تحریر : رقیہ غزل پاکستان اپنی 68 سالہ تاریخ میں کئی نشیب و فراز سے گزرا ہے مگر گزشتہ دس پندرہ سال سے ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے نام پر کشت و خون کا وہ بازار گرم ہوا کہ یہ قیاس کیا جانے لگا کہ اس کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیںہے ۔یہ دہشت و خوفناکی کا ایسا ناسور تھا کہ جو رفتہ رفتہ سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا ۔غیر ملکی مبصرین اور اکثر دانشوران کے مطابق قبائلی علاقہ جات مبینہ مذموم سرگرمیوں کیلئے محفوظ پناہ گاہیں اور آماجگاہیں قرار دیا جا رہا تھا ۔ان پریشان اور پر تشویش حالات میں مسلم لیگ (ن) نے اقتدار سنبھالا اور بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت قائم ہوئی ۔عوامی سطح پر یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ ان عہدوں پر بہتر سے بہتر ین افراد کو محض اس لیے فائز کیا جاتا ہے کہ اس کا مقصد عوام الناس کی فلاح و بہبود کرنا مقصود ہوتا ہے
درحقیقت سب سیاسی قائدین عام طور پر ہر طرح کی کوشش کرنے کے بعد ایسے دلکش عہدوں پر فائز ہوتے ہیں جن میں عوامی حق رائے دہی حاصل کرنے کے بعد کئی جوڑ توڑ اور مفادات کی بندر بانٹ ‘وعدے اور معاہدے کر کے یہ عہدے ہاتھ آتے ہیں اور مجبوریوں میں جکڑا ہوا ایک سیاسی فرد جب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتا ہے تو پھر وہ اقتدار کے اونٹ کو از خود تنہا کسی ایک جانب نہیں لے جا سکتا بلکہ وہ خود نہیں جانتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔لیکن اتنے اعلیٰ مرکزی اور صوبائی عہدے حاصل کر لینے کے بعد اگر وہ یہ سمجھ لے کہ عوام سے ووٹ لینے سے لیکر مدت اقتدار ختم ہونے تک دلکش اور پر فریب وعدے عوام کا احساس محرومی اور عوامی مسائل ختم کر دیں گے تو یہ اس کی بھول ہے ۔اس طرح کے پر فریب وعدے ،چکر بازیاں اور رنگ بازیاں کرنے والے بیشتر لیڈران پوری دنیا میں خوار ہوتے ہیں اور ایسے افراد سے تاریخ بھری پڑی ہے جن کا انجام بھیانک اور عبرت ناک ہوا اور یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اپنا ماضی اور تاریخ کو بھولنے والی قومیں ہمیشہ خسارے میں رہتی ہیں۔
عبدالمالک بلوچ کے عنان حکومت سنبھالنے کے وقت بلوچستان میں ہزارہ برادری سے زیادتیاں ،مذہبی فرقہ واریت ،لسانی دہشت گردی ،ریاستی جبر ،معاشی نا انصافی ،قانون اور انصاف کے نا گفتہ بہ معاملات ،ترقیاتی کاموں کا نہ ہونا ،قدرتی پوشیدہ معدنیاتی خزانوں کی بندر بانٹ ،آوازئہ حق بلند کرنے والوں سے ناروا سلوک ،غیر ملکی ایجنسیوں کی منفی کاروائیاں اور غربت کی انتہا جیسے بے شمار مسائل سر اٹھائے کھڑے تھے :اس علاقے میں کہ جہاں سیکیورٹی ادارے بھی محفوظ نہ تھے، ایسے علاقے میں ایک ترقی پسند گروہ کو حکومت چلانے کیلئے موقع دیا گیا جو کہ ایک اچھا اقدام تھا لیکن آج بھی ہزارہ برادری کو مذہبی جنون اور فرقہ واریت کی بنا پر درندگی کا ہر وقت نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
begging
