تحریر: قادر خان افغان اقوام متحدہ نے 4 دسمبر 2000 میں مہاجرین کی بڑھتی تعداد کی پیش نظر ہر سال 18 دسمبر کو بین الاقوامی مہاجرین کا دن منانے کا اعلان کیا، جس کے بعد سے پاکستان سمیت پوری دنیا میں بین لاقوامی مہاجرین کا عالمی دن 18 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق دنیا میں دوکروڑ 10 لاکھ پناہ گزینوں کا تعلق تین ممالک شام ، افغانستان اور صومالیہ سے ہے۔مملکت شام میں مہاجرین کی بڑی تعداد کا نخلا کا واحد سبب بشار الاسد کی ایران کی مدد سے اقتدار پر جبری قبضہ اور مسلمانوں کومسلک کی بنیاد پر خانہ جنگی اور پھر روس اور ایران سمیت بشار الاسد کی حمایتی ملیشیائوں کی جانب سے عام شہری آبادیوں پر بمباریاں اور عام مسلمانوں کا قتل عام ہے۔جس کے سبب لاکھوں کی تعداد میں مسلمان ، اسلام کے نام پر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ، حلب کی جاری خانہ جنگی میں حالیہ دنوں 90 فیصد آبادی ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی۔
شام میں خانہ جنگی کی طوالت کا واحد سبب ایران کی جانب سے شامی حکومت کی عسکری اور مالی مدد کے ساتھ افرادی قوت کے ذریعے مدد شامل ہے۔ جس میں کئی مرتبہ ایران کی جانب سے شام بھیجے جانے والے بھاری اسلحہ کھیپ ا مریکہ نے پکڑے۔ افغانستان کے حوالے سے بھی امریکہ وزرات خارجہ کا بیان سامنے آیا ہے کہ ایران ، افغانستان میں جنگجو گروپس کی مدد کررہا ہے اس لئے افغانستان میں امن کے قیام میں دشواری حائل ہے۔ بین الاقوامی مہاجرین کے دن کے حوالے سے ہمیں اقوام متحدہ کی جانب سے یہ عالمی دن منانا تو یاد آجاتا ہے لیکن اس حقیقت کو ہم فراموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ مصائب ، جو دوکروڑ 10لاکھ سے زائدپناہ گزینوںکو درپیش ہیں اس کی اصل وجہ خود اقوام متحدہ ہی ہے۔ شام میں اقوام متحدہ کی جانب سے مثبت کردار ادا نہیں کیا جارہا ، روس کے ویٹو پاور ہونے کی بنا پر ، روس شام کے شانہ بہ شانہ افغانستان میں مسلمانوں کے ہاتھوں اپنی شکست کا بدلہ لینے کیلئے مسلمانوں کے قتل عام میں مصروف ہے ، عجیب حیرت کی بات ہے کہ کیمونسٹ بلاک کے اہم ملک کی جانب سے اسلام کے نفاذ کیلئے ایران و شام روس کی مدد حاصل کررہے ہیں ۔ یہی صورتحال عراق میں تھی ، جب اقوام متحدہ نے عراق کے خلاف امریکا کی جانب سے ایک جھوٹی سی آئی اے رپورٹ پر نیٹو ممالک کے ساتھ ملکر حملہ کردیا اور عراقی صدر کو پھانسی کی سز ا دیکر عراق کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ، جس میں ایک جانب ایران کی حمایت یافتہ عراقی حکومت قائم ہوئی تو دوسری جانب کردوں نے اپنی اجارہ داری قائم کرکے ، بڑی تعداد میں اپنے مسلک کے خلاف مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کردیا ، رہی سہی کسر امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے بنائے جانے والی دولت اسلامیہ نے پوری کردی ، جس نے اپنی نام نہاد خلافت کا اعلان کرکے موصل پر قبضہ کرلیا اور بربریت کا ایک بازار گرم کیا کہ اس کے ظلم و ستم سے بچنے کیلئے لاکھوں مسلمانوں کو ہجرت کرنا پڑی۔
International Migrants Day
