تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور جسم پتھر کے مجسمے میں تبدیل ہو گیا ایسے ہو لناک خوفناک ، دہشت ناک ناقابل یقین منظر کے لیے بلکل بھی تیار نہ تھا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں جب کمرے میں داخل ہونگا تو میرے سامنے دل و دماغ کو ہلا دینے والا منظر ہو گا کمرے میں مو ت کا سناٹا اور پرانے قبرستان کی ویرانی تھی درو دیوار سے وحشت ویرانی برس رہیں تھیں پو ری فضا نے ماتمی لباس پہنا ہوا تھا انسان ذلت اور پستی کی اتنی گہرایوں میں گر سکتا ہے کہ دوسروں کے لیے با عث عبرت بن جا ئے یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کمرے کے چپے چپے پر موت نے اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے ‘انسان تما شہ بے بسی اور عبرت بناہوا تھا میں کسی ایسے منظر کے لیے بلکل بھی تیار نہ تھا مجھے جب کہا گیا کہ ایک مریض کو دیکھنا ہے تو میں معمو ل کا مریض سمجھ کر چلا آیا میں یہ سمجھ کر آیا تھا کہ مریض بیما ر ہو گا بات چیت کر تا ہو گا ‘درد کا اظہا ر یا اپنی بیما ری کا بتا تا ہو گا لیکن یہاں جو کچھ میں نے دیکھا وہ بلکل الٹ تھا پو رے کمر ے میں تعفن زدہ بد بو پھیلی ہو ئی تیز بد بو سوگھنے کی حس کو چھلنی چھلنی کر رہی تھی میں جو ہمیشہ وضع داری اور آخری حدوں تک برداشت کر نے والا بندہ یہاں میری بر داشت بھی جوا ب دے گئی حواس کو پاگل کر نے والی بد بو نے میرے حواس کو شل کر نا شروع کر دیا یہاں تک کہ میراسانس گھٹنا شروع ہو گیا اوپر سے ہزاروں کی تعداد میں مکھیوں نے پو رے کمرے کو اور بھی بد بو دار کر دیا تھا میں صبر اور بر داشت کی پو ری کو شش کر رہا تھا لیکن بد بو اور خو فنا ک منظر کہ جان ہی نکل جا ئے گی میرے سامنے کالا سیا ہ لا ش نما انسان جو ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا پڑا تھا۔
ہڈیوں کے جال پر پتلی سیا ہ کالی جلد میں لپٹی ہو ئی تھی منہ کھلا ہو اتھا جس سے لاش سانس لے رہی تھی مکھیاں آزادی سے اس کے کھلے منہ کے اندر تیز رفتا ری سے آجا رہی تھیں ۔ کسی خو فناک پراسراری بیما ری نے اُس کو گھن کی طرح چاٹ کھا یا تھا بیما ری اتنی ہو لناک تھی کہ اِس کو زندہ لاش ممی بنا کر رکھ دیا تھا لا ش نما انسان بے حس و حر کت پڑا تھا مو ت اور اُس کے درمیان صرف سانس کا رشتہ تھا اگر سانس نہ چل رہی ہو تی تو گھر والے کب کے اِس بد بو دار انسان کو منو ں مٹی کے نیچے دبا کر آجا تے مریض کی حالت بنا رہی تھی کہ اِس کو ئی بہت بڑا گنا ہ کیا ہو گا یا رب کریم کو بہت بڑی نا فرمانی سے نا راض کر دیا ہے جو خدا ئے بزرگ بر تر اُس کو موت کو سوغات بھی دینے سے انکا ری تھا اِس شخص کو لوگوں کے لئے با عث عبرت بنا کر رکھ دیا تھا اہل خا ندان اور اور گھر کے مکینوں پر خوف و دہشت کے سائے لر زاں تھے وہ بھی چلتی پھرتی لا شیں ہی نظر آرہے تھے خو ف نے اُن کے جسموں کا بھی خو ن نچو ڑ لیا تھا وہ گھر والے بے بسی اور مایوسی کی تصویریں نظر آرہے تھے میں اپنی زندگی میں بے شما ر مریض کو اور بے جان جسموں کو بھی با ر ہا ردیکھ چکا تھا لیکن کسی انسان کی ایسی عبرت نا ک حالت میں نے بھی نہیں دیکھی تھی مر دہ نما انسان کئی دنوں سے اِسی طرح موت کی سولی پر لٹکا ہوا تھا۔
