تحریر : شہزاد حسین بھٹی انسانی صحت سے کھیلنا پاکستان میں کوئی نیا نہیں ہے۔ آئے روز عوام کو ناقص خوراک ، کھادوں کے استعمال، جعلی مصالوں،ناقص دودھ ، گدھے اورکتے کے گوشت ، برائلر مرغ سمیت نہ جانے کیا کیا خوراک کے نام پر کھلایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں زندگی سے زیادہ موت سستی ہے۔ یہ موت ایک ڈھابے سے لے کر اعلیٰ ہوٹلوں تک ہر جگہ بانٹی جا رہی ہے۔ ہمارے پڑے لکھے اور باشعور عوام بھی معاشرے میں پائی جانے والے گندگی کے ان ڈھیروں کا تدارک کرنے کے بجائے ان کی افرائش کو روز دیکھتے ہوئے یہ کہہ کر گزر جاتے ہیں کہ ہمیں کیا! ہماری ذمہ داری تھوڑی ہے۔حکومت جانے اور ا س کا کام۔یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہم ہراچھے برے کام کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیتے ہیںاور یوں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ براہ ہو جاتے ہیں۔آج سائنس نے جتنی ترقی کی ہے اُتنی ہی یہ انسانی تباہی کی ذمہ دار ہے۔ سائنس کی بدولت ہم چاند تک پہنچ گئے ۔ تیز رفتار براق بھی بنا ڈالے لیکن یہ انسان کی طبعی زندگی میں کوئی انقلاب نہیں لا سکی۔ جراثم کے طاقتورہونے کی بدولت بیماریاں انسانوں پر حملہ آور ہوتی ہیں اور انسانی اوسط عمر سو سال سے کم ہو کر پچاس سال رہ گئی ہے۔ چالیس کی دہلیز پار کرتے ہی ہمارے جوان بیماریوں کی گرفت میں آ جاتے ہیں ۔ کسی کو دل کا عارضہ لاحق ہے تو کسی کے گردے فیل ہو گئے ہیں، کسی کوکینسر ہو گیا تو کسی کو شوگر،کسی کو جوڑوں کا درد ہے تو کوئی اعصابی کمزوری کا شکار ہے۔
اعلیٰ تعلیم و شعور کی پختگی ہونے کے باوجود آج ہم ماضی کی نسبت سخت جان ہونے کے بجائے برائلر بن گئے ہیں۔جب سے برائلر مرغ ہماری زندگیوںمیں آیا ہے مندرجہ بالا بیماریاں ہمارے جسموںمیں سرایت کر گئی ہیں۔تیس دن میں تیار ہونے والے مرغے کی خوراک میں ہسپتالو ںکے فضلے سمیت گندگی کی تمام اقسام اسے کھلائی جاتی ہیں اوراینٹی بائیٹکس کے ٹیکے لگا کر اسے اتنا موٹا تازہ کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی جان بھی نہیں سنبھال سکتا اور ہم اسے بڑے شوق سے اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں کیونکہ ہماری خواتین کے بقول یہ جلدی تیار ہو جاتا ہے ۔ اس مرغ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے بچے جلد جوان اور جوان جلد بوڑے ہو رہے ہیں۔ شوگر، دل کے امراض،گردے اور جوڑوں کے درد آج کل ہر دوسرے شخص کو لاحق ہیں۔
ابھی گذشتہ دنوں ڈبے کے دودھ کے بارے میں ایسے حقائق پرنٹ میڈیا اور الیکڑانک میڈیا پر زیر بحث لائے گئے کہ دودھ پینا تو درکنار ددوھ کی طرف دیکھنے کو بھی دل نہیں کرتا۔ڈبے والے دودھ کے تمام سیمپلز رجیکٹ کردئیے گئے کیونکہ کوئی ایک بھی مطوبہ معیار کے مطابق نہیں تھا۔ یہی نہیں بلکہ دودھ کو محفوظ بنانے کے لیے ُمردوں کو محفوظ بنانے والے کیمیکل ، ہائیڈوجن پر آکسائیڈ، فارمولین، یوریا اور دیگر کئی کیمکل استعمال کیے جا رہے ہیں جو کہ انسانی صحت کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ہیں۔
Supreme Court
اس معاملے کے منظر عام پر آنے اور سپریم کورٹ کے نوٹس لینے پر پنجاب فوڈ اتھارٹی بھی حرکت میں آئی اور اپنا جواب داخل کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ہمارااختیار صرف پانچ اضلاع تک ہے ۔جس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم آپ کو پورے صوبے میں جانے کی اجازت دے رہے ہیں، آپ عدالت کے نمائندے کے طور پر وہاں جائیں، جن ملک پلانٹوں اور ڈیری کولیکشن سنٹروں کی چیکنگ نہیں ہوئی وہاں کا دودھ بھی ٹیسٹ کرائیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیس انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اللہ توفیق دے تو معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے، خالص دودھ اور صاف پانی کا حصول شہریوں کا بنیادی حق ہے۔عدالت نے فوڈ اتھارٹی کو صوبے بھر میں ناقص دودھ فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر رپورٹ طلب کر لی۔
ابھی دوروز قبل انکشاف ہوا کہ لاہور کے سب سے بڑے ہسپتال “میو ہاسپٹل” میں ہسپتال کے معزز مسیحا تندرست انسانوں کو ہارٹ پیشنٹ قرار دے کر انہیں فوری آپریشن کا مشورہ دیتے اور ساتھ ہی دوسرے کمرے میں اسٹنٹ بنانے والی دونمبر کمپنی کے سٹنٹ جسکی مالیت پانچ ہزار سات سو روپے تھی مریض کے لواحقین کو دکھا کر تین لاکھ روپے میںانسانی جسم میں ڈالے جا رہے تھے۔ جسے ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے خود دل کا مریض بن کر اس گھناونے کھیل کا پردہ چاک کیا۔انسانی زندگی بچانے والے ہسپتالوں میں چند روپوں کے لالچ میں انسانی جانوں سے کھیلنے والے یہ لوگ انسان کہلانے کے حقدار نہیں۔امراض دل کے مریضوں کو لائف ٹائم مہنگے سٹنٹ کی قیمت پر یہ ناقص اور چند ہزار روپے والے غیر معیاری سٹنٹ لگانا بدترین اور ناقابل معافی جرم ہے۔ جو لوگ یہ ناقص سٹنٹ بناتے ہیں
ہسپتالوں کے ڈاکٹرزملی بھگت سے لاکھوں روپے والے اصلی سٹنٹ کی جگہ یہ ناقص سٹنٹ مریضوں کو لگاتے ہیں وہ حقیقت میں انسانیت کے دشمن ہیں۔اس سے پہلے وزیر اعلیٰ کی ناک تلے پی آئی سی میں دل کے مریضوں کو زائدالمعیاد ادویات دینے سے پچاس سے زائد مریض ہلاک ہو گئے تھے۔اب یہ نیا اسکینڈل نہ جانے کتنے مریضوں کی جان لے گا ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں پائی جانیوالی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنا وقت کی ناگزیر ضرورت ہے ہمیں بیرونی دشمنوں سے زیادہ اپنی صفوںمیں موجودموت کے سوداگروں کی نشاندہی اور ان کا قلع قمع کرنا ضروری ہے تاکہ عوام کوصحت عامہ کی بہتر سہولیات مہیا کی جاسکیں ۔ اچھی صحت ہمارے بچوں کا مقدرہونا چاہیے اس کے لیے ہم سب کو ملکر کام کرنا ہو گا۔