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں ،نام نہاد حکمران آتے رہے، اپنی جیبیں بھرتے رہے ،بیانات داغتے رہے ،یہاں تک کہ امیر امیر تر ہوتا گیا اور غریب غریب تر ہی نہیں بلکہ زندگی کی بھیک ماننگے پر مجبور ہو گیا ۔ حتی کہ آج بھی حالات میں زیادہ تبدیلی نہیں ہو پائی۔حکومت کی پہلی ترجیح تو یہ ہونی چاہیئے تھی کہ مختلف عوامی اور قومی معاملات میں عوام کا احساس محرومی ختم ہو جاتا مگر بے شمار وجوہ کی بنا پر ایسا تا حال نہیں ہو پایا کیونکہ حکومت کے جذبات بدل نہیں سکے ،وہی رونے اور نالے جو گذشتہ دس پندرہ سال سے تھے اب بھی جاری ہیں ،دہشت گردی ،انتہا پسندی اور فرقہ واریت نے بلوچوں کی کمر توڑ رکھی ہے ۔موجودہ مرکزی حکومت نے ایک پالیسی مرتب کی ہے اور نیشنل پارٹی کے برسر اقتدار لوگوں سے اشتراک عمل کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے بلوچستان کے وسیع و عریض اور مشکل علاقائی خدوخال کے حامل علاقوں میں مختلف کاروائیاں شروع کر رکھی ہیں جس سے یقینا کچھ نہ کچھ بہتر نتائج ضرور برآمد ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی جیسے گھمبیر مسئلہ پر مکمل طور پر فوکس کیا گیا ہے اور دہشت گردوںکے اکثریتی طور پر حوصلے بھی پست کئے جا رہے ہیں اور دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی گمراہ لوگ بھی راہ راست پر آنا شروع ہو گئے ہیں اور منظم گروہ ٹوٹ کر سیکیورٹی اداروں کے سامنے ہتھیار بھی پھینک رہے ہیں لیکن خطے میں ابھی تک مذہبی و لسانی نوعیت کی دہشت گردی اور کئی نو عیت کا ریاستی جبر اسی وحسشت اور تسلسل سے جاری ہے جو کہ قابل مذمت ہے ،سیاسی قائدین اور افسر شاہی کو سیکیورٹی اداروں کے ذمہ داران کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سو فیصد نتائج بر آمد ہو سکیں کیونکہ اب ہمارے پاس رسمی ،روایتی اور نمائشی کام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
قوموں کے بگڑے مسائل سنوارنے کے لیے صاحب اقتدار اور با اختیار افراد کو تحمل ،برداشت اور دور اندیشی سے کام لینا چاہیئے ایسا نہیں کہ ایک طرف تو” آغاز حقوق بلوچستان تحریک” اور فوجی آپریشن جاری ہو اور دوسری طرف عوامی سطح پر کسی طرف سے اگر کوئی آواز اٹھائی جائے تو اسے فوراً بغاوت شمار کر کے لوگوں کے جائز جذبات دبا دئیے جائیں ۔کامیاب حکومتیں لوگوںکے عقل و شعور پر نہیں دلوں پر راج کرتی ہیں ۔جائز مطالبات کو تسلیم کرنا اور لوگوں کے گھمبیر مسائل پر کان دھرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔کسی کو ملک بدر ہونے یا کرنے پر مجبور کر دینے سے یا جیلیں بھر دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اس طرح شاہ ایران جیسے حالات جنم لینے کا اندیشہ ہوتا ہے اور جب لوگ” امام خمینی ”بن کر لوٹتے ہیں تو پھر اس طرح کے انقلابات کو روکنا نا ممکن ہوتا ہے۔
Pakistan Media
اصل گنہگار وں کو پکڑیں اور میڈیا پر مکمل طور پر بے نقاب کریں ،عبرت ناک سزائیں دیں ۔تمام وہ لوگ جو کسی بھی طرح کی دہشت گردی اور قانون و انصاف کی علمبرداری میںرکاوٹ بن کر سرگرم ہیں ان کی پناہ گاہیں تلاش کریں مگراپنے وطن کی سرحدوں کو” کینہ پرور ہمسایوں ”کے لیے کھولیں گے تو پھر نظام جا سوسی کس کام کا اور فوج کی قربانیاں اور سرگرم ایجینسیاں کیا کریں گی باہر سے آئے لوگ کیوں نہ دہشت گردیاں ،گروہ بندیاں اور عوام دشمن منصوبے بنائیں گے، وہ کیوں نہ منفی سوچ رکھنے والے مفادات کے پتلے سیاستدانوں کو خریدیں گے، وہ کیوں نہ ملک میں بغاوت اور فسادات برپا کروائیں گے ۔آج امن کی آشا کے علمبردار کہاں ہیں ۔۔کیا کسی نے معلوم کیا ہے کہ ایسی خواہشات کے پس پردہ کیا کیا کاروباری مفادات ہوتے ہیں ۔کسی دشمن ملک سے عوام رابطہ کاری اوروہاں آمدو رفت کریں تومشکوک اور غدار ہیں اور اگر برسر اقتدار افراد یا ان کی آشیر باد پر بعض عناصر کریں جیسے چاہیں کریں ۔ تو ۔۔ واہ ! واہ ! ۔۔۔یہ کیا بات ہے !
