دسمبر کی آخری رات غریب کی موت کا پیغام

Petrol

Petrol

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
انگریزی سال کی آخری رات ٹھیک بارہ بجے حکومت کا پٹرول کی قیمتوں پر بم نہیں بلکہ ایٹم بم گراڈالنے سے پاکستانی عوام کی چیخیں نکل گئیں اور ان کے لیے سال کا اختتام سخت اذیت ناک ،خوفناک اور ظالمانہ رہا حکومتی کار پردازوں اوگرا نے دو تین روز پہلے ہی وزیراعظم کو سمری بھیج دی کہ وہ تقریباً پونے سات روپے فی لیٹر کا اضافہ کردیں دو تین روز لوگ کئی بار مرے اور کئی بار جئے جیسی صورتحال سے دو چار رہے ہر ماہ چند پیسوں یا ایک آدھ روپے کا فی لیٹر اضافہ ہوتا رہا ہے مگر اس رات عوام پر یہ ظالمانہ حملہ برداشت نہیں ہو پارہا کئی بار واضح ہو چکاہے کہ تیل کی قیمت بڑھنے سے تمام اشیائے ضروریہ اشیائے خوردنی سمیت کی قیمتیں بھی تیزی سے بڑھنے لگتی ہیں ۔تیل کی قیمت بڑھنے کے رات بارہ بجے سے ہی دکاندار قیمتیں بڑھانا شروع کردیتے ہیں ۔حتیٰ کہ سارا ماہ اس میں بریک نہیں لگتی جتنے فیصد تیل پٹرول وغیرہ کی قیمت بڑھتی ہے مہنگائی کا جن اس سے کم ازکم دوگنی تگنی چھلانگیں لگانے لگتا ہے ۔اس طرح عوام جن میں ساٹھ فیصد پہلے ہی دو وقت کی دال روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھا سکتے اور غربت کی لکیر سے بہت نیچے گزر بسر کر رہے ہوتے ہیں وہ سخت سراسیمگی کے عالم میں اپنے معصوم ننھے بال بچوں کی طرف گھورنے لگ جاتے ہیں کہ اب کل کو کھانے پینے کا ضروری سامان کیسے خریدیں گے؟وہ اپنی بیوی سے خوامخواہ بات بات پر چڑ چڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

غرباء کے گھروں میں ہر وقت اٹ کھڑکا جاری ہوجاتا ہے مال بدیسی سود خور سرمایہ دار کمپنیاں عوام کا خون چوس کر کمارہی ہوتی ہیںاور ہمارے گھروں میں قیامت کا سماں برپا ہو جاتا ہے بیوی کہتی ہے تو نگوڑا گیا مزدوری نہیں ملی ! یا باہر ہی عیش و عشرت کرلی ۔گھر کا سامان کون لائے گا بچے بھوکے بیٹھے ہیں واپسی پر کوئی دال سبزی ہی لے آتے یا تم اتنا کم جو دال دلیا لائے ہو اس سے کیا بنے گا ۔مزدور محنت کش شوہر پریشانی سے جوروکا منہ تکنے لگتا ہے کہ اسے کیا جواب دیں اس آخری خوفناک رات سے پہلے ہی حکومتی اعلان پر اسی شام سے ہی پٹرول پمپ والوں نے تیل ختم ہے کے بورڈ لگادیے انتہائی ضروری سفر نہ ہوسکے ایک روز قبل ہی بچوں کو سکول بھجوانے اور مریضوں کو ہسپتالوں میں لے جانے کا عمل سخت متاثر ہوا اس خوفناک رات کو کئی غریب بھوکے اور ان کے بچے ٹک ٹک روتے سو گئے مگر دوسری طرف امیروں لٹیروں سود خور سرمایہ داروں اور ان کے شہزادگان پوری رات شراب کے جام لڑھکاتے چُھلکاتے رہے۔

