انسان جب بوڑھا، نحیف، بیمار اور لاغر ہو کر بستر سے لگ جاتا ہے تو خدا سے یہی دعا مانگتا ہے کہ یا اللہ اب مجھ میں زندہ رہنے کی سکت نہیں مجھے اپنے پاس بلا لے لیکن جب تک اوپر سے اس کا بلاوہ نہیں آتا وہ تڑپتا، سسکتا اور ایڑیاں رگڑتا ہے۔ “کیوں انسان کی روح بغیر تکلیف کہ نہیں نکلتی۔ یہی انسان جوانی میں زندہ رہنے کی تگ و دو میں پیروں، فقیروں، درگاہوں، مندروں، حکیموں اور ڈوکٹرز کے تلوے چاٹتا ہے بے تحاشا رقم خرچ کرتا ہے کہ کسی بھی قیمت پر کوئی اس کی جان بچائے لیکن زندگی کے آخری لمحات میں موت کی دعا مانگتا ہے، انسان کتنا ہی بہادر کیوں نہ ہو تکلیف برداشت نہیں کر سکتا۔
حالیہ رپورٹ کے مُطابق دوہزار تیرہ میں ایک سو پچپن شدید بیمار جرمن مریضوں نے اپنی موت کو آسان بنانے کے لئے ڈوکٹر ز اور ہو سپیٹل کے عملہ کی مدد سے دنیا چھوڑی بدیگر اِلفاظ اپنی مرضی اور خوشی سے دنیا کو خیر باد کہا اور موت کو گلے لگایا ۔ سابق ڈپٹی ہیڈ ٹیچر پیٹر پوپےPeter Puppe نے گزشتہ دنو ں جرمن ٹی وی چینل اے آر ڈی پر یہ انکشاف کیا کہ وہ ہر سال چار یا پانچ سنگین بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو مرنے میں مدد کرتا ہے ، اس نے بتایا کہ یہ کام وہ دوہزار پانچ سے بخوبی انجام دے رہا ہے ، کاک ٹیل میں مخصوص دوا مِلا کر مریض کو پلا دیتا ہے کیوں کہ جب مجھے مریض کی طرف سے اِشارہ موصول ہوتا ہے کہ اَب بس میں اور زِندہ نہیں رہنا چاہتا کیوں کہ مزید تکلیف برداشت نہیں کر سکتا اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا نہیں چاہتا مجھے مار دو تو مجبوراً مجھے اُس کی بات ماننی پڑتی ہے تاکہ وہ تکلیف سے نِجات حاصل کرے اور یہ دنیا چھوڑ دے۔
اِن حالات میں کِسی اِنسان کو مرنے میں مدد کرنے کے عمل کو میں قانونی سمجھتا ہوں ، یہ بات میونخ کے طبی قانون دان وولف گینگ Wolfgang نے ایک سوال کے جواب میں کہی ، میں سمجھتا ہوںکہ پیٹر پوپے اگر کسی قریب المرگ مریض کو مرنے میں مدد کرتا ہے تو وہ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ مریض کی خواہش پر عمل کرتا ہے اور یہ کوئی غیر قانونی کام نہیں۔ وفاقی وزیِر داخلہ مسٹر ہَرمن گروہے Hermann Groehe کا کہنا ہے کہ اس فورم میں موت کی مدد کا طریقہ غلط ، ممنوع اور سزا پر مبنی ہے ، مُمتاز سیاسی پارٹی سی ڈی یو کے نمائندہ گان ، سیاسی پارٹی ایس پی ڈی کے سابق چئیر مین مسٹر فرانز منتے فیرنگ Franz Muentefering اور گرین پارٹی کے سیاست دانوں نے اس بے رحمانہ قتل کے قانون کو ری جیکٹ کیا اور فوری ختم کرنے کو کہا۔
