تعلیم فرد اور معاشرے کی ضرورت، علم کی صورت میں پورا کرتی ہے۔ علم کی بدولت فرد اپنے ماحول کو مسخر کرتا ہے۔ اسے اپنے تصرف میں لاتا ہے، اس میں تبدیلیاں پیدا کرکے اسے اپنے لئے مزید مفید بناتا ہے۔ علم میں اضافہ، معاشرے کے ساتھ ہم آہنگی، زندگی کی بہتری کی خواہش اور اپنی شخصیت میں نکھار سے انسان ترقی کرتا ہے۔
ترقی دراصل بہتری کی خواہش کا اظہار ہے۔غیر تعلیم یافتہ فرد کے مقابلے میں تعلیم یافتہ فرد معاشرے میں ترقی میں زیادہ معاون و مددگار ثابت ہوتاہے۔ملک کی ترقی کا انحصار تعلیم یافتہ افراد پر ہے۔ جتنی کوئی قوم تعلیم یافتہ ہوگی۔ اپنی اجتماعی کوششوں سے ترقی کی قومی منزل اتنی ہی جلد حاصل کر لے گی۔ اسلام نے تعلیم کے حصول اور تعلیم کی اہمیت پر بڑا زور دیا ہے۔اسلام کے مطابق تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان عورت اور مردکا مقدس فرض ہے۔
مگر آج ہم مسلم معاشرہ کہلواتے ہوئے بھی تعلیم کو خیرآباد کردیا ہے۔ انسان جس سے تعلیم حاصل کرتا ہے آسان لفظوں میں اسے استاد کہتے ہیں۔کہتے ہیں انسان کے دو باپ ہوتے ہیں ایک مادی اور ایک روحانی۔ایک وہ جس کے نام سے جانے جاتے ہیں اور ایک وہ جس نے تربیت دی اور معاشرے کا عظیم انسان بنایا۔مادی باپ انسان کی پرورش کرتا ہے اس کی ضرویات پوری کرتاہے اور روحانی باپ انسان کو معاشرے کا عظیم شہری بناتا ہے ۔انسان کو شعور و آگہی دیتا ہے۔
استاد اور شاگرد کا رشتہ روح سا ہوتا ہے۔استاد شعور کی سیڑھیاں عبور کرواتا ہے۔جس نے استاد کی عزت کی وہ دنیااور آخرت میں سرخرو ہو گیا۔جس نے استاد کو اہمیت نہیں دی، زمانے نے اسے عبرت کا نشان بنا دیا۔در در کی ٹھوکریں اس کا نصیب ٹھہرا۔ایک وقت تھا شاگر د استاتدہ کا بڑھ چڑھ کر ادب و احترام کرتے تھے۔اپنے استاد کے جوتے اٹھاتے تھے،مگر آج کے شاگر جوتے مارتے ہیں۔جب سے حکومت نے ”مار !نہیں پیار ”کا فارمولا ایجاد کیاہے۔سٹودنٹ کی عیدیں ہو گئی ہیں۔عزت و احترام بوریا بستر اٹھاکر جنگلوں میں بسرا کرنے پر مجبور ہو گیا۔اب تو شاگرد استادوں کو جیلوں کے سپرد کرواتے ہیں۔پہلے استاد ڈنڈے مارتے تھے تاکہ شاگرد مار کے ڈر سے سبق یاد کریں اور ایک مقام پاکر اپنا اور ملک کا نام روشن کریں اور ملک ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں ۔مگر!۔۔فارمولے کے ایجاد ہوتے ہی بیچارے استاد اپنی عزت بچاتے پھرتے ہیں۔پہلے تنخواہ نہ ملنے کا غم تھا اب شاگردوں سے مار کھانے کا غم بھی شامل ہوگیاہے۔اگر شاگردوں کو کچھ کہتے ہیں رہی سہی عزت بھی جاتی ہے اور نوکری بھی گنوانی پڑتی ہے۔
School