مو ت قبول کر نے سے انکاری تھی اِس کی خو فنا ک شکل اور حالت مو ت سے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا ہر گھر میں اِس کی با تیں ہو رہی تھیں کہ خدا اِس سے کتنا زیا دہ نا راض ہو گیا ہے اِس کو مو ت کی آغو ش بھی دینے کو تیا ر نہیں مٹی نے بھی اِس کو قبو ل کر نے سے انکا ر کر دیا تھا آہستہ آہستہ جب میرے اعصاب نا رمل ہو ئے تو میں نے گھر والوں سے پو چھا یہ کو ن ہے اور اِس کو کیا بیما ری ہے تو جب گھر والوں نے مریض کا نام بتا یا تو مجھے بہت شدید جھٹکا لگا کیونکہ یہ اپنے علا قے نا مو ر زمیندار اور چوہدری تھا اِس کو بو سکی کا سوٹ اور راڈوکی گھر ی اِس کی چال کپڑے بد معا شی اور غرور سے سارا علا قہ واقف تھا جو انی میں یہ بہت ساری زمینوں کا مالک تھا خو بصورت طاقتور جسم کا مالک جس کو اپنے حسن جو انی اور دولت کا بہت زیا د ہ نشہ تھا اپنی طا قت اور دولت کے نشے میں چُور یہ انسانوں کو جانور سمجھ کر ہا نکتا تھا خو د کو ہلا کو خا ن کی اولاد سمجھتا تھا ‘وحشت درندگی اور عیا شی ہی اِس کی زندگی تھی مجھے آج بھی اپنی نوجوانی کا وقت اور واقعہ یا د ہے جب میں اپنے دوستوں کے ساتھ اپنی زمینوں پر جا رہا تھا تو راستے میں اِس چوہدری کی زمینیں تھیں جب ہم اِس کے ڈیرے کے پاس سے گزرنے لگے تو پا نی پینے کے بہا نے تھوڑا آرام کر نے گئے تو ایک عجیب منظر دیکھا جو مجھے آج بھی یا د ہے یہی چوہدری صاحب جوانی کے نشے میں چُور بڑی پلنگ نما چارپا ئی پر بیٹھے تھے۔
Sad Woman Sitting
راڈو گھڑی ہا تھ میں سونے کی انگو ٹھیاں اور بو سکی کا سوٹ فرعون بنا بیٹھا تھا اِس کے سامنے ایک پچاس سالہ عورت اپنی چودہ پندرہ سالہ بیٹی کے ساتھ زمین پر مجرموں کی طرح سر جھکا ئے بیٹھی تھیں پچاس سالہ عورت بار بار ہا تھ جو ڑ کر معافی ما نگ رہی تھی اور بار بار اِس کے پا ئوں پر ہا تھ رکھتی کبھی دوپٹہ اِس فرعون کے پا ئوں پر رکھتی لیکن یہ معا ف کر نے کی بجا ئے اور بھی غصے سے دھا ڑنے لگتا کہ میں نے معاف نہیں کر نا میں اور میرے دوست کچھ دیر تو اِس پر یشان کن منظر کو خامو شی سے دیکھتے رہے پھر میرے اندر فطری شرافت اور ظلم کے خلاف بغاوت بیدار ہو نا شروع ہو ئی اب ہم دوست اس زمیندار کی طرف بڑھے ہمیں قریب آتا دیکھ کر اُسے نے سوالیہ نظروں سے ہما ری طرف دیکھا میرے دوست نے میرے بھا ئی اور والد صاحب کا ذکر کیا تو وہ تھوڑا ٹھنڈا ہوا کیونکہ میرے والد صاحب اور بھا ئی صاحب کو یہ جا نتا تھا ہمیں دیکھ کر عورت کو کچھ حو صلہ ہوا ب اُس نے ہما ری منتیں شروع کر دیں چوہدری صاحب سے ہمیں معافی دلا دیں اُس بیچاری کا جرم یہ تھا کہ اُس نے اِس کا تربوز تو ڑلیا تھا اُس کی سزا اِس حرام زادے نے یہ تجویز کی تھی کہ اب تمہا ری بیٹی شام تک میری زمینوں میں کام کر ے گی ماں بار بار کہہ رہی تھی کہ یہ معصوم ہے اِس نے غلطی کی ہے تو اس کی سزا میں بھگتنے کو تیا ر ہوں لیکن یہ حرامی ایک ہی ضد کہ تمہا ری بیٹی نے چوری کی ہے تم اِس کو چھوڑ جا ئو اور چلی جا ئو یہ یہاں پر سارا دن کام کر ے گی معصوم بچی کا رنگ خو ف سے پیلا ہو چکا تھا۔
