دین اسلام، عام آدمی اور پاکستان کے بھلے کی بات توہم سب کرتے ہیں عام آدمی اور پاکستان کے حالات پر تجزیے بھی ہوتے ہیں اور تبصرے بھی بہت کیے جاتے ہیں پاکستان کے گلی کوچوں سے لے کر اسمبلی ہال اور خاص طور پر ٹی وی چینلز پر ہر وقت عام آدمی کی مشکلات ،مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بے روز گاری، پاکستان کی بگڑتی ہو ئی سیاسی معاشی واقتصادی حالت اور سب سے بڑھ کر دین اسلام کے بارے میں ہم لوگ اس قدر سنجیدہ ہوتے ہیں کے دیکھنے اور سننے والے کبھی سوچ ہی نہیں پاتے کے ہم یہ ساری باتیں کیمرے کے لیے یا سامنے کھڑے لوگو ں کو بے وقوف بنانے کے لیے کر تے ہیں یہ ساری باتیں ایسے ہی ہیں۔
جیسے ایک جوکر اپنا شو شروع ہونے سے پہلے میک اپ کرے اور شو ختم ہوتے ہی وہ سارا میک اپ دھوکر اپنے اصل روپ میں آجائے ٹھیک اسی طرح ہمارے ملک کے حکمران اپنی سیاست کو چار چاند لگانے کے لیے عام آدمی کے حالات زندگی کو ایسا چہرہ اور لب ولہجہ بنا کر بات کرتے ہیں جیسے وہ واقع ہی غریب کی مجبوریاں جانتے اورحل کرنے میں بے حد سنجیدہ ہیِ،جو لوگ انڈے کی سفیدی اور انار کے جوس کا ناشتہ کرتے ہیں،ان کو نہ انڈے اور انار کے قیمت معلوم نہ ہو، جن کے محلات میں دنیا بھرکی سہولتیں دستیاب ہوں خدمت کے لیے سوسو نوکر چاکرہوں اورعمارتیں زلزلہ پروف۔بم پروف۔سیلاب پروف ہوں جن کے پاس درجنوں ذاتی گاڑیاںہوں مختصر جنہوں نے کبھی ضروریات زندگی خریدی ہی نہ ہوں وہ صرف ٹی وی شو کے لیے تیاری کرتے ہیں اور میڈیا رپورٹوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے آپکو ہیرو ثابت کرتے ہیں۔ افسوس انسانی تاریخ کا سب سے بڑا فتنہ مال و دولت ،جاگیر یں ،جائیدادیں۔ طاقت۔ حکومت اور زیادہ سے زیادہ زندہ رہنے کی تمنا ہے، ہم اسلام کی روح سے دیکھیں تودین ہمیں کسی بھی قسم کی ہوس اور لالچ سے بچنے کا درس دیتا ہے رہی بات سدا زندہ رہنے کی تمنا کی تو وہ کبھی بھی کسی کی بھی پوری نہ ہوئی ہے اور نہ ہی ہو گی موت اٹل حقیقت ہے یہ بات دنیا کاہر مذہب اور ہر قوم جانتی ہے کسی کے پاس بھی موت کا علاج نہیں آج تک بڑے سے بڑا ڈاکٹر بڑے سے بڑا حکیم موت کا علاج نہیں کرپایا اور نہ ہی کبھی کوئی کر پائے گا صرف اللہ تعالیٰ ہی مرنے کے بعد زندہ کرے گا اور یہ بات ہم سب جانتے ہیں کے خواہ کوئی کتنا بھی دولت مند ہو موت سے نہیں بچ سکتا ایک نہ ایک دن موت آئے گی اور جب موت آ گئی تو دنیا کی کوئی بھی چیز اسے نہیں روک پاے گی۔
نہ طاقت و حکومت نہ مال و دولت کام آئے گا اورنہ ہی کوئی رشتہ داریہ ،زندگی تو بس ایک آزمائش ہے سب کے لیے کوئی امیر ہو یا غریب خالق کائنات سب کوآزماتا ہے کسی کو زیادہ مال دولت دے کر آزماتا ہے تو کسی کو کم دے کر۔کسی کو حکومت اور طاقت دے کر آزماتا ہے تو کسی کو نہ دے کر اور کسی کو حکومت اور طاقت دینے کے بعد واپس لے کر آزماتا ہے۔ کسی کواولاد،دے کر آزماتاہے توکسی کو نہ دے کر اور کسی کو دینے کے بعد واپس لے کر آزماتا ہے یہاں تک کہ آتی جاتی سانس بھی آزمائش ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کوآزماتا بھی ہے اور آزمائشوں میں کامیاب ہونے کا راستہ بھی خود ہی بتاتا ہے میری مراد شریعت محمدی ۖ کا راستہ ہے،پھر مدد بھی فرماتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی خاص حکمت ہے کہ کسی کو بہت زیادہ عطا کرتا ہے کسی کودرمیانہ اور کسی کو بہت کم، اللہ تعالیٰ سب کو ایک جیسا عطا کردیتا تو سب کے سب ناشکرے ہو جاتے اب تو کچھ لوگ شکر کرنے والے بھی ہیںکیونکہ آج کے حالات میں زیادہ ترشکر صرف غریب آدمی ہی کرتا ہے۔امیرآدمی کا دولت کے نشے میں شکر کرنا تودورکی بات ہے اللہ تعالیٰ کو یاد بھی کم ہی کرتا ہے امیر آدمی اللہ سے اور زیادہ کی تمنا تو ضرور کرتا ہے پر شکر کم ہی کرتا ہے اس کے مقابلے میں غریب آدمی روز صبح سے شام تک اللہ کو یاد کرتا ہے جب گھر سے مزدوری کے لیے نکلتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے یا اللہ آج مجھے مزدوری مل جائے تاکہ شام کو اپنے بیوی بچوں کے لیے آٹا سبزی لے آئوں اور جب اسے کام مل جاتا ہے تووہ اللہ کا شکر ادا کرنا شروع کردیتا ہے اور سارا دن شکر ہی کرتا رہتا ہے کہ یا اللہ تیرا شکر ہے تونے مجھے رزق عطا کیا اور جب شام کو راشن لے کر گھر جاتا ہے تو اس کے بیوی بچے بھی شکر ادا کرتے ہیںجہاں اللہ تعالیٰ صرف تین سے چار سو روپے عطا کرتا ہے۔
