تحریر : نگہت سہیل ہے جہاں تک خیال کی پرواز میں وہاں تک قفس لکھے جاؤں
موت کا رقص جاری ہے ٬ موسم بدل چکا ٬ قاتل ہوا کا ہر جھونکا درختوں کے زرد پتوں کو شاخوں سے الگ کرنے میں مصروفِ عمل ہے ٬ کائنات کی ہر شے روبہ زوال ہے٬ آدم سے لے کر آج تک بلکہ ہر ذی روح نے مرنا ہے ٬ مگر یہ کیسا زمانہ آگیا ٬ کہ ہر طرف صرف موت رقص کناں ہے ٬ میں کس کا ماتم کروں میں کس کا نوحہ لکھوں٬ فلسطین کے معصوم لوگوں کا ٬ یا پاکستان کے اُن مزدوروں کا جو رزقِ حلال میں اپنے گھروں سے دور جاتے ہیں مگر دہشت گرد واپس نہیں آنے دیتے٬ اور خود مٹی کا رزق بن جاتے ہیں٬ دل میں عجب کیفیت کا عالم ہے٬ خزاں کا موسم اپنے ساتھ حُزن و ملال لایا ہے٬ ہمارے پیارے دیس کے صوبہ سندھ کے علاقے مِٹھی میں بھوک اور افلاس سے جاں بحق ہونے والے معصوم بچوں کی تعداد آج 16 ہو گئی ٬ یہ کس کے جگر گوشے ہیں٬ جن کے مرنے کی خبر تو آ جاتی ہے٬
مگر ان کے غم میں زندہ درگور ہونےوالے والدین کو پُرسہ دینے والا کوئی نہیں ٬یا پھر ایک اور علاقے کی خبروں کے مطابق ایک ماں اپنے دو معصوم بچوں سمیت چھت سے چھلانگ لگا دیتی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یا میں اُس ماں کا ذکر کروں جس نے نشئی خاوند کی بک بک سے تنگ آکر اپنے 6 ماہ کے بچے کو بھی زہر دے دیا٬ اور خود بھی خُود کُشی کر لی ٬ عجیب معاشرہ ہے جہاں عورت کو صبر و برداشت کا سبق پڑھا کر والدین اپنے سر سے بوجھ کی طرح اتار کر درندوں کے حوالے کر دیتے ہیں ٬ ایسے والدین جو اس روایت کو خوش اسلوبی سے صدیوں سے نبھاتے آ رہے ہیں٬ اب ان کی بے بس اموات پر آنسو بہائیں تو کیوں؟
یہ ساکت و جامد بنتِ حواّ اپنی منصفی چاہیں تو کس سے؟ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے٬ کہ ہر ظلم کا شکار عورت ہی کیوں بنتی ہے٬؟ صرف قربانی عورت ہی کی گھٹی میں کیوں ڈالی جاتی ہے؟ ظلم سہنے کا سبق اسے ہی کیوں دیا جاتا ہے٬؟ ماں ہے تو بچوں کی بھوک نہیں دیکھ سکتی ٬ بیوی ہے تو شوہر کے ظلم کا شکار؟ بہن ہے تو بھائیوں کی جُدائی میں روتی ہے ؟
Pakistani Woman
اور اگر بیٹی ہے تو بابل کی لاج سنبھالتے ہوئے چُپ چاپ زہر کھا لیتی ہے؟ ایسی تبدیلی کب آئے گی جب عورت بھی سر اٹھا کر جیے گی؟ اُسے بھی انسان کے درجے پر رکھا جائے گا٬ اکثر مرد اپنی ناکامیاں اور محرومیاں چھپانے کے لئے عورت کے کردار کو ہی مشکوک بنا دیتا ہے٬ اور ایسے میں عورت تمام عمر ناکردہ گناہ گناہ کی سزا بھگتتی ہے یا سنگسار کر دی جاتی ہے ٬ ایسی ہی ایک کہانی سامنے آئی جہاں خرچہ مانگنے پر شوہر نے بیوی کے ساتھ اپنی اولاد کو بھی گولیوں سے چھلنی کر دیا٬ اور وجہ اس کے مشکوک کردار کو بنایا بھوک و افلاس کی یہ داستانیں یقینا نئی نہیں ہیں٬ اور نہ ہی خلیفہ وقت کے شاہانہ طرزِ زندگی کے قصے ٬ سندھ کی بات کی جائۓ تو بلاول ہاوس پورے ملک میں بننے کی بات کی جا رہی ہے جبکہ اندرونِ سندھ بھوک کا جن معصوم بچوں کو ہڑپ کیے جا رہا ہے٬ سمجھ نہیں آتی کہ ایک انسان پاکستان کے کتنے محلات میں رہے گا٬؟ دو گز زمین ہی کافی ہے بعد مرنے کے٬ یا ہمارے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ ملک سے غربت نہیں غریب مکاؤ کے تحت پوری دنیا سے بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں اور اربوں ڈالرز صرف ان کے گھر کے لان میں پلنے والے اُن اعلی ٰ نسل کتوں اور موروں کی خوراک بنتے ہیں٬
نہ کوئی ُپوچھنے والا نہ کوئی منصف بنتِ حوا جائے تو جائے کہاں؟؟
اپنے ہی بچوں کا قتل کرنے پر مجبور کر دی جائے گی ٬ ایسے حالات میں عورت بچے پیدا نہ کرے تو بانجھ کہلا کر دربدر یا جلا دی جاتی ہے تا کہ خلاصی ہو سکے اور اگر وہ خود کو محفوظ کرنے کے لیے ان مسائل کے باوجود جانشین کو دنیا میں لے آئے تو کھلانے کو دو وقت کی روٹی نہیں؟؟ عالمی تنظیمیں ملالہ کو ایک دن کی چاکلیٹ نہ خریدنے پر امن کا نوبل انعام تو دے سکتی ہے٬ مگر ان بھوکوں کو کھانا نہیں دے سکتی٬
Malala Yousafzai
ایسے میں حکومت کا فرضِ اولین ہے کہ ایسی خبروں کا نوٹس لے اور حتی الوسع اپنے فرائض میں کوتاہی نہ برتے٬ نہیں تو بے حسی کا یہ عالم ہو رہا ہے٬ کہ لوگ اپنی بھوک مِٹانے کے لئے “” ایدھی سنٹر کو لوٹنے سے بھی باز نہیں آئیں گے یتیموں کا مال تک کھا جائیں گے ایسانہ ہو قہرِ الہی اب ایسے حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے٬ جن کے باعث ملک میں لاقانونیت اور بربریت کی آفتیں قابو سے باہر ہو رہی ہیں٬ ایسے میں ضرورت ہے حضرت عمر جیسے رہنما کی ٬ جو عرفات کے کنارے ایک بکری کے بچے کو بھوک سے مرتا نہی دیکھ سکتے ٬ کاش عمر جیسا ایک خلیفہ یا رہنما اس پیارے پاکستان کو بھی نصیب ہو جائے ٬حکمرانوں کے نام ایک شاعر کا پیغام فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ،