موت ایک اٹل حقیقت ہے

Death

Death

تحریر: بائو اصغرعلی

اس میں شک کی کوئی گجا ئش نہیں کہ مو ت ایک اٹل حقیقت ہے جو ہر جاندار کو آنی ہے،کوئی ذی روح اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا جو عرش بریں کے خالق نے اپنی مقدس کتاب قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد مبارک فرمایا ”کْلّْ نَفسٍ ذَائقة المَوتِ ” ہرنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے’خالق کائنات اللہ رب العزت نے ہر جاندار کے لئے موت کا وقت اور جگہ متعین کردی ہے اور موت ایک ایسی شے ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص خواہ وہ کافر یا فاجر حتی کہ دہریہ ہی کیوں نہ ہو، موت کو یقینی مانتا ہے۔ اور اگر کوئی موت پر شک وشبہ بھی کرے تو اسے بے وقوفوں کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ بڑی بڑی مادی طاقتیں اور مشرق سے مغرب تک قائم ساری حکومتیں موت کے سامنے عاجز وبے بس ہوجاتی ہیں دیکھتی انکھیں بند ہو جاتی ہیں،موت بندوں کو ہلاک کرنے والی، بچوں کو یتیم کرنے والی، عورتوں کو بیوہ بنانے والی، دنیاوی ظاہری سہاروں کو ختم کرنے والی، دلوں کو تھرانے والی، آنکھوں کو رلانے والی،بستیوں کو اجاڑنے والی، جماعتوں کو منتشر کرنے والی، لذتوں کو ختم کرنے والی، امیدوں پر پانی پھیرنے والی، ظالموں کو جہنم کی وادیوں میں جھلسانے والی اور متقیوں کو جنت کے بالاخانوں تک پہنچانے والی شے ہے،موت نہ چھوٹوں پر شفقت کرتی ہے، نہ بڑوں کی تعظیم کرتی ہے، نہ دنیاوی چودھریوں سے ڈرتی ہے، نہ بادشاہوں سے ان کے دربار میں حاضری کی اجازت لیتی ہے۔ جب بھی حکم خداوندی ہوتا ہے تو تمام دنیاوی رکاوٹوں کو چیرتی اورپھاڑتی ہوئی مطلوب کو حاصل کرلیتی ہے۔موت ہیکہ جب وقت آجائے آکر رہتی ہے یہ اپنے اسباب خود پیدا کردیتی ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ موت خود زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہوتی ہے کیونکہ جب تک موت نہیں آتی زندگی محفوظ رہتی ہے لیکن انسان بڑا بھلکڑہے اپنی حفاظت کے لئے کیا کیا تدابیر اختیار کرتا ہے لیکن موت کاشکنجہ ہیکہ جب کسنے کاٹائم آجائے تو سب انتظامات دھرے رہ جاتے ہیں اور ایک لمحہ لگتا ہے صرف ایک لمحہ اور سب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔ اگر حاکمیت ،بلٹ پروف جیکٹیں، بلٹ پروف گاڑیاں یا حفاظتی دستے موت سے بچاسکتے تو حکمرانوںاور پیسے والوں کو کبھی موت نہیں آتی لیکن اللہ کا قانون سب کے لئے یکساں ہے ہر نفس کو ایک دن موت کا زائقہ چکھنا ہے اور سب کو حساب دینا ہے جو کچھ دنیا میں انہوں نے کیا لیکن بنی نوع انسان سب سے زیادہ غفلت بھی موت سے برتتا ہے مرنے والوں کے جنازوں کو خود کاندھا بھی دیتا ہے اور منوں مٹی کے نیچے اپنے ہاتھوں سے دفن بھی کرتا ہے لیکن اسکے ذہن میں یہ خیال نہیں پیدا ہو تا کہ ایک دن مجھے بھی لوگ یونہی کاندھوں پہ رکھ کر اس شہرخموشاں میں منوں مٹی کے نیچے دفنا کر چلے جائینگے اس اٹل حقیقت سے انسان کی آنکھ اوجھل رہتی ہے وہ گھڑی جس نے ایک دن سب کو جاپکڑنا ہے انسان اس کے متعلق سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا بڑے بڑے لوگ آئے جن کے ناموں سے رن کانپ جایا کرتا تھا ، بہت سے لوگ آئے جو زمین پر خدا بننے کی تمنا کی خواہش میں لوگوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ اسے سجدہ کریںبڑے بڑے صدور اور وزیر اعظم آئے جنکی حفاظت کے لئے سیکڑوں لوگ معمور تھے جنکی شہروں میں آمد پر ٹریفک معطل کردی جاتی تھی لیکن وقت کے ان خداؤں پر جب وقت اجل آیا تو ان کی حالت عبرت انگیز تھی کتنے ہی ایسے نام ہیں جو گنوائے جا سکتے ہیں لیکن ان کا اظہار بیکار ہے ہوا کو رک جانے اور سورج کو طلوع نہ ہونیکا حکم دینے والے تکبر اور گھمنڈ کے ان پیکروںپرجب موت سایہ فگن ہوئی تو یہ عبرت کی ایسی تصویر بنے جنہیں دیکھ کر لوگوں نے اللہ کی پناہ مانگی لیکن کف افسوس ہمارے طبقہ اقتدار کے لوگ جو حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں فاعتبرو یا اولی الابصار کا سبق سیکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے جب اللہ رب العزت انہیں اقتدار عطا فرماتا ہے تو یہ بھول جاتے ہیں کہ موت بھی آنی ہے اللہ تعالیٰ کو منہ بھی دکھانا ہے، قصر صدارت اور وزیر اعظم ہاؤس کی پر تعیش بالکونیاں وزیروںاور مشیروں کا جھرمٹ انہیں رعایا سے بے نیاز کربیٹھتا ہے اور یاد رکھئے جب حاکم اور رعایا کے درمیاں فاصلے پیدا ہوجائیں تو انصاف قتل ہوجایا کرتا ہے اور پھر ضرورت پڑتی ہے آرمرڈ اور بلٹ پروف گاڑیوں کی اور حفاظتی د ستوں کی،آخر ایک دن موت آنی ہے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے دنیا میں جو کیا اس کا حساب آخرت میں دینا ہے۔

Bao Asghar Ali

Bao Asghar Ali

تحریر: بائو اصغرعلی