وہاں آٹھ۔دس لوگ شکر ادا کرتے ہیں اور جہاں لاکھوں کرڑوں عطا کرتا ہے وہاں یہ منظر کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے دولت مندآدمی اللہ تعالیٰ سے اورزیادہ کی تمنا کے ساتھ ساتھ ہزاروں گلے شکوے تو کرتا ہے پر شکر کرنے کے لیے اس کے پاس وقت نہیں ہوتا،یہ بھی سچ ہے کہ سب دولت مند ایک جیسے نہیں ہوتے ان میںایمان والے بھی ہوتے ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور ہر سانس کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ میرے خیال میں ان ساری آزمائشوں میں وہ ہی پاس ہو سکتا ہے جو ہر مشکل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے اور اللہ کے دین کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتاہے، اللہ تعالیٰ نے زیادہ مال ودولت جمع کرنے اور۔زیادہ جائیداد بنانے سے سخت منع فرمایا ہے مومن ان ساری چیزوں سے دور رہتا ہے چاہے کتنا بھی مشکل وقت ہو مومن اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتاکیونکہ اس کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے احکامات ہی سب کچھ ہوتے ہیں اورجس بات سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمادیا وہ بے شک بہت بری ہے اللہ تعالیٰ کا دین انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب کرتا ہے۔
ایک دوسرے سے جوڑتا ہے جبکہ دنیا کا مال و متاانسان کے ہاتھوں انسان کو کٹواتا ہے دور کردیتا ہے کبھی پاس نہیں آنے دیتا۔اکثر جب انسان زیادہ دولت مند ہو جاتا ہے تو اپنے غریب ماں باپ اور بہن بھائیوں کو پہچانتا تک نہیں اور اپنی دولت ہی کو اپنا سب کچھ جان لیتا ہے مال و دولت کو انسانی رشتوں پر کبھی بھی ترجیح نہیں دی جا سکتی کیونکہ مال اور دولت دور جائیں تو کام آتے ہیں اور انسانی رشتے قریب آئیں تو کام آتے ہیں یہ تو سب جانتے ہیں کے دنیا کی کوئی بھی چیز خریدنے کے لیے دولت کی ضرورت پڑتی ہے تو بات صاف ہے کہ انسان کو جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تودولت خرچ کرنی پڑتی ہے اورخرچ ہونے کا مطلب کسی دوسرے کو دے دینا جب تک ہماری دولت ہمارے پاس ہے تب تک ہمارے کام نہیں آسکتی ضرورت سے زیادہ دولت انسان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔
ایک زہریلے سانپ کی مانندکبھی بھی ڈس سکتی دولت مند کو ہمیشہ اپنی دولت کی فکر ہی لگی رہتی ہے گھر میں پڑی ہو تو دولت مند کو چوری ڈکیتی کا ڈر ہوتا ہے بنک میں رکھی ہو تو دولت مند ہر وقت یہ سوچتا رہتا ہے کہیں بنک بند نہ ہو جائے کہیں بنک والے بھاگ نہ جائیں اس بات کا فکر ہی رہتا ہے پھر بھی دور قدئم سے دور جدیدتک ہرطرف دولت کی چہل پہل ہے جسے دیکھو اسے دولت کمانے کی لگن ہے نہ اپنی خبر ہے نہ دنیا کی ہر شخص بس کسی نہ کسی طرح ساری دنیا کی دولت اپنے گھر لانا چاہتا ہے وہ بھی پل بھر میں جس کے گھر میں چار سال کا راشن پڑا ہے وہ بھی کہتا ہے بھوکے مر رہے ہیں کاروبار بند ہے مہنگائی بہت ہو گئی ہے ہزاروں روپے روز کمانے والا کہتا ہے مارے گئے جوجتنا زیادہ کما رہا ہے وہ اتنا ہی زیادہ رونا رو رہا ہے۔انسان جو بھی کرلے جب تک اللہ کا شکر کرنانہیں سیکھتا تب تک پریشان ہی رہے گا کیونکہ انسان کا من کبھی بھی دنیا کی دولت سے بھر نہیں سکتا۔جھوٹ اورفریب کے پرفتنہ دورمیں انسان کوچاہئے کہ اپنے رب تعالیٰ کاشکراداکرے اوردوسری کی حق تلفی نہ کرے۔
Imtiaz ali shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور imtiazali470@gmail.com. 03134237099