تحریر : سلطان حسین ”مجھے جینے کا شوق نہیں ۔ پیتا ہوں غم بھلانے کے لیے”یہ میرے نہیں کسی شاعر کے الفاظ ہیں اب یہ تو علم نہیں کہ شاعر کو کیا غم تھا وہ زندہ ہے یا پھر کسی غم میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا کیا اسے بھی یہی مسلّہ تھا جس پر ہم اس وقت بات کررہے ہیں یا پھر وہ کسی اور مرض میں مبتلاتھا وہ تو پیتا تھا لیکن ہم نہیں پیتے کیوں کہ پینے کے لیے کچھ پاس ہونا چاہیے جو ہمارے پاس ہے نہیں اسی ہم کہتے ہیں کہ میں نے مرنا ہے یا ہم نے مرنا ہے ۔موت تو خیر بر حق ہے ہر ذی روح نے مرنا تو ہے چاہے وہ دنیا بھر کی دولت بھی سمیٹ لے اور اس خوش فہمی میں رہے کہ اس نے سدا جینا ہے پھر بھی اسے مرناتو ضرور ہے چاہے وہ دوسوسال کیوں نہ زندہ رہے ۔میرے پڑھنے والے یقینا اس عنوان سے چونک گئے ہوں گے کہ جب مرنا ہے تو پھر ۔۔۔یا پھر وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ میرا دماغ چل گیا ہے کسی حد تک ان کی سوچ درست بھی ہے لیکن اس سے قبل کہ آپ کو میں اس ۔۔۔پھر۔۔۔ کی بات بتاؤں ایک لطیفہ سنیے۔
ایک آدمی کافی دیر سے چھینک روکنے کی کوشش کر رہا تھا پاس بیٹھا ایک شخص بہت دیر سے یہ دیکھ رہا تھا جب اس سے نہ رہا گیا تو اس نے کہہ ہی دیا ” بھائی صاحب چھینک کو آنے دیجیے نا؟ آپ کیوں اسے روک رہے ہیں ”تب اس آدمی نے بتایا ”میں اپنی اس چھینک کو روکنے کی کوشش اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ میری بیوی نے کہا تھا جب بھی تمہیں چھینک آئے توسمجھنا میں تمہیں یاد کر رہی ہوں توتم فوراََ میرے پاس چلے آنا ”دوسر آدمی بولا ”تو اس میں کون سی بری بات ہے ”اس آدمی نے جواب دیا ”اس میں بری بات یہ کہ میری بیوی مر چکی ہے ”کہتے ہیں کہ جب بھی چھینک آئے تو کوئی نہ کوئی یاد کر رہا ہوتا ہے اسی لیے جب افغان صدر یا چیف ایگزیکٹیو کو چھینکیں آئیں تو وہ سمجھتے ہیں پاکستان نے یادکیا ہے اور پھر وہ اسی برہمی میں پاکستان کو برا بھلا کہتے ہیںچھینکیں کیوں آتی ہیں اس کا تو علم نہیں کیوں کہ ہم کوئی ڈاکٹر یا حکیم نہیںجب بن جائیں گے تو بتا دیں گے۔
ڈاکٹروں سے پوچھتے نہیں کہ وہ پھر فیس مانگیں گے ۔یہ بھی علم نہیں کہ چھینکوں کے بارے میںجو روایت ہے یہ صحیح ہے یا غلط لیکن یہ روایت ایک عرصے سے چلی آرہی ہے اور لوگ چھینک کے آتے ہی سمجھتے ہیں کہ فلاں نے یاد کیا ہے چھینک ہو یا ہچکی ہم اسے ایک عام سی بات سمجھتے ہیں ہم لوگوں نے اس سے اپنی روایات منسوب کی ہیں لیکن ڈاکٹر اس پر یقین نہیں کرتے وہ اسے دوسری بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہی سمجھتے ہیںشاہد اس لیے کہ اس میں ان کی فیسوں اور ادویات میں کمیشن کا مسلّہ ہوتا ہے اب یہی دیکھ لیں کہ ایک جاننے والے کو مسلسل چھینکیں آرہی تھیں اس اللہ کے بندے نے اسے روکنے کے لیے علاج شروع کیا تو صرف چھینکوں کو روکنے پر اس کے کم از کم ایک لاکھ روپے تک اڑ گئے یہ بھی اللہ کا شکر تھا کہ اس کی چھینکیں روک تو گئیں اگر نہ روکتیں تو وہ ڈاکٹر کا کیا کر لیتے؟؟؟اب سنا ہے کہ میڈیسن کمپنیوں کو لوگوں کا غم کھائے جارہا ہے اور وہ انہیںاپنی ” بیوی ”کے پاس بھیجنے کا پلان بنا چکے ہیں اور اس میں حکمران ان کی بھرپور مدد کررہے ہیں اور وہ اس طرح کہ خبر آئی ہے کہ حکومت نے میڈیسن فیکٹریوں اور اس کے غریب مالکان کی ”مجبوری” اوردرخواست کا پاس رکھتے ہوئے ادویات کی قیمتوں میں سو فیصد سے بھی زیادہ اضافے کی اجازت چھپ چھپا کر دے دی ہے۔