نوجوان نسل کو تو یہ پتہ ہی نہیں کہ یہ انگریزی سال کی اختتامی رات ہے نہ کہ مسلمانوں کے سال کا آخر ۔وہ دیکھا دیکھی ہی موٹر سائیکلوں کے سالنسر نکالے شور کرتے ساری رات گپ شپ اور کھپ شپ کرتے رہے اور صبح تک یونہی سڑکوں پر آوارہ گردی جاری رکھی بڑے بڑے فائیو سٹار ہوٹلوں میں خصوصاً بنی ہوئی مہنگی شراب دوگنے تیگنے داموں بکتی رہی ہائیکورٹ سندھ کی طرف سے پابندی لگائی جانے کے حکم کے بعد بھی پی پی کی سندھ حکومت نے اس کوجاری رکھا ہوا ہے۔

Wine

Wine

بیورو کریسی شراب بنانے اور فروخت کنند گان سے لمبا مال کھینچتی ہوگی اوروزرا ء وغیرہ بھی حصہ لیتے اور مفت شرابیںحاصل کرتے ہوں گے قرآن مجید کے واضح احکات کے مطابق خمر و شراب و جوا ء حرام افعال ہیں مگر ہمارے اونچے طبقات کے لوگ اس رات حرام و حلال کی تمیز بالکل ختم کرکے لازماً شراب کی دیوی کو معدوں میں انڈیلتے اور نشے سے ساری رات جھومتے جھومتے” اس بازار”کے چکر بھی لگا لیتے ہیں یا پھر کسی جدید اعلیٰ کلب میں بمع اپنی بیوی یا نوجوان بہن کے ساتھ پہنچ کر مدہوشی کے عالم میں وہ عمل بھی کرواتے اور کرڈالتے ہیں جس کی اسلام میں سخت ممانعت ہے حکومت نے تو تیل کا ایٹم بم چلا کر غریبوں کی چیخیں نکلواڈالیں کہ مہنگائی آسمانوں سے باتیں کرنا لگ پڑی مگر طبقائے امراء کی یہی سال کی آخری رات عیاشیوں اور تماش بینیوں کی تھی کہ شرابیں پہلے ہی اکٹھی کر رکھی تھیں خوب ایک دوسرے کے گھر دعوتیں کھائی گئیں ان میں مین آئٹم شراب تھی کہ اس دیوی سے اس مخصوص آخری رات میں محبت نہ کرسکے تو محروم رہ جائیں گے۔

پھر ایسی واردات صرف اگلے سال ہی اس غلیظ سیاہ رات میں ہی ہو سکے گی دوست احباب کیا کہیں گے کہ آپ اتنے ہی گئے گزرے تھے کہ دوستوں کے لیے شراب کباب و زنا کی محفل ہی نہ منعقد کرسکے محتاط اندازے کے مطابق انگریزوں کی رسم اس بھیانک سا ل کی آخری رات اربوں کی شراب پی گئی مہنگائی کے جن کا ننگا ڈانس حکمرانوں نے تیل کی قیمتیں بڑھا کر کرواڈالااور تمام شیطانی دوسرے کام پاکستانیوں نے خود کرڈالے ساری رات غلیظ ترین فنکشنوں میں گزاری جس سے گناہوں کی گٹھڑی نہیں۔

بلکہ گٹھڑ اپنے کھاتے میں جمع کروایا صبح کیا جا گتے کوئی گیارہ بارہ بجے دوپہر آنکھ کھلی تو دنیا لٹ چکی تھی فضول خرچیوں میں رات لاکھوں روپے اجاڑڈالے ۔غریب عوام ساری رات حکومتی کار پردازوں پر تبرے بھیجتے اور گالیوں کی بوچھاڑ کا رخ رائیونڈی و بنی گالائی محلات ،بلاول ہائوسز کی طرف کرتے رہے۔ساری رات بد دعائیں کی گئیں غرباء نے ہمہ قسم حکومتوں پر لعنتیں برسائیں اور ان سے جان چھڑانے کے لیے آئندہ انتخابات میں ان کا بوریا بستر سمیٹنے کا عہد کیا۔

Mian Ihsan Bari

Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری