تحریر : طارق پہاڑ میں کس ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں– تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں داستانے سانحہ پشاور کے بعد میرا دل اور دماغ ابھی تک اپنی اصلی حالت میں نہیں آرہا ہے۔ اور ہر وقت پھول جیسے بچے میری آنکھوں کے سامنے ہیں اور مجھے یقین نہیں ہو رہا کہ خود کو مسلمان کہلوانے والے بھیڑیے کچھ ایسا کر سکتے ہیں۔ اتنی حد تک جاسکتے ہیں کہ 16 دسمبر کے بعد سے میرا ضبط ٹوٹ گیا۔ معصوم چہچہاتے پھول صبح سویرے اپنی مائوں بہنوں کو سلام کر کے ابو اور بھائیوں کے ساتھ سکول گئے۔ اور بڑی محبت اور پیار سے ٹافیاں اور چپس کا خرچہ مانگا اور خوشی خوشی سکول کے کلاس روم میں چلے گئے۔ جن مائوں بہنوں نے ان کو رخصت کیا تھا انہیں کیا خبر تھی کہ آج کی ملاقات آخری ملاقات ہوگی۔ اور پھر کبھی یہ پھول اپنے گلدانوں میں لوٹ کر واپس نہیں آئیں گے۔ ماں باپ کی آنکھوں کے نور دل کے سرور ایک آن میں وحشی درندوں کا شکار ہو جائیں گے۔ تڑپتی مائیں انصاف ، سکون اور تحفظ مانگ رہی ہیں۔ جانوروں اور درندوں نے گھروں کے گھر اجاڑ دیئے۔ مائوں کے بیٹے جوانی سے پہلے شہید کر دئے گئے۔ جن کے چہروں پر گولیاں ماری گئیں۔ جن کے سر تن سے جدا ہو گئے۔ کچھ کو بھگا کر پیچھے سے گولیاں ماری گئیں۔ ہمیں بزدلی اور منافقت چھوڑ کر دہشتگردوں کے خلاف باہر نکل کر آنا ہو گا۔ اگر آج ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیئے تو یہ آگ ہمارے گھروں تک پہنچ جائے گی۔ ہمیں آج مسلمان اور پاکستانی کہنے پر شرم محسوس ہو رہی ہے۔
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم — بجھ تو جائوں گا مگر صبح تو کر جائوں گا ظلم کے انگارے معصوموں کے لہو سے بجھ گئے۔ جنازوں پر پھول تو دیکھے لیکن پھولوںکے جنازے پہلی بار دیکھے۔ پوری قوم غم سے نڈہال ، ہر آنکھ اشکبار۔ والدین پر قیامت ٹوٹ پڑی۔سانحہ پشاور نے پوری قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ دہشتگرد اب تک ہزاروں پاکستانیوں کو شہید کر چکے ہیں۔ لیکن سانحہ پشاور میں سفاک دہشتگروں نے درندگی اور بربریت کی ایسی مثال قائم کی جو حیوان بھی نہیں کر سکتے۔ ننھے پھول چیختے چلاتے رہے کہ انکل میرا کیا قصور ہے؟ میں نے کیا کیا ہے؟ لیکن ظالم سفاک قاتلوں نے اُن معصوموں کی ایک نہ سنی اور ان پر گولیوں کی بارش برساتے رہے۔ ننھے پھولوں کی یاد میں آج بھی ہر آنکھ پُر نم ہے۔ ان مائوں سے پوچھو جنہوںنے اپنے لخت جگر کھو دیئے۔ کیا ظالموں کے سینے میں دل نہیں تھا؟ کیا ان کی کوئی اولاد ، بہن بھائی نہیں تھے۔ اس سے زیادہ دہشتگردوں کا مکروہ چہرہ کیا ہو سکتا ہے۔ خون میں لت پت پر معصوم بچوں نے پوری قوم کو متحد کر دیا۔ کیا اسلام ہمیں مساجد ، امام بارگاہوں اور معصوم بچوں پر دھماکے اور قتل و غارت سکھاتا ہے۔ ہر گز نہیں۔
