تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی سر مجھے زندگی کی نہیں موت کی بد دعا دیں ‘مجھے زندگی کی خوشیاں نہیں صرف موت چاہیے اگر مجھے موت نہ آئی تو میں خود کشی پر مجبور ہو جائوں گی۔ لیکن میں خود کشی کی حرام موت مرنا نہیں چاہتی ‘سر مجھے کوئی ایسی دعا ، تسبیح وظیفہ بتا ئیں جس سے میں فوری طور پر مر جائوں میں ایک پل کے لیے بھی اب زندہ نہیں رہنا چاہتی۔ میرے سامنے ایک بیس بائیس سال کی نوجوان دھان پان سی نازک اندام لڑکی بیٹھی موت کی خواہش اور التجا کر رہی تھی۔ اُس کی موت کی خواہش ایک برقی رو کی طرح میرے ذہنی سرکٹ سے ٹکرائی اور مجھے ہلا کر رکھ دیا۔اُس کے لہجے میں شدید اندرونی خوف اور کرب شامل تھا اور چہرے پر خوف و دہشت برسنے کے سا تھ ساتھ آنکھوں میں موت کی التجا پوشیدہ تھی ۔ اُس کی آنکھوں اور چہرے پر خوف و دہشت کے واضح سائے لرزاں تھے۔
خوف و دہشت سے بار بار اُس کے جسم پر لرزا طاری ہو جاتا اور آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب بہہ نکلتا۔ شدت غم اور اندرونی کرب سے اُس کے ہونٹ کانپ رہے تھے اور چہرہ با ر بار زرد پڑ جاتا وہ کسی عجیب و غریب اذیت ناک کشمکش میں مبتلا نظر آرہی تھی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اُس کے چہرے پر خوف و کرب کے آثار گہرے سے گہرے ہوتے جا رہے تھے۔اُس کے چہرے پر نوجوانوں والی زندگی سے بھر پور تازگی یا رونق نہیں تھی ۔جسے زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے تکلیف اور غم کی شدت نے اُسے برسوں کا بیمار بنا دیا تھا ۔اُس کی آواز اور چہرے کا کرب بتا رہا تھا کہ وہ مشکلات کی بے شمار دلدلوں سے گزری ہے اور پتہ نہیں مصائب کے کتنے پہاڑ اِس چھوٹی عمر میں ہی اُسے سر کرنے پڑتے ہیں ۔سر میں نے بچپن سے ہی اپنے سر پر مسائل کی کڑی دھوپ دیکھی ہے لیکن اب تو میری قوت برداشت جواب دے گئی ہے ۔اُس کی حالت ِ زار دیکھ کر میری آنکھوں کے گوشے بھی بھیگ چکے تھے ‘میرے بار بار پوچھنے پر اُس نے اپنا دکھ بتانے کی کئی بار کوشش کی وہ ضبط کی پوری کوشش کر رہی تھی مگر پھر بھی اُس کا چہرہ ، آنکھیں اور درد میں ڈوبی ہوئی آواز اندرونی کرب کا غماز تھی۔
Life
وہ بولنے کی پوری کوشش کر رہی تھی لیکن اُس سے بولا نہیں جا رہا تھا شدتِ غم نے اُس کے پورے وجود کو جکڑ لیا تھا اُس کی قوت برداشت جواب دے گئی ‘آواز نے اُس کا ساتھ ساتھ چھوڑ دیا اب شدت غم سے صرف اُس کے ہونٹ ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے ۔اُس کی حالت زار دیکھ کو میں بھی پریشان اور دکھی ہو گیا تھا ۔ وہ روتے روتے نیم بے ہوش ہو چکی تھی ۔ غم ، درد، کرب ، بے بسی ، لا چارگی ، اور شدید دکھ تکلیف اُس کی ہڈیوں تک سرایت کر گئی تھی ۔اُس کی روح ، دل و دماغ کسی ناقابل ِ برداشت تکلیف میں مبتلا تھے ۔جب وہ بہت زیادہ رو چکی تو میں نے اُس کو جوس پینے کو دیا ‘مجھے خطرہ تھا کہیں درد کی شدت سے وہ زندگی کی بازی نہ ہار جائے ایک دو گھونٹ جوس پینے کے بعد اُس نے جوس ایک طرف رکھ دیا اور تقریباً چار صفحات پر مشتمل ایک خط میری طرف بڑھا یا اور کہا سر میں اپنا مسئلہ آپ کو اپنی زبان سے نہیں بتا سکتی ‘آپ میری الم ناک داستان پڑھ لیں اور پھر خود ہی فیصلہ کریں کہ میں زندگی کی بجائے موت کی بھیگ کیوں مانگ رہی ہوں ۔ پوری دنیا میں کون ہو گا جو زندگی جیسی نعمت کو ٹھکرائے گا ۔میں بھی حیران تھا کہ کرہ ارض پر ہر ذی روح اپنی زندگی کی بقا کے لیے بھاگ دوڑ کر رہا ہے۔ لوگ لاکھوں کروڑوں روپے اور اپنی قیمتی جائیدادیں اِس زندگی کو قائم رکھنے کے لیے ہر لمحہ لگانے کو تیا ر ہیں ۔لیکن اِس معصوم لڑکی پر کون سی قیامت نازل ہو گئی تھی جو یہ زندگی جیسی قیمتی چیز پر موت کو ترجیح دے رہی تھی میں آج جب دفتر سے گھر واپس آیا تو مجھے بتایا گیا کہ ایک پریشان خستہ حال لڑکی تین گھنٹے سے میرا انتظار کر رہی ہے۔