یہ کتا غلیظ ہو س بھری شیطا نی نظروں سے اُس معصوم ننھی پری کو گھور رہا تھا وہ بچی بار بار ماں کے پیچھے چھپ رہی تھی یہ بار بار اُس کو پکڑنے کے لیے آگے بڑھتا کیونکہ اِس کمینے انسان کی فطرت سے پورا گا ئوں اور علاقہ واقف تھا ماں جانتی تھی کہ اگر میں اپنی معصوم بیٹی کو یہاں اِس بھیڑیے کے حوالے کر گئی تو یہ اُس کی عزت تار تار کر کے چھو ڑے گا شرابی کبا بی زانی بد معاشی ہی اِس کی شہرت اور عادت تھی ۔ معصوم بچی کی حالت ہما رے کلیجے پھا ڑ دیئے ہم دوستوں نے کہا آپ ان کو چھو ڑ دیں اِس کے حصے کا کام ہم کر دیتے ہیں یا آپ ہم سے پیسے لے لیں چوہدری نے انکار کر دیا اب ہم بھی اُس کی گندی نیت اور نظر کو دیکھ چکے تھے ہم نے اعلان کیا کہ ٹھیک ہے ہم رات تک اِسی جگہ ٹہرریں گے تا کہ تم اِس معصوم عورت اور اُس کی بیٹی پر ظلم نہ کر سکو پہلے تو اِس نے ہمیں بھی ڈرانے دھمکانے کی کو شش کی لیکن جب اِس نے ہما رے آہنی رویئے کو دیکھا تو اِس نے مجبو ری میں اُس عورت اور بچی کو جانے دیا جب وہ بیچاری جا رہی تھیں تو انتہا ئی تحقیر آمیز لہجے میںبو لا ہما رے علا قے کی عورتیں ہما رے لیے بھیڑ بکریاں ہو تی ہیں ہم جس کو چاہیں پکڑ لیں یہ ہما ری بھیڑ بکریاں ہیں آج یہ بچ گئیں ہیں تو جلدی میں یہ پھر میرے قبضے میں ہو نگی تو کون اِن کو بچانے آئے گا۔
اس کی آنکھوں میں ہو س اور شیطانی آگ رقص کر رہی تھی وہ بہت غصے میں تھا کہ ہا تھ آیا شکا ر اُس کے ہا تھ سے نکل کیوں گیا ۔ اِس کے بعد بھی یہ ظالم طا قت اور دولت کے نشے سے انسانوں عورتوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہی ہا نکتا رہا اور پھر جب رگوں میں دوڑتا خو ن سرد ہوا بیما ریوں اور بڑھا پے نے جسم کو چاٹ لیا تو آج یہ مرد ہ لا ش کی طرح پڑا تھا گھر والے اور اہل گا ئوں کئی دن سے اِس کی مو ت کی دعائیں کر رہے تھے مو ت کا عذاب اِس پر اِس برق رفتاری سے وارد ہو ا کہ اِس کو سنبھلنے کا مو قع ہی نہ ملا جو ساری زندگی لوگوں پر ظلم کر تا رہا آج غلیظ مکھیاں اُس پر گندگی بکھیر رہی تھیں اور یہ مکھی کو اڑانے پر بھی قادر نہ تھا ۔ گھر والے اِس کی مو ت کا وظیفہ پو چھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ جوا نی اور اقتدار اور دولت کے نچے میں انسان یہ بھو ل جا تا ہے کہ اُس سے پہلے بھی اِس دھرتی پر اُس سے زیا دہ طا قت ور دولت مند اور حکمران گزرے ہیں اور آج اُن کے جسم مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو چکے ہیں اور ہڈیا ں لوگوں کے پا ئوں میں دھکے کھا تی پھرتی ہیں موت جب وار کر ے تو با دشاہ کو تخت و تا ج سمیٹنے کا بھی مو قع بھی نہیں دیتی۔
PROF ABDULLAH BHATTI
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956