تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم اسلامی جمہوریہ پاکستان جب سے معرض وجود میں آیا مختلف بحرانوں کا شکار رہا ،بحران غیروں نے نہیں اپنوں نے ہی پیدا کئے یعنی ” اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں ”بحرانوں سے نکلنے کی کوئی تدبیر و حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی،انکوئری کمیشن اور کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں جن کا نتیجہ نکلا نہ کبھی نکلنے کے امکانات ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے حکمرانوں کا مقصد عوام کو ریلیف دینا نہیں بلکہ انہیں مختلف بحرانوں میں الجھا کر اپنے اقتدار کو طول دینا ہوتاہے وطن عزیز میں کسی نے” عوام ”کے نام پہ اقتدار سنبھالا اور کسی نے ” اسلام ” کے نام پہ اپنے اقتدار کو طول دیاسبھی حکمرانوں کے دلوں میں عوام کا بہت درد ہوتا ہے لیکن درد کو ختم کرنے کی بجائے زخموں پہ نمک چھڑکناہر حکمران کا مشغلہ رہا ہے عوام کا” مسیحا” بننے کی بجائے”تارا مسیح” بننے پہ فخر سمجھا جاتا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چھوٹے صوبہ سندھ کے شہر تھرپاکرکو ہی لے لیجئے وہاں غذائی قلت کے باعث دن بدن اموات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ سندھ کے حکمران ”سب اچھاہے” کی راگ الاپ رہے ہیں
ایک رپورٹ کے مطابق تھرپارکر میں بھوک اور بیماری رواں مہینے جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد32 ہو گئی ہے۔ تھرپارکر میں موت رقصاں ہے مختلف بیماریوں کے باعث رواں ماہ کے 10دنوں میں اب تک 32بچے موت کا شکار ہو چکے ہیں۔ سول اسپتال مٹھی میں بھی 50سے زائد بچے زیر علاج ہیں۔اسلام کوٹ میں 28 چھاچھرو میں 31بچے زیر علاج ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیپلو اورڈاہلی کے دیہی صحت مراکز میں بھی کئی بچے اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ، سندھ کی انتظامیہ کے دعوے بھی کھوکھلے ہی ثابت ہوئے ۔ عملی طور پر کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے ۔ ہسپتال کا عملہ بھی متاثرہ بچوں کے علاج معالجے سے جان چھڑانے لگا ۔ ہسپتالوں میں عملہ ہے اور نہ ادویات ، سندھ سرکار خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
جیسے” سندھ سرکار”کے ”بڑے سائیں ” اکثر تقریبات میں خاموشی کے باعث دنیا سے غافل سوئے رہتے ہیں دوسری جانب کمشنر میرپورخاص نے حکومت کے جاگنے تک تھر میں دوردراز علاقوں تک جانے کے لئے تھر کی مقامی این جی اوز سے مدد مانگ لی۔ این جی اوز والے تھر کے ہر علاقے میں جاکر بیمار بچوں کو اسپتال تک رسائی کرنے کا کام کریں گے۔واضح رہے کہ وسیع و عریض رقبے پر پھیلا سندھ کا صحرا تھر چھ تحصیلوں پر مشتمل ہے۔ سواری کیلئے کیکڑا نامی بس چلتی ہے یا پھر جیپ۔ بجلی صرف شہروں تک محدود ہے۔ تھر میں زندگی اتنی آسان نہیں زندگی پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا ہار بھی ہے۔ سندھ اور وفاق کی نظر میں ڈسٹرکٹ مٹھی کو ہی تھر سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ چھ تحصیلوں چھاچھرو، مٹھی ڈیپلو، ڈاہلی، اسلام کوٹ اور ننگر پارکر اس ضلع میں شامل ہیں۔سرکاری اعداد و شما رکے مطابق 2ہزار 325گاوں رجسٹرڈ ہیں۔
Arbab Ghulam Rahim
سانپ کی طرح بل کھاتی سڑک ارباب غلام رحیم کے دور میں تعمیر کی گئی تھی لیکن گاوں میں ریت پر چلنے والی مخصوص سواری کیکڑا اور جیپ میں سفر کیا جائے تو جسم اور دماغ کے انچرپنجر بھرپور طریقے سے ہل جاتے ہیں۔ ریت میں سواری کے لیے صرف جیپ ہی کام آتی ہے۔ سورج ڈھلے تو چاندی جیسی سفید ریت کی چمک بھی ماند پڑنا شروع ہو جاتی ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ تھر میں دن صرف دس گھنٹے کا ہوتا ہے تو ایسا کہنا غلط نہیں ہوگا۔ شہروں میں بجلی ہے لیکن دیہات اب تک ایک بلب کی چمک دیکھنے سے بھی محروم ہیں۔ یہاں کے باسیوں کا گزربسر صرف جانوروں کی افزائش پر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تھر میں پاکستان کی ضرورت کے پچیس فیصد جانوروں کی افزائش ہوتی ہے۔بچوں کی ہلاکتوں کی بڑی وجہ غذائی قلت اور بیماریاں ہیں تاہم شدید سردی بھی ننھی جانوں پر موت بن کر منڈلا رہی ہے۔
تھرپارکر کے سرکاری اسپتالوں میں جہاں طبی سہولتوں کا شدید فقدان ہے وہیں خوراک کے گوداموں کے منہ ابھی تک نہیں کھولے گئے جس سے بچوں کی اموات کا سلسلہ نہیں تھم سکا۔عروس البلاد شہر کراچی سے278کلو میٹر دورہندوستانی سرحدیعنی بارڈر سے ملحقہ صحرائی علاقہ کی آخری قومی مردم شماری 1998ء کے مطابق ضلع تھرپارکرکی آبادی 955،812 ہے جس میں سے صرف 4.54 فیصد ہی شہروں میں مقیم ہے اس ضلع کا بیشتر علاقہ صحرائے تھر پر مشتمل ہے جبکہ جنوب میں رن کچھ کے دلدلی علاقے اور نمکین جھیلیں ہیں۔ یہاں کے اہم شہر مٹھی، اسلام کوٹ اور چھاچھرو ہیں جبکہ کراچی سے بھارت جانے والی ریلوے لائن بھی یہیں سے گزرتی ہے اور بذریعہ کھوکھراپار بھارت کے علاقے موناباؤ جاتی ہے۔
یہاں سے بہت سے لوگوں نے اقتدار حاصل کیا لیکن اپنے علاقے کے عوام کو وہ سہولتیں نہ دے سکے جو یہاں کے باسیوں کو ملنا ضروری تھیںاقتدار کے مزے لوٹنے والوں میں ارباب غلام رحیم سابق وزیر اعلی سندھ ،آفتاب شاہ جیلانی سابق فاقی وزیر کھیل و وزیر زراعت ،علی نواز شاہ سابق وفاقی وزیر زراعت ،رانا چندر سابق وفاقی وزیر اقلیتی امورمیں شامل ہیں ہمارے سندھ کے حکمرانوں بالخصوص ” وڈے سائیں ” کو نیند سے بیدار کو کر عملی اقدات کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ تھر میں ” موت کا سایہ”تھرکے باسیوں کا پیچھا نہیں چھوڑے گا اور اموات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