اللہ تعالیٰ پاکستانی قوم کے حال پر رحم کرے۔ دشمنان اسلام ، پاکستان جو کہ نظریاتی بنیادوں پر قائم ہوا کی ایٹمی قوت سے خوفزدہ ہے۔ انہیں یہ خدشہ ہے کہ کہیں پاکستان عالم اسلام کا لیڈر نہ بن جائے۔ دہشتگردوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ قتل و غارت کرنا تھا۔ جنہیں آرمی پبلک سکول اینڈ کالج سسٹم کے بارے میں مکمل معلومات تھیں۔ اور یہ بھی پتہ تھا کہ اس وقت کونسی جگہ زیادہ تعداد میں طلباء جمع ہیں۔ سکول میں اساتذہ کی تعداد 110 اور طالبعلموں کی تعداد 1600 بتائی جاتی ہے۔ جن میں خواتین اساتذہ بھی شامل ہیں۔ اور اس سکول میں 70 فیصد طلباء سولین گھرانے سے تعلق رکھنے والے جبکہ 30 فیصد فوجی افسروں کے بچے تھے۔ اطلاع کے مطابق اب تک جنوبی ایشیا میں 10 سال کے دوران سکولوں پر ایک ہزار 2 سو 59 حملے ہو چکے ہیں۔ جن میں پاکستانی سکولوں پر 836 افغانستان 205 اور عراق کے 184 سکولوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس طرح پاکستان میں 406 خود کش حملوں سمیت 14 ہزار ایک سو 27 دہشتگردوں کی کاروائیوں میں 5 ہزار 272 سپاہی و افسر شہید جبکہ 48 ہزار 293 افراد مارے گئے۔ 31 ہزار زخمی ہوئے۔ اور ان دس سالوں میں پاکستان کو 78 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس وقت پاکستان کی جیلوں میں سزائے موت پانے والے افراد کی تعداد 7 ہزار 106 ہے۔ جن میں پنجاب 6358 بلوچستان میں 98 کے پی کے 192 سندھ 458 جبکہ لاہور میں 443 راولپنڈی میں 403 کراچی میں 151 سکھر 94 اور ملتان میں 19 افراد بتائے جاتے ہیں۔ سال رواں میں 3 سو سے زائد دہشتگرد حملے ہو چکے ہیں۔ جن کے باعث معیشت کو بڑا دھچکا لگا ہے۔
Peshawar Terrorist Attack
دنیا بھر میں خطرناک ملزمان کو سزائے موت زیادہ تر زہریلے انجکشن کے ذریعے جبکہ الیکٹرک چیئر اور فائر مار کر اور گردن آرا کر دی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں پھانسی کا پھندہ استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کے اوقات نماز فجر سے پہلے رکھے گئے تھے۔ لیکن اب صوبوں نے اس قانون میں تبدیلی کرتے ہوئے کسی بھی وقت پھانسی کا وقت مقرر کر دیا ۔ جس سے فیصل آباد میں 2 ملزمان ڈاکٹر عثمان جو کہ پرویز مشرف حملہ جبکہ ارشد مہربان GHQ حملہ کیس کا ملزم تھا کو پھانسی دے دی گئی۔ اسی طرح لاہور میں 4 دہشتگردوں کو بھی پھانسی دے دی گئی۔ اسی طرح پنجاب کے مزید 14 دہشتگردوں اور سندھ کے 6 دہشتگردوں کے ڈیتھ وارنٹ آئیندہ چند روز میں جاری ہونے کا امکان ہے۔ جس کے بعد انہیں بھی سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔ دوسری جانب چیف جسٹس پاکستان ناصر الملک نے 23 دسمبر کو تمام ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا اجلاس بلا لیا۔ جس میں دہشتگردوں کے مقدمات کو تیزی کے ساتھ نمٹانے کا فیصلہ متوقع ہے۔ حکومت پاکستان نے اس دوران تمام تنصیبات کی سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی ہے۔ اور دہشتگردو ں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔
