ دنیا سے جدائی کا وقت ہے، اور پنڈلی سے پنڈلی جڑ جائے گی،وہ دن ہوگا تیرے رب کی طرف روانگی کا۔” (القیمہ ٢٦۔٣٠) مال کے تعلق سے دل کو دہلادینے والا ایک اور فرمان باری تعالیٰ حاضر ہے۔”تباہی ہے ہر اس شخص کے لئے جو لوگوں پر طعن اور (پیٹھ پیچھے ) برائیاں کرنے کا خوگر ہے۔جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھا۔وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا۔ہرگز نہیں، وہ شخص تو چکنا چور کردینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا۔اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ چکنا چور کردینے والی جگہ؟ اللہ کی آگ، خوب بھڑکائی ہوئی، جو دلوں تک پہنچے گی۔وہ ان پر ڈھانک کر بند کردی جائے گی۔(اس حالت میں کہ وہ) اونچے اونچے ستونوں میں (گھرے ہوئے ہوں گے) (الھمزہ ١۔٩)عزیزواقارب سامنے ہوتے ہیں،ان کے سامنے کوئی جان دے رہا ہے۔وہ خلوص دل سے چاہتے ہیں کہ ان کا یہ چہیتا ابھی کچھ دیر اور ان کے درمیان جیے لیکن نہیں،کسی کی اس طرح کی کوئی خواہش کسی کی موت کو موخر نہیں کرسکتی۔”۔۔۔۔تو جب مرنے والے کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور تم آنکھوں سے دیکھ رہے۔
World
ہوتے ہو کہ وہ مررہا ہے، اس وقت اس کی نکلتی ہوئی جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے؟ اس وقت تمہاری بہ نسبت ہم اس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم کو نظر نہیں آتے۔” (الواقعہ ٨٤۔٨٥)موت اس دنیا سے ایسی رخصتی کا نام ہے جو irrevocable ہے۔ایک بار موت واقع ہوجانے کے بعد پھر اس دنیا میں واپس لوٹنا ممکن نہیں۔ یوں تو ہم روز ایسی کیفیت سے گذرتے ہیں جس میں اپنے آس پاس سے بالکل غافل بلکہ خود اپنے آپ سے بھی بے خبر ہوجاتے ہیں لیکن یہ ایک عارضی دور ہوتا ہے جس سے گذرکر واپس اس دنیا میں ہم روز آجاتے ہیں”وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اس کی روح نیند میں قبض کرلیتا ہے، پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقتِ مقرر کیلئے واپس بھیج دیتا ہے۔اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کیلئے جو غوروفکر کرنے والے ہیں۔” (الزمر ٤٢)زندگی ایک امتحان ہے اور موت اس امتحان کے وقت کا اختتام اللہ فرماتا ہے۔
”جس نے (یعنی اللہ نے) موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔” (الملک ٢)اس امتحان سے گزر کر ہمیں کہاں جانا ہے؟ کوئی فلسفی اس کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکتا ہے کیونکہ یہ سب پردہ غیب کی باتیں ہیں۔کوئی وہاں سے لوٹ کر آیا ہوتاتو اس کے تجربات کی بنا پر کچھ تحقیق ہوسکتی تھی لیکن ایسا کبھی ہوا نہیں۔شفیق ورفیق اللہ اور اس کے کلام پر قربان جائیں کہ اس نے انسان کے اس دائمی تجسس کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا۔فرمایا۔”ہرمتنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے،پھر تم سب ہماری طرف ہی پلٹاکر لائے جاو گے۔” (العنکبوت ٥٧) اسی طرح سورہ السجدہ کی آیت نمبر ١١ میں فرمایا۔”ان سے کہو ”موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تم کو پورا پورا اپنے قبضے میں لے لے گا۔
پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹا لائے جاو گے۔” یعنی جس خالق نے ہمیں اس دنیا میں بھیجا،اِس سے رخصت ہونے کے بعد ہمیں واپس اسی اللہ کی بارگاہ میں پہنچنا ہے ،بلکہ ہم مسلمان جب کسی کے انتقال کی خبر سنتے ہیں یا مال کا کوئی نقصان واقع ہوجائے تو فوراً اعلان کرتے ہیں۔”ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے ” (البقرہ ١٥٦)۔۔۔۔۔رزق کا بڑا وسیع مفہوم ہے۔عام طور پر ہم اسے صرف اشیائے خوردنی کے ساتھ وابستہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ اس سب کچھ پر محیط ہے جو اللہ نے انسان کو عطا فرمایا ہے،جس میں انسان کی توانائی،علم، دولت وغیرہ سب شامل ہیں۔چونکہ یہ سب کچھ اللہ کا عطا کردہ ہے اسلئے اس کا بہترین مصرف یہی ہے کہ اسے اللہ کے حکم کے تابع اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔جو لوگ اس بارے میں بخل سے کام لیتے ہیں ان کی موت کی منظر کشی قرآن ان الفاظ میں کرتا ہے۔
”جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور اس وقت وہ کہے کہ ”اے میرے رب!کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہوجاتا”۔ حالانکہ جب کسی کی مہلتِ عمل پوری ہونے کا وقت آجاتا ہے تو اللہ اس کو ہرگز مزید مہلت نہیں دیتا، جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے با خبر ہے۔” (المنٰفقون ١٠۔١١)اب جب یہ معلوم ہوگیا کہ ہمیں اللہ نے ہی خلق فرمایا ہے،وہی ہمیں ایک مقررہ وقت پر موت دینے والا ہے،جس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے،موت کے بعد ہمیں دوبارہ اسی کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔تو ذی شعور حضرات کا ترانہ بندگی یوں ہوتا ہے۔
”اور میں کیوں نہ بندگی کروں اس ذات کی جس نے مجھ کو پیدا کیااور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاو گے؟” (یٰس ٢٢) اور جن و انس کی مخلوق کو پیدا کرنے کا جو مقصد خود اللہ بیان کرتا ہے، وہ بالکل یہی ہے۔”ہم نے جن و انس کو اسی لئے پیدا کیا کہ وہ ہماری عبادت کریں۔” (الذاریات ٥٦)موت جیسی حقیقت کو ذہن سے محو کردینا کسی ذی ہوش کا کام نہیں ہوسکتا۔حضور پر نور ۖ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ ایمان والوں میں کون سا شخص سب سے زیادہ عقل مند ہے؟ آپ ۖنے فرمایا۔”ان میں جو سب سے زیادہ موت کو یاد کرنے والا ہواور موت کے بعد کیلئے جو سب سے زیادہ تیاری کرنے والا ہو،ایسے ہی لوگ سب سے زیادہ عقل مند ہیں۔”(ابن ماجہ) ترمذی شریف کی ایک حدیث ہے۔
آنحضور ۖنے فرمایا کہ ”عقل مند آدمی وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے اور مرنے کے بعد کیلئے عمل کرے، جب کہ عاجز اور درماندہ آدمی وہ ہے جو اپنے آپ کو اپنی خواہش کے تابع بنالے اور پھر اللہ تعالیٰ سے امیدیں باندھے۔”زندگی کی سب سے بڑی اور سب سے مبرہن حقیقت یعنی موت کو ہر آن یاد کرنے سے زندگی میں وہ توازن پیدا ہوجاتا ہے جو آخرت کی فلاح کیلئے ہمارا زیور ہوگا۔موت کو بھلادینے والا دنیا میں ایسا مگن ہوجاتا ہے کہ آخرت کی دائمی زندگی کی تیاری اور فکر اس کیلئے بے وقعت عمل بن کے رہ جاتا ہے۔اللہ ہم سب کو اس طرز زندگی سے بچائے۔آمین!
M.A.TABASSUM
تحریر:ایم اے تبسم (لاہور) email: matabassum81@gmail.com, 0300-4709102