Pakistan Poor Peoples
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس کے عوض کسی غریب کو ان مالکان نے کچھ ”فائدہ ”بھی پہنچایا ہے کسی کو مہنگی کار ملی ہے تو کسی غریب کو دنیا کا ٹور کرایا جارہا ہے اور کسی غریب کی جیبیں بھر دی گئیں ظاہر ہے کہ” غریبوں” کی مدد کوئی بری بات نہیں لوگ ویسی ہی بات کا بتنگڑبنا لیتے ہیں اب اگر اس کے بعد ادویات مہنگی ہوں گی تو اس میں ان بیچاروں کا کیا قصور ہے ؟کیا انہیں ترقی کا حق نہیں ہے یا عوام کے سروں پر بہتر زندگی گذارنے کا حق انہیں حاصل نہیں ہے ؟آج کل تو ہر کوئی یہی کرتا ہے جس کو جہاں موقع ملتا ہے وہ ڈنڈی مارنے کی کوشش کرتا ہے پھر صرف ان بیچاروں کو کیوں بدنام کیا جارہا ہے اب اگر غریب مہنگی ادویات نہیں خرید سکتے تو اس کے ذمہ دار تووہ نہیں غریب پید اہی کیوں ہوئے ہیں انہیں مرجانا چاہیے جولوگ قیمتیں بڑھاتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس کا اثر عام آدمی پر نہیں پڑھے گا اب اگر عام آدمی اس سے متاثر ہورہا ہے تو اس میں ان بے چاروں کا کیا قصور ہے۔
اب یہ ان کا مسلّہ ہے کہ وہ اس سے کس طرح نمٹتے ہیںان کے مسائل کے ذمہ دار نہ تو وہ حکام ہیں جنہوں نے یہ اجازت دی ہے اور نہ ہی حکومت نے ان کے مسائل کے حل کا کوئی ٹھیکہ لے رکھا ہے آخر کب تک حکومت ان کے مسائل حل کرے گی کچھ مسائل تو وہ خود بھی حل کریںلیکن یہ غریب بھی بڑے ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں پھر بھی حکومت سے مطالبے کرکے مسائل حل کرنے کی توقع کرتے ہیں انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں کہ حکمرانوں کے کتنے مسائل ہیں انہیں اس سے فرصت نہیں پھر مسائل کی طرف وہ کیسے توجہ دیں گے اگر اس طرف توجہ دیں گے تو ان کی تجوریاں کون بھرے گا پھر پانامہ لیکس کیسے بننے گا دھرنوں سے نمٹنے کے گر کون سکھائے گا اور اس سے چھٹکارہ کیسے ہوگا۔
پھر فیکٹریاں کون بنائے گا رائیونڈ یا سرئے محل کیسے بنیں گے پھر دبئی میں ٹاور کیسے تعمیر ہوں گے یا پھر لندن میں فلیٹ کیسے خریدے جائیں’ سوئس اورغیر ملکی بینک اکاونٹس کیسے پھلیںپھولیں گے ‘ویسے بھی ان لوگوں کا کہنا ہے کہ غریب امیروں کی خدمت کے لیے پیدا ہوئے ہیں اگر سب امیر پیدا ہوتے تو امیروں کی خدمت کون کرتے وہ ٹھیک ہی توکہہ رہے ہیں غریب ان کی خدمت کریں اور ان ہی کے ہاتھوں سسک سسک کر سانس بھی لیں اور مہنگی ادویات خریدیں اگر نہیں خرید سکتے تو پھر ۔۔۔۔۔اسی لیے میرا عنوان ہے کہ میں مرنا چاہتا ہوں کیونکہ مجھے جینے کا حق ہی نہیں دیا جارہا ہے۔