اقوام متحدہ کا کردار یہاں بھی موثر نہیں تھا ، اس نے داعش کو پھیلنے کی اجازت دی اور عراق کے ساتھ ساتھ شام میں جڑیں مضبوط کرنے کا موقع فراہم کیا ۔ اس کا نتیجہ لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی صورت میں نکلا جنھوں نے اپنی جان بچانے کے لئے دوسرے ممالک کا رخ کیا ۔ افغانستان میں38سال سے مہاجرین کا مسئلہ اقوام متحدہ حل نہیں کراسکی اور روس کی مداخلت کو روکنے کیلئے پاکستان کو امریکہ نے ساتھ ملا کر افغانستان میں طویل جنگ لڑی ، جس کے نتیجے میں دنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین پاکستان میں آئے اور ان کی دو نسلیں اب تک یہاں جوان ہوچکی ہیں ۔ گمان غالب تھا کہ روس کی شکست کے بعد افغانستان میں امن قائم ہوجائے گا ، لیکن یہاں مجاہدین کے متحارب گروپوں کی آپس کی خانہ جنگی میں افغان عوام اپنے ملک نہیں جا سکے اور ان کی بڑی تعداد ایران میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی ، ایران نے پاکستان کے مقابلے میں ، افغان مہاجرین کو شہروں سے دور ، کیمپوں کی حد تک محدود رکھا اور گیارہ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو ایران میں ، پاکستان کی طرح آزادی نہیں دی گئی ، پاکستان میں 40لاکھ سے زائد افغان مہاجرین نے پاکستان کو افغانستان میں تبدیل کردیا اور پاکستان کے بڑے شہروں میں اس طرح آباد ہوگئے ، جس طرح ہندوستا ن سے آنے والے مہاجرین ، سندھ میں آباد ہوگئے تھے۔ہندوستانی مہاجرین نے تو قیام پاکستان کے لئے قربانی دی تھی ، لیکن ان کی بہت بڑی تعداد سندھ کے دوسرے شہروں میں آباد تو کی گئی ، لیکن انھوں نے اس وقت کے وفاقی دارالحکومت کراچی کا رخ کیا اور پھر اب حالات ایسے واقع ہوگئے ہیں کہ وہ خود صوبہ سندھ کے شہری ہونے کی نسبت دینے کے بجائے ، آج بھی مہاجر کہلواتے ہیں، انھوں نے اپنی شناخت ختم کردی ، اب انھیں حیدرآبادی ، لکھنوی ،راجپوت ، یوسف زئی ، دہلوی و دیگر تاریخی شناخت کے بجائے مہاجر کی شناخت ملی ، افغان مہاجرین اگر مزید دو عشرے پاکستان میں رہ گئے تو سندھ کی ، مستقل آبادی ، سندھ قوم ، اقلیت میں تبدیل ہوجائے گی، اور یہی مسئلہ بلوچستان میں ہے کہ بلوچ ، جو ویسے بھی بلوچستان میں تمام اقوام کو ملا کر بھی اقلیت میں ہیں ، افغان مہاجرین کی جانب سے پاکستانی جعلی دستاویزات حاصل کرنے کے بعد اکثریت میں آجائے گی، افغان مہاجرین کی جہاں دو نسلیں پاکستان میں پروان چڑھی ہیں ، وہاں انھوں نے پاکستانی معیشت پر بھی اپنے قدم جمالئے ہیں ، اربوں روپوں کی سرمایہ کاری ، اور پاکستانی خاندانوں میں رشتوں کے بعد سماجی طور پر بھی افغان مہاجرین پاکستان میں بس گئے ہیں۔
افغان مہاجرین کی آمد کا فائدہ اٹھا کر ، پاکستان میں کلاشنکوف کلچر ، اور منشیات کو فروغ حاصل ہوا اور عالمی منڈی میں منشیات کی اسمگلنگ کیلئے پاکستان ، سونے کی کان ثابت ہوا ، کیونکہ رشوت کی فروانی نے اداروں کو کھوکھلا کردیا ہے ، اس لئے جہاں انتہا پسندی بڑھتی چلی گئی وہاں پاکستان کے شہری اپنے وسائل پر مہاجرین کے قبضے سے خود دوسرے ممالک میں رہنے پر مجبور ہوئے۔ ایران نے افغانستان میں عراق کی طرح تقسیم کے منصوبے پر عمل درآمد کیلئے امارات اسلامیہ کے مقابلے میں مزار شریف اور اہل تشیع کے ان گروپوں کی مدد کرنا شروع کی ، جو مستقبل میں ایک شیعہ اسٹیٹ کیلئے کوشش کررہے ہیں ، افغانستان میں گیارہ لاکھ مہاجرین کی تعداد ایران کے لئے کبھی پریشانی کا سبب نہیں بنی ، کیونکہ ایران نے نہایت اعلی حکمت عملی سے انھیں محدود رکھا ، لیکن پاکستان میں سیاسی مداخلتوں نے ، عام پاکستانی شہری کو پریشانی میں مبتلا کردیا ۔یہاں تک کہ پشاور اور اس کے محلقہ علاقوںمیں افغان مہاجرین کا اثر رسوخ اتنا بڑھ گیا کہ پشاور کی مستقل آباد ، اقلیت میں تبدیل ہوگئی تھی۔