دہشتگردوں کا بہت بڑا نیٹ ورک ہے کے مقدمات کی شنوائی کیلئے ججز کو سکیورٹی فاہم کی جائے۔ تا کہ وہ آزادانہ فیصلے کر سکیں۔ اس سلسلہ میں جہاں نوز شریف نے جس طرح جرأت مندانہ فیصلے کیئے ان پر پوری قوم نے اطمنان کا اظہار کیا ہے۔ عمران خان کیا جانب سے دھرنے ختم کر کے حکومت کو سپورٹ دینا قابل تحسین عمل ہے۔ جبکہ دیگر تمام جماعتوں نے بھی آل پارٹیز کانفرنس میں مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو کہ انتہائی مناسب ہے۔ لیکن الیکشن کمیٹی جس کے پاس 7 دن تھے پانچ دن گزر گئے کچھ فیصلہ نہ کر سکی اور ایک اور کمیٹی بنا دی۔ یہ وقت انرکی کا نہیں بلکہ متحد ہونے کا ہے۔ ہمیں اپنے تمام اختلافات بھلا کر پاکستان کیلئے متحد ہونا پڑے گا۔ تاکہ پاکستان مخالف دشمنوں کے عظائم خاک میں ملائے جا سکیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے خاطر خواہ اقدامات سامنے نہیں آئے۔ جبکہ وزیر اعلیٰ KPK دھرنوں میں لگے رہے۔ اور سکیورٹی پر کوئی توجہ نہ دی جس کے باعث اتنا بڑا سانحہ رو پذیر ہوا۔ اگر ایجنسیوں کو سکولوں میں دہشتگردی کے واقعات کی 20 روز قبل اطلاع تھی۔ تو پھر یہاں پر معصوم جانوں کی سکیورٹی کیلئے اقدامات کیوں نہ کیئے گئے؟ اور قریبی افغان بستی پر کیوں نظر نہ رکھی گئی؟ کیا دہشتگردوں کے سہولت کار آس پاس کے علاقوں میں تو نہیں رہتے۔
GHQ مہران بیس واگہ بارڈر واقعہ ہو یا سانحہ پشاور ، اس سہولت کاروں کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ اور اربوں روپے تنخواہیں لینے والی سکیورٹی ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں؟ ہمیں انٹیلی جنس کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا۔ اور اپنے اندر سے کالی بھیڑوں کا صفایا کرنا ہو گا۔ جس میں میڈیا ، مذہبی و سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو اپنا بھر پور کردار ادا کرنا پڑے گا۔ اور دہشتگردوں کے ساتھ نمٹنے کیلئے افغانستان سے مل کر کاروائیاں کرنا ہونگی۔ واقع کی اطلاع ملتے ہی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف پشاور پہنچ گئے۔ آرمی چیف تمام تر ثبوت لے کر ملا فضل اللہ کی حوالگی کا مطالبہ لے کر افغانستان گئے۔ اور صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔ جس پر انہوں نے پاکستان سے افغانستان میں کاروائیاں کرنے والے افراد مانگ لیئے۔ کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معائدہ نہیں۔ بہر حال یہ تماشہ کرنے یا دیکھنے کا وقت نہیں۔ 16 دسمبر 1971 ء کو سقوط ڈھاکہ ( ماضی ) اور 16 دسمبر 2014 ء ہمارا مستقبل اور سانحہ پشاور جیسے دلدوز واقعات جن سے پاکستانی قوم کو بہت بڑا دھچکا لگا۔ اگر ابھی بھی آنکھیں نہیں کھلتیں اور کمشنوں کمیٹیوں کے معاملات چلتے رہیں گے۔ اور کسی نتیجہ پر نہ پہنچا جائے گا۔ تو پھر اس سے بڑے کسی اور سانحے کیلئے اللہ نہ کرے ہمیں ضرور تیار رہنا ہو گا۔ حکمران اور اپوزیشن اپنے ذاتی مفادات الگ کر کے اس وقت صرف اور صرف پاکستان کیلئے سوچیں۔ اور آزادانہ پالیسی اختیار کر کے ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جائے۔ جس کی نشاندہی اور راہ شائد معصوم شہیدوں نے خون کے نذرانے دے کر کر دی ہے۔ عزم ، ہمت اور حوصلے کے ساتھ نئے دور کا آغاز کر دیا جائے۔ تاکہ قوم کے دیگر بچوں کا مستقبل محفوظ بنایا جائے۔ کیونکہ جب بھی اس ملک پر برا وقت آیا تو اس قوم نے دل کھول کر قربانی دی۔ یہ موجودہ حکومت اور سیاسی قوتوں کا امتحان ہے۔ کہ وہ اس دکھ اور درد بھرے منظر میں قوم کیلئے کیا کرتے ہیں۔