پیرس (جیوڈیسک) انسانی حقوق کی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ 2014 میں موت کی سزا میں 28فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سزائے موت پر سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 55 ممالک میں 2,466 افراد کو سزائے موت سنائی گئی، جبکہ 22 ممالک میں 607 افراد کی موت کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بشمول پاکستان ان ممالک کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا، جہاں سزائے موت پر عملدر آمد بحال کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں اس وقت سزائے موت پر عملدر آمد بحال کیا گیا، جب گزشتہ دسمبر میں طالبان نے پشاور میں فوج کے زیرِ انتظام چلنے والے ایک اسکول پر حملہ کر کے بچوں کی ایک بڑی تعداد سمیت 150 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’اس بات پر تشویش ہے کہ کئی ملکوں نے 2014 میں دہشت گردی، جرائم یا داخلی عدم استحکام کی وجہ سے ملکی سلامتی اور شہریوں کے تحفظ کو لاحق سمجھے جانے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے سزائے موت کو استعمال کیا‘‘۔ جن دوسرے ملکوں نے 2014 میں سزائے موت پر دوبارہ عملدر آمد شروع کیا، ان میں اردن، سنگاپور، مصر، بیلاروس، متحدہ عرب امارات اور گنی شامل ہیں۔ گزشتہ برس دنیا بھر میں لگ بھگ 19,000 افراد موت کی سزا کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔
رپورٹ میں شامل اعداد و شمار نامکمل ہیں، کیونکہ شمالی کوریا سے سزائے موت سے متعلق کوئی معلومات حاصل نہیں کی جا سکیں۔ اسی طرح ایمنسٹی انٹرنیشنل چین سے بھی ایسی معلومات اکٹھی نہیں کرتی، کیونکہ وہاں سزائے موت سے متعلق اعداد و شمار کو قومی راز سمجھا جاتا ہے۔ جیلوں پر ریسرچ کرنے والی امریکہ میں قائم ایک تنظیم ’ڈوئی ہوا‘ نے اندازہ لگایا ہے کہ چین میں 2014 میں لگ بھگ 2,400 افراد کو سزائے موت دی گئی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکی کہ شام میں جہاں چار سال سے خانہ جنگی جاری ہے، عدالتی نظام کے تحت کسی کو موت کی سزا دی گئی یا نہیں، جبکہ ایران سزائے موت پر عمل درآمد کے 289 کیسوں کے ساتھ، سعودی عرب 90، عراق 61 اور امریکہ 35 کے ساتھ ان ممالک میں شامل ہیں، جہاں گزشتہ سال سب سے زیادہ سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ ایران میں موت کی سزا پر عمل درآمد کے سینکڑوں کیسوں کو ’’سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا گیا‘‘ اور کل تعداد 743 تک ہو سکتی ہے۔ تاہم 2013 کی نسبت 2014 میں موت کی سزا پر عملدر آمد میں 22 فیصد کمی دیکھی گئی۔ ایمنسٹی انٹرنیسنل کے مطابق ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سزائے موت قصہ پارنیہ بنتی جا رہی ہے۔
مگر ساتھ ہی انہوں نے جرائم اور دہشتگردی سے جنگ کے لیے سزائے موت کے استعمال کی مذمت کی۔ مصر اور نائیجیریا نے گزشتہ برس 1000 سے زائد افراد کو موت کی سزا سنائی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل رپورٹ کے مطابق یہ تعداد اس عرصے میں دنیا بھر میں موت کی سزا کے اعداد و شمار کی ایک تہائی سے زیادہ ہے۔ نائیجیریا میں 659 افراد کو سزائے موت سنائی گئی، جن میں سے اکثر پر قتل اور مسلح ڈکیتی کا الزام تھا۔ اس کے علاوہ ایک ملٹری کورٹ نے دسمبر میں 54فوجیوں کو بھی موت کی سزا سنائی تھی، جنہوں نے مناسب ہتھیاروں سے لیس نہ ہونے کی وجہ سے ’’بوکو حرام‘‘ نامی شدت پسند تنظیم کے خلاف لڑنے سے انکار کر دیا تھا۔
نائجیریا میں 2013 کی 141 سزاؤں کی نسبت 2014 میں سزائے موت کے تعداد میں اس لیے بھی اضافہ ہوا ہے، کیونکہ گزشتہ سال وہاں کے حکام نے مکمل اعداد و شمار فراہم کیے، مصر میں گزشتہ برس 509 افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جنہیں صدر مْرسی کو 2013 میں اقتدار سے معزول کیے جانے کے بعد مقدمات میں اجتماعی سزائیں سنائی گئیں۔ مصر کے اجتماعی مقدمات اور سزاؤں کو بین الاقوامی تنقید کا سامنا ہے۔ دسمبر میں ایک کیس میں 188 افراد کو 11پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی۔امریکہ میں گزشتہ سال کم از کم 72افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔ اس کے علاوہ شمالی اور جنوبی امریکی براعظموں میں امریکہ واحد ملک ہے، جہاں موت کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