International Migrants Day
امریکا نے نائن الیون کا بہانہ بنا کر افغانستان پر چڑھائی کردی ، اقوام متحدہ نے امریکا کا ساتھ دیا ۔ جس طرح برطانیہ نے اپنی اس غلطی کو تسلیم کرلیا ہے کہ عراق میںامریکن سی آئی اے کی غلط رپورٹ پر عراق پر حملہ غلط فیصلہ تھا کیونکہ رپورٹ جھوٹی تھی ، اسی طرح نو منتخب امریکی صدر نے اعتراف کرلیا ہے کہ نائن الیون میں جڑواں عمارتوں کی تباہی جہاز وں کے ٹکرانے کی وجہ سے نہیں بلکہ عمارت میں پہلے سے نصب شدہ دھماکہ خیز مواد سے ہوئی ، امریکا اب بھی افغانستان میں جبری طور پر اپنی کٹھ پتلی کابل حکومتوں کی جانب سے افغانستان میں امن کے قیام میں رکائوٹ پیدا کر رہا ہے ، امریکی صدر بارک اوباما ، اپنی شکست کا اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ امارات اسلامیہ افغانستان کے افغان طالبان کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے ، اس لئے امریکی پالیسی سازوں نے بھارت کو علاقے کا تھانے دار بنانے کیلئے اس کے کندھے پر بندوق رکھی اور اشرف غنی کی انگلیوں کو ” گھوڑا ” دبانے کی ہدایت کردی ، حالیہ چھٹی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں جس طرح اشرف غنی ، اور نریندر مودی ، پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرتے رہے ، اس سے صاف عیاں تھا ،کہ افغان مہاجرین کی میزبانی پر پاکستان کی تعریف تو کی جاسکتی ہے لیکن لاکھوں افغان مہاجرین کی وطن واپسی کیلئے امن فارمولا ان کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے ، اقوام متحدہ کا کردار یہاں بھی انتہائی غیر موثر ثابت ہوا۔
افغانستان کا جنگی حل کے بجائے اگر قطر کے سیاسی دفتر کا استعمال مسلسل کیا جاتا رہتا تو آج لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کو اپنے وطن افغانستان میں بسایا جا سکتا تھا ، جہاں سے وہ پاکستان کے قانون کے مطابق دوبارہ ، پاکستان میں اپنا کاروبار بھی جاری رکھ سکتے تھے ، اور جنھوں نے پاکستانی خاندانوں میں رشتے کئے ہیں ، ان کے لئے بھی پاکستانی آئین کے مطابق گنجائش موجود تھی ، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایران ، افغانستان میں امن کی خواہش اسی طرح نہیں رکھتا ، جس طرح بھارت اور کابل حکومت نہیں چاہتے ، کیونکہ ایران کو شام میں بشار الاسد کی مدد کے لئے فاطمین بریگیڈ کیلئے افغان مہاجرین وافر تعداد میں مہیا ہیں ، افغانی مہاجرین کو ایران میں کام کرنے اور آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہے ، لیکن شام کی جنگ میں اگر افغان مہاجرین کا کوئی فرد جنگجو بن کر جائے گا تو اس کے خاندان کو روزگار ، تعلیم ، اور ایرانی شہریت کے ساتھ ساتھ ، ایران میں مکمل آزادی مل جائے گی۔ اس لئے افغان مہاجرین کے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے ایران میں بھوک اور افلاس کی موت سے مرنے سے بہتر سمجھا کہ وہ شام جاکر لڑیں ، کم ازکم ان کے خاندان کو ماہانہ تنخواہ اور آزادی تو مل سکے گی۔ اس پر ایک مرتبہ افغانستان حکومت نے اعتراض بھی کیا تھا لیکن ایران نے اس کو پروپیگنڈا قرار دے دیا ، لیکن اب سالوں بعد ثابت ہوچکا ہے کہ ایران نے افغان مہاجرین کی کیثر تعداد میں جنگجو ہونے کی بھرتی کے بنا پر ایک الگ بریگیڈ فاطمیون کے نام سے بنا دی ہے ، مہاجرین کی اس زبوں حالی کا بھی اقوام متحدہ ذمے دار ہے ، کیونکہ جب وہ کسی ملک پر چڑھائی کیلئے اجازت دے سکتا ہے تو جنگ رکوانے میں اس کا کردار صفر ہوجاتا ہے ، اور فالج زدہ ادارے کی طرح مہاجرین کی زبوں حالی دیکھنے کے باجود فی مہاجر تین ڈالر سالانہ حکومت کو دیکر سمجھتا ہے کہ اس نے اپنی ذمے داری پوری کرلی۔ دراصل دنیا میں جتنے بھی مہاجرین اپنے وطن سے بے وطن و بے توقیر ہوئے ہیں ، اس میں سب سے بڑا رول ، امریکا ، ایران اور، اقوام متحدہ کا ہے۔
International Migrants Day
بین الاقوامی مہاجرین میں اقوام متحدہ نے برما کے مسلمانوں کو سب سے مظلوم اقلیت قرار دیا ہے ، لیکن یہاں بھی اقوام متحدہ نے اپنا موثر کردار ادا نہیں کیا اور بدھ مت کے مانے والے عدم تشدد کے پیروکاروں نے تشدد کی وہ مثالیں رقم کیں ، جس کی تاریخ میں بدترین مثال نہیں ملتی۔برما کی مسلمان واحد ایسے مہاجرین ہیں ، جن کا اپنا کوئی وطن ہی نہیں ہے ، میانمار کی حکومت انھیں اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی ، بنگلہ دیش انھیں اپنے ملک میں آنے نہیں دیتی ،بہت سے خوش نصیب وہ بھی ہیں جو کسی طرح تھائی لینڈ کی سر زمین پر پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اسی طرح بعض ملائیشیا اور بعض انڈونیشیا تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں، لیکن ان کے لئے وہاں ایک نئے عذاب کا سلسلہ منتظر ہوتا ہے، کیوں کہ ان کو وہاں پناہ گزین کی حیثیت کے بجائے غیر قانونی تارکین وطن کی حیثیت سے جیلوں میں رکھا جاتاہے،، سعودی عرب نے غیر قانونی رہائش پذیر برمی مسلمانوں کو ورک پرمٹ دے کر انھیں سعودی ریاست میں جہاں کام کرنے کی اجازت دی ، وہاں روزگار بھی فراہم کیا ، پاکستان نے بھی برمی مسلمانوں کو پناہ دی اور پاکستانی شہریت دی ، لیکن برمی مہاجرین کے لئے یہ اقدامات ناکافی ہیں ، برمی مسلمان سمند ر میں کشتی میں رہتے ہوئے ، جزیروںکی تلاش میں ڈوبتے رہتے ہیں ، اور برما میں روہنگیائی مسلمانوں کی عزت و ناموس محفوظ نہیں ، اردگان میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم کی سفاکیت کی مثالیں قائم کی جا رہی ہیں ، لیکن اقوام متحدہ اور دیگر مسلم ممالک کی خاموشی نے روہنگیائی مسلمانوں کو انسان ہونے کی حیثیت سے بھی تسلیم کرانے میں مسلسل عذاب کا سامنا ہے۔
حالیہ انتخابات(2015ئ)جس میں آنگ سان سوچی کی پارٹی کامیاب ہوکر حکومت بناچکی، اس میں مسلمانوں پرنہ صرف بطورامیدوارکھڑے ہونیکی پابندی لگادی،بلکہ کسی بھی مسلمان کوووٹ کاسٹ کرنیکاحق بھی نہیں دیاگیا۔بے گھر اور خانماں برباد لوگوں نے اپنی جانیں بچاکر کشتیوں میں سوار ہوکر بنگلہ دیش میں پناہ لینے کی کوشش کی تو وہاں کی حکومت نے انہیں پناہ دینے کے بجائے دوبارہ سمندر میں دھکیل دیا، جس کے نتیجہ میں ہزاروں افراد مچھلیوں کی خوراک بن گئے۔کوئی رات ایسی نہیں گذرتی کہ ان میں کسی ایک یا چند گھروں پر قیامت نہ بیتتی ہو، برمیز فوج کے اہلکار گھروں میں دھاوا بول دیتے ہیں اور پھر چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے مردوں کو گرفتار کرلیتے ہیں، عورتوں کی عصمت دری کرتے ہیں، بچوں اور بوڑھوں تک کو نہیں بخشتے۔ کبھی اسلحہ کی تلاشی کے بہانے پورے گھر کو کھود ڈالتے ہیں اور کبھی موبائل رکھنے کے ناکردہ جرم پر لاکھوں کیات(برمی کرنسی) کا جرمانہ عائد کرتے اور قیدوبند کی صعوبتوں میں ڈال دیتے ہیں۔آئے دن لوگوں کوفوجی کیمپوں میں پکڑ کے لے جاتے ہیں اور وہاں ان سے بیگار لیتے ہیں پھر ان کو معاوضہ تو درکنار، بھوکا پیاسا چھوڑدیتے ہیں۔
ظلم وستم کے یہ شکار مشقتوں اور خوف وہراس کے اس ماحول سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کیلیے سوائے سمندر کے راستیکے اور کوئی راستہ نہیں رکھا گیا،چنانچہ سمندر کی طرف جانے اور کشتیوں کے ذریعہ نقل مکانی کرنیکے لیے بھی انہیں پولیس اہلکاروں سے لے کر ایجنٹوں، دلالوں اور اسمگلروں تک کو رشوت دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔پھر جن خوش نصیبوںکو اس طرح کشتی میں جگہ مل جاتی ہے، ان کی کیفیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ جس طرح لکڑیوں اور تختوں کی تھپیّ لگائی جاتی ہے اس طرح ان انسانوں کی جن میں بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جوان بھی، عورتیں بھی ہوتی ہیں اور بچے بھی،ان کی بھی تھپیّ لگائی جاتی ہے۔حال ہی میں عالمی ذرائع ابلاغ نے یہ انکشاف کیا کہ ہزاروں کی تعداد میں(جن کی تعداد تقریباً ستائیس ہزار بتائی جاتی ہے) روہنگیا مسلمان مختلف چھوٹی بڑی کشتیوں میں سمندر کے بیچوں بیچ سر گرداں ہیں کہ ان کو کوئی ملک قبول کرنے کو تیار نہیں، ان میں بوڑھے بھی ہیں جوان بھی، عورتیں بھی ہیں اوربچے بھی، سوشل میڈیا کے توسط سے ان کی گریہ وزاری آہ و بُکا لوگوں کی سماعتوں سے ٹکرائی جو عرش اِلہی کو تھرا دینے کے لئے کافی تھی۔ اس حال میں بھی سنگدل ایجنٹوں نے کتنے ہی جوانوں اور بوڑھوں کو سمندر برد کیا، کتنی ہی عورتوں کی عصمتوں کو پامال کیا گیا ،لیکن یہاں بھی اقوام متحدہ اپنا موثر کردار ادا کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے۔
International Migrants Day
صومالیہ جس کے نام کامطلب تو دودھ سے بھرا پیالہ ہے ، لیکن قحط اور فاقہ کشی کا شکار یہ مسلم ملک بھی اقوام متحدہ کے کردار کی ناکامیوں کا ایک بد نما داغ کی صورت میں دنیا کے نقشے میں ابھی تک موجود ہے ، المیہ بھی یہی ہے کہ یہ ایک مسلم ملک ہے اس لئے اس پر اقوام متحدہ کی توجہ نہیں ہے ، تو دوسری جانب انتہا پسند تنظیم بوکو حرام نے مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہوا ، افریقہ کے ملک صومالییہ میں 1991 سے خانہ جنگی کا شکار ہے ، انتہا پسندی نے یہاں بھی گھیرے ڈالے ہوئے ہیں ، مسلمانوں کے گروپ باہم دست و گریبان ہیں ، قحط جیسی صورتحال ہونے کے باجوود خانہ جنگی میں لاکھوں صومالیہ کے مسلم با شندے ہجرت کرچکے ہیں۔14لاکھ سے زاید صومالی باشندے بھوک کے قحط کا شکار ہیں۔