تحریر: رانا اعجاز حسین پاکستان سمیت دنیا بھر میں 20 دسمبرکا دن انسانی یکجہتی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن کے منانے کا مقصد دنیا سے غربت اور تنگ دستی کے خاتمے ، اورانسانوں کی باہم یکجہتی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ انسانی حقوق کی علمبردار سماجی تنظیمیں اس دن کے حوالے سے خصوصی سیمینارز، واکس اور مختلف تقریبات کا اہتمام کرتی ہیں ،اور مقررین غربت اور تنگ دستی کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ، اورانسانی اتحاد اور یکجہتی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 20 دسمبر 2005ء کو دنیا بھر میں انسانی یکجہتی کا عالمی دن منانے کی باضابطہ منظوری دی تھی۔ یکجہتی کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی خوشیوں اور غموں میں ایک دوسرے کے ساتھ باہم شریک ہوں ،آپ کی خوشی ہماری خوشی اورآپ کا غم ہمارا غم ہو۔ اور جو مسائل ہمیں درپیش ہوں ان کو ہم باہم اتفاق و یکجہتی سے حل کریں، اور ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ اپنائیں۔
دنیا کی اقوام و مذاہب میں سب سے پہلے یکجہتی کا درس ہمارے پیارے دین اسلام نے دیا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، خواہ کوئی مشرق ومغرب کا رہنے والا ہو یا شمال وجنوب کا، کوئی مسلمانوں کے علاقے میں رہتا ہو یا کافروں کے علاقے میں، اس کے باوجود بہر حال سب مسلمان بھائی ہیں اور بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنا ایک شریف اور باکردار قوم کی پہچان ہے۔اسلام نے بلا تفریق مذہب وملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے جس پر سچائی سے عمل کرلیا جائے تو یہ شر وفساد ،ظلم و جبر اور بے پناہ انارکی سے بھری دنیاجنت کا منظر پیش کرے۔
International Human Solidarity Day
محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے د نیا کی کسی تعلیم،کسی مذہب اور کسی مفکر کی وہاں تک رسائی نہ ہو سکی۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ”ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو،سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ،اور ایک روایت میں ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو۔(بخاری)، ایک دوسری جگہ ارشاد ہے” جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ تم زمین والوں پہ رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کریگا۔(حاکم مستدرک ) اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کو پست اور منقسم کرنے میں چند عالمی طاقتوںکی سامراجی ذہنیت ، چالبازیاں، اور پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب ہے، سامراج اور اس کے پالیسی ساز ادارے عالم اسلام کو کسی صورت متحد نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ ایک ایجنڈے کے تحت عالم اسلام کو تقسیم در تقسیم کرتے چلے آ رہے ہیں۔
اسی باعث مسلمانوں میں اختلافات ہیں ، اور عالم اسلام کے ممالک اور ان کے حکمرانوں میں اتحاد نہ ہونے کے برابر ہے۔ کسی بھی ملک کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی حریف ہیں ۔حزب اقتدار اور اختلاف میں ذاتی دشمنیاں اور عناد ہیں۔ دینی اور مذہبی جماعتوں ، اداروں اور رہنماؤں میں اتنا اختلاف ہے کہ بغیر کسی دلیل کے ایک دوسرے کو مفافق ، ملحد اور ایجنٹ ہونے کے القاب دیتے ہیں۔صوبائیت ، لسانیت، قومیت اور وطنیت کے جھگڑے ہیں۔ سازشی عناصر ان حالات اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور اتفاق و یکجہتی پر دیا گیا ہے۔
آپس میں محبت ،اخوت، بھائی چارہ، ایمان واتحاداور یقین مسلمانوں کا موٹو ہوتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حجتہ الوداع میں حکم فرمایا تھا ” دیکھو ! باہمی اختلاف میں نہ پڑنا۔” قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا حکم ہے ” ولاتفرقوا” ”اختلاف ہرگز ہرگز نہ کرو۔” تاریخ اٹھا کر دیکھیں اختلاف ہی کی وجہ سے قوموں اور ملکوں کو بڑے بڑے نقصان اٹھانا پڑے ہیں۔ اختلاف ہی کی وجہ سے مسلمان ممالک پستی اور ذلت کا شکار ہیں۔
غربت، مہنگائی، بدامنی، لاقانونیت ، بے روز گاری، جہالت، انتقام، لوٹ مار، ڈاکے، اغوا، قتل و غارت جیسے موذی امراض مسلمانوں میں باہمی اختلافات ہی کا نتیجہ ہیں۔ آج امت مسلمہ میں مثالی اتفاق ، اتحاد و یکجہتی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہم 58 اسلامی ممالک اور ان میں بسنے والے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان بہت طاقتور ہوسکتے ہیں، اگر ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے یکجہتی کا مظاہرہ کریں، مثالی حسن سلوک اپنائیں۔ اور بے حسی کی روش ترک کرکے ایک دوسرے کے معاونت اور ایک دوسرے کے لئے کار خیر کا باعث بنیں۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر: رانا اعجاز حسین ای میل: ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033