لاتعداد مریضوں کی خود کشی کے بارے میں سوچ “۔ڈوکٹرز کی مدد سے شدید بیمار مریضوں کی خود کشی کی سوچ پر ایک حالیہ رپورٹ میونخ یونیورسٹی میں تیار کی گئی ہے جس میں بتایا گیا کہ پٹھوں کے فالج میں مبتلا چھیاسٹھ فی صد مریض صِرف تکلیف محسوس کرتے ہیں لیکن بیالیس فی صد واقعتا فالج میں مبتلا ہیں پچاس فی صد ڈوکٹر سے اِلتجا کرتے ہیں کہ اُنہیں خود کُشی کرنے میں مدد کی جائے ۔ کچھ مریضوں سے خُود کُشی کے بارے میں اِ نٹر ویوز بھی لئے گئے لیکن ان کا کہنا تھا ہم ایسی باتیں ڈوکٹر ز سے کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ۔ ان تمام باتوں سے کوئی نتیجہ اَخذ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ ڈوکٹرز اور مریض کے تعلقات کا معاملہ ہے ، مکمل طور پر شدید بیمار مریضوں کی خود کشی کی امداد کو بند کرنے کے حق میں نہیں ہوں ، یہ بات میونخ کے ایک ڈوکٹر نے کہی ان کا کہنا ہے کہ اس سنجیدہ معاملے کو واضح ضوابط اور کنٹرول کے تحت حل کیا جانا چاہئے ، ڈوکٹر ز کی مدد سے خود کُشی کے اس عمل کی ممانعت سے شدید بیمار مریض کے ساتھ انصاف نہیں ہو گا ، ہمیں مریضوں کے حقوق اور سیفٹی کے علاوہ ان کے اندر خوف اور خود مختاری کو کسی قیمت پر ٹھیس نہیں پہنچانی چاہئے۔
مسٹر مائیکل ریڈر۔ سابقہ انٹر نِسٹ، انتہائی نگہداشت کے ڈوکٹر اور طویل عرصہ برلِن کے شہری ہوسپیٹل میں چیف فزیشن رہے فی الحال برلِن ٹیمپل ہوف میں واقعہ ایک فاؤنڈیشن کے سر براہ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ شدید بیمار جو خود اپنی زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں اُن مریضوں کی مدد کرنا ضروری ہے تاہم بنیادی طور پر اُن کی دیکھ بھال اَشد ضروری ہے آخری حَربہ ڈوکٹر کی مدد سے خود کُشی ہو سکتا ہے، انسانی مصائب اور خاص طور پر مایوس کُن بیماری یا شدید درد کی حالت میں مریض کے خود کُشی کے ارادے کو ختم یا رَد نہیں کیا جا سکتا اِن حالات میں مریض کی ذہنی حالت کو مدنظر رکھنا بھی لازمی ہے۔
Disease
طویل عرصہ انٹرنِسٹ رہنے والے ڈوکٹر ریڈر کا کہنا ہے کہ اِن حالات میں مریض کا کہا ماننا ہی بہتر ہے کیوں کہ جب میڈیسن اَثر نہیں کر رہی اور اُس کا عِلاج ہی نہیں ہو رہا تو مریض کا حق ہے کہ وہ اپنی موت کا وقت تعین کرے ، کِسی سرکاری اِدارے ، گِرجا گھر، ہوسپیٹل، تَنظیم یا ڈوکٹر کا حق نہیں ہے کہ مریض کو اُن کی مرضی سے موت آئے یا جیسے وہ چاہیں مریض ویسے مرے ، اِ ن حالات میں ڈوکٹر ز اور مریض کی باہمی رضا مندی سے مریض کے رِ شتہ داروں کو آگاہ کرنا لازمی ہے اور سب کے مُشترکہ فیصلے سے مریض کو اپنی مرضی سے مرنے دیا جائے۔گزشتہ دہائیوں میں میڈیسن نے بہت ترقی کی اور بیماریوں کی روک تھام ہوئی لیکن کئی دواؤں کے استعمال سے مریضوں کی ایک بیماری ختم ہوئی تو تین دوسری خوفناک بیماریوں کا انکشاف ہوا ، اُ س زمانے میں اگر کسی مریض کی موت قُدرتی ہونا تھی تو نئی ایجاد کی گئی دوا نے بیماری کو طویل کیا یا اُسے مزید بگاڑ دیا اور اکثر اُس مریض کو فالِج ہو گیا آج کی میڈیسن بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں ایک بیماری کو ختم کیا جاتا ہے تو دوسری پر قابو پانے کے لئے نئی دوا کا استعمال شروع ہو جاتا ہے اور کئی بار انسان تندرست ہونے کی بجائے مزید بیمار ہو جاتا ہے ، اِ س کی ایک مثال ٹیومر ہے اِس بیماری میں انسان صِرف مرنے کی ہی خواہش رکھتا ہے، میری رائے میں ڈوکٹرز کی مدد سے مریض کی خود کُشی جائز ہے لیکن ضروری نہیں ، کیوں کہ کسی ڈوکٹر کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مریض کی جان لے لیکن آخری حربہ خود کشی ہے۔
ڈوکٹرز کی ایک تہائی تعداد اِس بے رحمانہ قتل کے خِلاف ہیں ۔ جرمنی کے شہر کیل Kiel میں ہونے والی طبی کانفرنس میں گزشتہ سال اس موضوع کو بند کر دیا گیا تھا دو تہائی اکثریت کے ساتھ فیصلہ کیا گیا کہ معالِج کی مدد سے خود کُشی کی ممانعت ہے ۔ ریاست کے میڈیکل بورڈ نے کافی سوچ بِچار کے بعد فیصلہ کیا کہ ڈوکٹر کے پیشے میں اس قِسم کی مددگار موت کا کوئی وجود نہیں ہے کیوں کہ مدد گار موت ڈوکٹر ز کے فرائض میں نہیں ، ہمیں کھُلے اور مُشاورتی نتائج کی ضرورت ہے ، ہمیں ہوسپیٹلز میں مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے مزید توسیع کی ضرورت ہے ہم چاہتے ہیں کہ مریض شدید تکلیف دہ بیماری میں بھی بغیر کسی ڈوکٹر کی خود کشی امداد کے انسانی ، امن اور دیگر قانونی طریقے سے مرے۔
مسٹر ایڈزد شمت ۔ جور ٹزِگ ۔ Edzard Schmidt-Jortzigانیس سو چھیانوے سے اٹھانوے تک جسٹس وزیر رہے اور سیاسی پارٹی ایف ڈی پی کے ممبر بھی ، انہوں نے میڈیسن اور حُقوق پر ایک کتاب بھی تحریر کی ، سابق وزیر کا کہنا ہے کہ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی زندگی جینے کا فیصلہ خود کرے اور اُسے آخر تک کیسے پہنچائے لیکن کِسی بھی صورت میں خود کشی میں مدد کرنے کا حق نا قابل قبول ہے۔
آج عام رائے ہے کہ انسان آزادانہ طور پر خودداریت کا حق رکھتا ہے صرف اِ س لئے کہ وہ انسان ہے لیکن کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی زندگی کا خود خاتمہ کرے یا کسی دوسرے سے مدد کا طالِب ہو اِس کو دوسرے پہلو یا نقطہ نظر سے ایسے دیکھا جا سکتا ہے کہ مرنے والا کسی کو کہے میں زِندہ رہنا نہیں چاہتا تم مجھے مار دو لیکن مارنے والے کا ضمیر یہ کیسے گوارہ کرے گا کہ وہ کسی بے گُناہ کا خون کرے علاوہ ازیں معاشرے اور ریاست میں خود کشی جیسے عمل کو ختم کر کے سہولت فراہم کرنی چاہئے اور مرنے میں مدد کے حق کو ناقابل قبول قرار دیا جائے انسان کو اپنی زندگی کا تعین کرنے کی آزادی اور اسے استعمال کرنے کا حق ہونا چاہئے اس کے علاوہ قانونی اور اِخلاقی طور پر معاشرے سے یہ پہلو ختم کر دینا چاہئے کہ مرنے والے کی مدد کی جائے تا کہ وہ جلد مرے۔ ستر فی صد جرمنوں کا کہنا ہے درد سے نجات کے لئے مرنے میں مدد چاہیں گے۔ اکثریت کا دعویٰ ہے کہ شدید تکلیف میں مدد گار موت ہی بہتر ہے۔
ہیلتھ انشورنس کمپنی کے سروے کے مطابق چودہ سے انتیس برس کے افراد کے خیال میں مرنے میں مدد ہو نی چاہئے ساٹھ سال سے اوپر کے افراد بھی اسی حق میں ہیں جب کہ اکتالیس فی صد ایسی موت کو اچھا نہیں سمجھتے اور سولہ فی صد اس کے خلاف ہیں۔رالف شمت۔Ralf Schmidt کئی سال وارڈ بوائے کی حیثیت سے ہوسپیٹل میں کام کر چکا ہے ایک واقعہ کے بارے میں اس نے بتایا کہ ایک چالیس سالہ مریض کو پیٹ کی رگوں میں خون کی بندش کی بنا پر ہوسپیٹل لایا گیا وہ شدید تکلیف میں مبتلا تھا ناف سے نیچے پاؤں تک کا تمام حصہ نیلا پڑ چکا تھا اور اوپریشن لازمی قرار دیا گیا۔Implanted aortic بہت بڑی اور خطر ناک سرجری کے کچھ ہفتوں بعد ہائی رِسک کے ساتھ وہ اپنی ذمہ داری پر گھر چلا گیا تکلیف کی صورت میں ٹیبلیٹس ، کیپسولز اور الکوحل سے اپنے جسم کو سُن رکھتا چند ہفتے گزرنے کے بعد بذریعہ ایمبو لینس دوبارہ ہوسپیٹل پہنچایا گیا اس کی ٹانگوں کی رگیں سیاہ اور تقریباً ساکت ہو چکی تھیں علاج کرنے کی کوشش کی گئی لیکن رفتہ رفتہ وہ سبز اور گلابی ہوتی گئیں اور سڑے گوشت کی بد بو پورے وارڈ میں پھیلتی گئی اوپریشن ممکن نہیں تھا اور کئی ہفتے شدید تکلیف میں رہنے کے بعد وہ جوان آدمی مر گیا۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ جو پیدا ہوا ہے اُسے ایک دن مرنا ہے۔ انسان کو جس خمیر سے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اس کی ایک حد بھی مقرر کی ہے اللہ تعالیٰ غیب کا علم رکھنے کے ساتھ ساتھ جانتا ہے کہ کب اور کِس لمحے فلاں فلاں انسان نے دنیا سے رُخصت ہونا ہے ، کتابوں اور باتوں کو دیکھا جائے تو بے شمار اِلفاظ ہماری آنکھوں اور ذہن میں گَردِش کریں گے جیسے کہ اُمید، قِسمت، سِتارے، بہانہ وغیرہ وغیرہ لیکن یہ سب دِل بہلانے اور ہمت بڑھانے تک ہی محدود ہیں کیوں کہ جب موت آتی ہے تو اِن اِلفاظ کو یکسر نظر انداز کر کے آتی ہے، انسان صرف اپنی دِلی اور ذہنی تسلی کے لئے اِن الفاظ کا سہارا لیتا ہے لیکن ان الفاظ کو بے معنی بھی قرار نہیں دیا جا سکتا یہ الفاظ ہی موت کی وجوہات ہیں۔
موت انسان کا ہر لمحہ پیچھا کرتی ہے موت کسی بوڑھے، جوان، عورت، بچے، امیر غریب، بیمار تندرست کو نہیں پہچانتی۔ جس انسان کا زندہ رہنے کا پیریڈ ختم ہو جاتا ہے ہم انسان اُسے بہانہ، قسمت ، اور ستاروں کا کھیل سمجھتے ہیں لیکن بھول جاتے ہیں کہ گھر ہو، سڑک ہو یا ہوسپیٹل ہماری زندگی کا آخری سٹیشن قبرستان ہے۔ ایک کہاوت ہے۔ زندگی گزارنا مشکل ہے لیکن مرنا اس سے بھی زیادہ مشکل۔(یواین پی)