بلوچستان جو کہ ایک اہم اور بڑا صوبہ ہے ،معدنیات سے مالامال ہے جبکہ جو بھی بر سر اقتدار آیا ”بابر با عیش کوش ” والی حکمت عملی میں ہی خیر سمجھی ۔ہر کسی نے اپنے دور اقتدار میں قدرتی اسباب کی لوٹ مار اور اپنی زندگی بادشاہوں سے بہتر اور عوام کو کنگال بنائے رکھا ،کیونکہ موروثی سیاست اور خاندانی سیاسی اجارہ داری نے قانون احتساب کا خوف ہی دلوں سے نکال رکھا ہے ۔بلوچستان میں ہونے والے حالیہ انتظامات میں تاحال مرکزی حکومت مخلص نظر آرہی ہے ،فوجی آپریشن کے نتائج بھی حوصلہ افزا ہیں ،گوادر پورٹ کے لیے سرمایہ کاری میں باوجودیکہ کئی ہاتھ رنگے گئے ہیں مگر پھر بھی اس علاقے کی معاشی حالت کو اس اقدام سے خاطر خواہ فائدہ ہونے کا امکان ہے، جس سے بلوچوں کا کچھ اعتماد ضرور بحال ہوگا ۔آج جبکہ گوادر پورٹ کی بندرگاہ کو پورے ملک اور چین کو وسطی ایشا کے ساتھ ملانے کے لیے سڑکوں کا وسیع و عریض جال بچھاکر کوشش کی جارہی ہے کہ بلوچستان میں احساس محرومی ختم کیا جائے ،باوجودیکہ ایسے پاپولر پراجیکٹس سے فرق ضرور پڑے گا لیکن صرف ایسے کسی ایک دو کاموں سے صوبے کی معاشی حالت مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہو سکے گی۔
آج ملک دشمن اور گندی ذہنیت رکھنے والی قومیں پاکستان کی سلامتی و بقا کو نقصان پہنچانا چارہی ہیں اور پورے ملک میں سرگرم عمل ہیں اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض سیاسی گروہ اور سر کردہ افراد کے بارے یہ خبریں عام ہیں کہ وہ بھی غیر ملکی ایجنسیوں کے آلئہ کار بن چکے ہیں جن پر نگاہ رکھنا بھی ضروری ہے لیکن یہ سچ ہے کہ صوبے اور ملک میں منفی سر گرمیاں ختم نہ کرنے کے عادی لوگ سخت مایوس ہیں موجودہ حکومت نے بلوچستان میں امن و امان کی بہتر صورت حال اور تعمیر و ترقی کے لیے اقدامات شروع کر دئیے ہیں خدا کرے کہ ان کے مثبت نتائج سامنے آئیں لیکن یہ طے شدہ ہے کہ پر فریب وعدے ،احساس محرومی اور مسائل کو ختم نہیں کر سکتے ۔بلکہ اپنے کہے کو مکمل اخلاص سے کر کے دکھانا لازم ہو گا۔