پچھلے دنوں کی بات ہے میںاپنے دوست کو ملنے سکول گیا۔ خوشی خوشی گیا تھا اور غم دیدہ ہوکر وہاں سے نکلا۔تفریح کا وقت تھا ۔اس دوران بچوں کونماز ظہر باجماعت پڑھنی ہوتی ہے۔اسکول کا پی، ٹی بچوں کو نماز کے لئے بولارہا ہے۔ سکول کی دوسری منزل پر کھڑا ایک شاگر اپنے دوست کے ہمراہ سگریٹ کے کش پہ کش لگا رہا ہے۔استاد نے نماز کا کہا اور شاگر نے سگریٹ لہرا کر کہا بس سر!اس کے ختم ہوتے ہی حاضر ہوتے ہیں۔استاد بیچارہ بے بسی کیساتھ دوسری طرف چل دیا۔ میں یہ منظر تھوڑا دور بیٹھا دیکھ رہا تھا۔استاد کے دل پر کیا بیتی ہوگی ،استاد کوعلم ہوگا مگر جو میرے دل کی حالت تھی،اف اللہ!دل خون کے آنسو رو رہا تھا،آنکھیں چھم چھم برس رہی تھیں۔ہم نے یہ وقت بھی دیکھنا ہوگا۔
آج اگرآپ جائزہ لیں تو معلوم ہوگاسرکاری سکولوں کارزلٹ زیرہ لیول پر آگیا ہے۔تعلیم میں ترقی کرنے کی بجائے،تعلیم سے کوسوں دور جا بیٹھے ہیں۔ہمارے زمانے میں استاد کا رعب تھا،استاد کی بے ادبی کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا تھا۔اب استاد سر چھپاتے پھرتے ہیں۔کئی سر پھرے استادوں کو جیلیں دکھا دیتے ہیں۔ہمارے ملک میں جاگیرداری کا نظام ہے اور حکومت نے مار نہیں پیار کا فارمولا لگا کر اس نظام کو اور بھی مضبوط کردیا۔فارمولے کے نافذ ہوتے ہی پڑھائی رخصت ہوگئی اور غنڈہ گری میدان میں آگئی۔کالج،یونیورسٹوں میں مغربی تہذیب نے پہلے ہی ڈیرے ڈال لیے ہیں۔لڑکی اور لڑکا بانہوں میں بانہیںڈالے گھوم رہے ہیں۔بے پردگی کو عروج مل گیا ۔اسکول بچ رہے تھے وہاں اس فارمولے نے جادو کر دیا۔اب ہر بچہ شفقت چیمہ کا کردار ادا کررہا ہے۔بیگ میں کتابیں ہو ں نہ ہوں،love letterضرور ملیں گے۔قلم کی جگہ سگریٹ کے پیکٹ ملتے ہیں۔جب یہ عالم ہوگا تو یہ ملک،یہ معاشرہ کون سی ترقی کرے گا ۔آپ سبھی باخوبی جانتے ہیں۔
مفت کتابیں،وردیاں فراہم کرکے تعلیم میں ترقی نہیں کر سکتے جب تک کتابیں پڑھانے والے کی عزت و احترام کا خیال نہ رکھا جائے۔یہی حال رہا تو ملک ترقی کی ڈور میں بہت پیچھے رہ جائے گا۔جب ہم استاتدہ کا ادب و احترام نہیں کریں گے۔پھر ہم میں اور حیوان میں کیا فرق رہ جائے گا۔؟ اگر مار! نہیں پیار کا فارمولا لاگو ہی کرنا ہے تو حکومتی اور نجی سطح پر استاتدہ کے ادب و احترام کے حوالے سے نئی نسل کو بریف کیا جائے۔استاتدہ کا مقام بتایا جائے۔تاکہ نئی نسل ترقی کی طرف راغب ہو۔ مفت کتابیں،وردیاں،لیپ ٹاپ دینے کی پالیسی بھی ٹھیک ہے۔ مگر استاتدہ کو بھی اہمیت دی جائے۔استادکو مقام دیا جائے،تاکہ استاد بلاجھجک نئی نسل کو تعلیم دے سکیں۔بات عام سی ہے مگر وقت ملے تو ضرور سوچنا ۔اب فیصلہ آپ پرہے آپ کتنا کردار ادا کرتے ہیں۔
اتریں گی پریاں ہاتھ میں تارے لئے ہوئے نظریں فلک کی سمت اٹھانے کی دیر ہے
Majeed Ahmed
تحریر : مجید احمد جائی، ملتان majeed.ahmed2011@gmail.com