میں اِس لڑکی کو ایک عام ضرورت مند لڑکی سمجھا لیکن جب اِس کے سامنے بیٹھا تو یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ کوئی عام مسئلے کی بجائے موت کی بد دعا کا تقاضہ کرے گی۔اُس کی حالت ِ زار دیکھ کر میں بھی بہت زیادہ دکھی اور پریشان ہو گیا تھا میں نے جب اُس کا الم ناک خط پڑھنا شروع کیا تو میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ وہی کوئی عشقیہ داستان ہو گی یہ کسی سے محبت کر تی ہو گی یا تو وہ بے وفا ہو گیا ہے یا اِس کے گھر والے نہیں مانتے ایسے عشقیہ خطوط روزانہ بے شمار میرے پاس آتے ہیں ۔لیکن چند سطریں پڑھنے کے بعد ہی مجھے معاملے کی نزاکت اور سنجیدگی کا ادراک ہو نا شروع ہو گیا کہ یہ کوئی لّو لیٹر یا محبوب کی جدائی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ تو انتہائی کرب ناک اور تکلیف دہ معاملہ تھا ۔اِس لڑکی پر تو قیامت سے پہلے ہی قیامت نازل ہو گئی تھی اور یہ بیچاری افشائے راز کے خوف سے اِدھر اُدھر بھاگ رہی تھی یہ نازک سی لڑکی اپنے ناتواں اور کمزور جسم میں ذلت کے اِس بارِ گراں کو اُٹھانے کی طاقت ہی نہیں رکھتی تھی گردشِ حالات کا یہ زاویہ اور زخم اتنا گہرا اور مہیب تھا کہ وہ مجبور ہو کر موت کی فریاد کر رہی تھی ۔اُس پر ہونے والے ظلم کی روداد اتنی الم ناک اور اثر انگیز تھی کہ جیسے جیسے میں پڑھتا جا رہا تھا میرا دل و دماغ اور وجود درد اور غم کی شدت سے پگھلتا جا رہا تھا اُس معصوم بیٹی کے بے داغ کردار اور لباس کو مختلف تہمتوں اور ظلم ِ عظیم سے آلودہ کر دیا گیا تھا ‘پڑھتے پڑھتے میرا جسم آتش فشاں کی طرح چٹخنے لگا پورا جسم غم ، غصے اور نفرت کی آگ میں جلنے لگا میرے اندر آگ کے کئی بھانبھڑ جل اُٹھے خط پڑھ کر میری یہ حالت ہو گئی تھی تو پتہ نہیں یہ معصوم بیٹی ذلت اور تکلیف کے کتنے دریا عبور کر کے اور اذیت کے کتنے صحرائوں میں ننگے سر ننگے پائوں چل کر میرے پاس آئی تھی۔ اُس کی الم ناک داستان لکھنے کے لیے بھی ایک سنگ دلی درکار ہے ۔بنتِ حوا کا تعلق ایک چھوٹے شہر سے تھا BAکا امتحان امتیازی پوزیشن سے کیا باپ کا سایہ بچپن میں سر سے اُٹھ گیا یہ بڑی بہن تھی باقی بھی دو بہنیں تھیں غریب ماں لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنی بیٹیوں کا پڑھا رہی تھی۔
محلے کے اوباش نوجوان نے کئی بار اِس معصوم کو چھیڑا اِس کے انکار اور خاموشی پر اِس کو اغوا کر کے لے گیا معصوم بیٹی کی عزت تار تار کرنے کے ساتھ اِس کی ویڈیوبھی بنا لی بعد میں اِس کو بلیک میل کر نا شروع کر نا کر دیا کہ بار بار میرے پاس آئو ورنہ NETپر ویڈیو چلا دو ں گا یہ معصوم کئی ماہ اُس کی بلیک میل کا شکار رہی ۔ اب اُس وحشی درندے نے نئی ڈیمانڈ کی کہ اپنی بہن کو بھی لے کر آئو ورنہ اغوا کر لوں گا یا ویڈیونیٹ پر چلا دوں گا ۔ اُس خنزیر درندے کے خوف سے یہ وہ شہر چھوڑ کر لاہو ر آگئے تو اُس نے غصے سے ویڈیو NETپر چلا دی اور اس کے تمام رشتہ داروں کو بتا یا کہ وہ میرے ساتھ غلط تھی ۔ اب یہ اور اِس کی ماں بہنیں منہ چھپاتی اِدھر اُدھر بھاگ رہی ہیں کہ اگر خود کشی حرام نہ ہوتی تو کب کی ہم چاروں خود کشی کر لیتیں یہ معصوم بیٹی بے شمار عالم دین سے پوچھ چکی ہے کہ خود کشی حرام ہے تو موت کا آسان وظیفہ یا طریقہ بتا دیں میں بے بسی لا چارگی کا بت بنا مجرموں کی طرح اُس کے سامنے بیٹھا تھا کہ اِس مہذب معاشرے اور آزاد ملک میں کوئی بھی اُس کی مدد نہیں کر سکتا تھا وہ بے چاری تو چلی گئی لیکن میرے اندر غم اور تکلیف کے ہزاروں دریا بہا کر چلی گئی میں روزانہ یہ دعا کرتا ہوں کہ اے خالق بے نیاز اِس کے دشمن کیرسی دراز نہ کر اِس کو سکون قلب عطا کر اور اگر یہ خود کشی پر مجبور ہو جائے تو اِس کو معاف کر دینا ۔آج وطن عزیز کے طول و عرض میں بے بس ، لاچار ، مظلوم ، محروم فاقہ کش ، کرب ناک زندگی گزار رہے ہیں پتہ نہیں کب کوئی مسیحا آکر اِس نظام کو بدلے گا ۔کب حوا کی بیٹیاں ایک صالح اور محفوظ معاشرے میں آزادانہ اور امن کی زندگی گزار سکیں گی۔
PROF ABDULLAH BHATTI
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی help@noorekhuda.org