الشاب نامی انتہا پسند تنظیم پورے صومالیہ میں اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں ، اسی گروپ نے 2010 میں ورلڈ فٹ بال کے دوران پڑوسی ملک یوگنڈا میں ایک ریستوران میں دہشت گردی کا بڑا حملہ کیا تھا جس میں 74افراد ہلاک ہوگئے تھے۔القاعدہ کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ کے طور پر صومالیہ کے مسلمانوں کے لئے مزید مشکلات پیدا کیں ۔ اور مذہبی خانہ جنگی نے صومالیہ کو آج تک امن کا گہوراہ نہیں بننے دیا۔
بڑے مہاجرین کے ممالک میں اب سوڈان بھی شامل ہوگیا ہے ، جہاں سے اب تک 10 لاکھ سے زائد افراد ہجرت کرچکے ہیں اقتدار کے لئے لڑی جانے والی خانہ جنگی کے سبب یوگنڈا ، ایتھوپیا اور دوسرے افریقی ملک میں پناہ لینے میں مجبور ہوگئے ہیں۔اقتدار کے لئے اس جنگ نے خانہ جنگی کی صورتحال اختیار کرلی ہے،UNHCRکی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اقتدار کیلئے خانہ جنگی کے سبب دس لاکھ افراد جنوبی سوڈان سے ہجرت کرچکے ہیں۔
یہاں دنیا بھر میں ہونے والی ہجرتوں کا تجزیہ کرنا ممکن نہیں ہے ، لیکن یہ تجزیہ ضرور کیا جاسکتا ہے کہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہجرت کا شکار ، مسلم امہ ہے۔ جس کی بنیادی وجہ مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی ہے ، تمام مسلمان اس خانہ جنگی کا حصہ نہیں ہیں ، یہ چند گروپ ہیں ، جو اپنے مسلمان بھائیوں کو ہی ہجرت پر مجبور کرکے غیر مسلم ادارے اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کے رحم و کرم پر وطن چھوڑنے پر مجبورکررہے ہیں ۔ ان گروپس کی پشت پناہی کھلے عام ایران ، کیسے ملک کررہے ہیں ، جو اپنے ایجنڈے کے تحت مسلم امہ کیلئے ایک انتہائی نا پسندیدہ کردار ادا کررہا ہے ، اور اقوام متحدہ اُن معاملات میں زیادہ متحرک ہے ، جہاں مسلمانوں کے خلاف جنگ ہو، ان پر حملہ ہو ، ان کی حکومتوں کو تباہ کرنا ہو ، اقوام متحدہ جہاں ہجرت کی ذمے دار ہے وہاں اقوام متحدہ کی غیر فعالی نسلی ، لسانی اور مذہبی نفرتوں اور مسلمانوں کے درمیا ن یک جہتی کے فروغ میں خلیج بھی پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ضرورت اس کی ہے کہ پاکستان اس عالمی دن کے موقع پر مملکت کو درپیش مسائل کے حوالے سے اقوام متحدہ کو آگاہ کرے ، میڈیا اس دن کی مناسبت سے ااگاہی فراہم کرے ، غیر قانونی طور پر جو مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں، انھیں ترغیب دے کہ وہ خود رجسٹرڈ کرائیں ، تاکہ ان کے حقوق کی بحالی کیلئے مربوط پروگرام بنایا جا سکے ، اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والوں کو اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایسے غیر ملکی مہاجرین کو ان اداروں میں رجسٹرڈ کرائیں ، جو خوف کی زندگی بسر کررہے ہیں، پاکستان کے موجودہ حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ اب کسی بھی غیر ملکی بھی اعتبار کرنا ، آسان نہیں ہے ، اور یہی وجہ ہے کہ ان ر ملکی مہاجرین کی وجہ سے ان کی قومیت کی وجہ سے ، ان کے اپنے ہم قوم بھی پریشانی کا شکار ہوگئے ہیں ، انھیں بھی شکوک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ، ان کے ساتھ بھی برتاو زیادہ تر وہی کیا جاتا ہے جو کسی غیر قانونی طور رہنے والے مہاجر کا ہوتا ہے ،اقوام متحدہ کو امن کے قیام کیلئے سنجیدہ رویہ اختیار کرنا ہوگا ۔ اگر کسی ملک کی عوام وہاں کے روایتی و ثقافت کے مطابق کسی نظام کو پسند کرتے ہیں تو ان پر زبردستی کسی ایسے نظام کو نافذ کرنے سے گریز کرنا چاہیے، جس سے خانہ جنگی کو فروغ مل رہا ہے۔ افغانستان ، شام ، صومالیہ، عراق ، لبنان ، یمن ، فلسطین، برما اور پاکستان سمیت جہاں جہاں مسلم ممالک ہیں ، وہ عالمی قوتوں کے ایجنڈے کا شکار ہو رہے ہیں ، عالمی طاقتیں ، اپنے اثر رسوخ کے خطوں میں کسی نہ کسی ملک کو چوہدری بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں خطے میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔
مسلم ممالک کی اپنی غیر فعال تنظیم کو فعال کرنے کی ضرورت ہے ، مال و دولت سے مالا مال عرب ممالک اپنے خزانے ان ممالک میں رکھتے ہیں جس کی وجہ سے مسلم دشمن ممالک اپنی معیشت کو مضبوط کرکے مسلم ممالک کے درمیان غلط فہمیوں ، خانہ جنگیوں ، بغاوتوں پر اکساتے ہیں ، اور عالمی مالیاتی اداروںکی مدد سے ترقی پذیر ممالک کو بلیک میل کرکے اپنی سودی پالیسیاں مسلط کرتے ہیں ، جس سے اس مملکت کو اپنے پیروں میں کھڑے میں سالوں سال نکل جاتے ہیں ، اور جہاں وہ اس قابل ہوتا ہے کہ اپنی معاشی نظام میں استحکام پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائے تو ترکی ،مصر ، لیبیا، عراق جیسے ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ انھیں کس طرح الجھا دیا گیا۔ پاکستان ایک ایٹمی مسلم مملکت ہے لیکن سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کوئی موثر کردار ادا نہیں کر پا رہا ، پاکستان کو ایک جانب کابل سے ، دوسری جانب بھارت اور تیسری جانب ایران کی جانب سے پراکسی وار کا سامنا ہے ، پاکستان کے اندر ان ممالک اورصلیبی اور اسرائیلی ایجنٹوں کی بھرمار ہے ، جو پاکستان میں امن کے قیام کو ممکن نہیں بنانے دیتی ، مسلکی ، قوم پرستی ، فرقہ پرستی ،لسانیے سمیت صوبائیت کی عفریت ، پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
پاکستان کو خانہ جنگی میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔پاکستانی عوام کو اس حوالے سے اپنے نکتہ نظر کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ بن سوچے ، ہرمذہبی اور سیاسی جماعت کو اپنا قبلہ بنانے کے بجائے اس کے کردار کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت یا بادشاہت میں اب کوئی فرق نہیں رہا ہے ، تو اس سے اچھا یہ نہیں ہے کہ اسا نظام پاکستان میں نافذ ہو ، جو اللہ اور اس کے رسول ۖ کا پسندیدہ ہو۔بین الااقوامی مہاجرین کے اس اہم موقع پر دنیا بھر کیلئے ایک پیغام دیں کہ خطے میں امن لانے کے لئے عالمی قوتوں کو اپنے ورلڈ آرڈر میں انسانوں کو غلام بنانے کا سلسلہ بند کردینا چاہیے ، کروڑوں انسان ، تباہ کن ہتھیاروں کے منافع کی جنگ میں بھینٹ چڑھ رہے ہیں ، کروڑوں انسانوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے سے وہ ملک بھی محفوظ نہیں رہ سکتا ، عالمی انسانی کی تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے انسان کی تباہی کے لئے جو ساز و سامان بنائے ، اسی تباہ کن سامان سے وہ ملک و قوم بھی تباہ ہوئی۔