تحریر : عثمان غنی محبت کے ستونوں کے وجود سے کائنات کی عمارت قائم و دائم ہے جیسے جگمگاتے ستاروں اور چاند کا وجود ،رات کے حسن کو دوبالا کر دیتا ہے یا پھر پوپھوٹنے کا منظر ،جب سورج اندھیرے کو شکست دے کر صبح روشن کا اعلان کر دیتا ہے ۔ شائد لفظ ماں اور محبت کا ابتدائی لفظ ”م” اللہ تعالیٰ نے ایک ہی مادے سے بنایا ہے ۔ ماں جو محبت کا سمندر ہے اسکی محبت کی مثال کو اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت سے جوڑتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے بندوں سے ایک ماںسے ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہے جہاں ماں کی محبت کی انتہاء ہو جاتی ہے گوکہ اسے الفاظ کے پیرہن پہنانا کسی کاتب کے بس کی بات نہیں وہاں سے پھر خدا کی ذات اپنے بندے کو اپنی محبت کے حصار میں لے لیتی ہے ، محبت جیسی الہامی چیز کے تقاضوں کو پورا کرنا گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے ۔ بقول حضرت واصف زمین کے سفر میں اگر کوئی چیز آسمانی ہے تو وہ محبت ہے ۔ محبت معجزہ ہے جو سب کی سمجھ پر آشکار نہیںہو سکتاشائد فیض نے انہیں دنوں کے بارے میںکہا تھا رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں آگ سلگائو ، آبگینوں میں دل عشاق کی خبر لینا زخم کھلتے ہیں ان مہینوں میں
جذبات بعض اوقات بے بس کر دیا کرتے ہیں ناممکن سے ممکنات تک رسائی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ،جسم کا ہر ایک خلیہ (Cell) برقی لہروں کے ذریعے ہر لمحہ گزرنے والے کرنٹ کو محسوس کرتا رہتا ہے ۔ ایک بظاہر نظر نہ آنے والی کوئی غیبی چیز جس کو محسوس تو کیا جا سکتا ہے مگر الفاظ کے پیرہن نہیں پہنائے جا سکتے ۔ الفاظ جذبات و احساسات کی مکمل یا سو فیصد ترجمانی کرنے سے قاصر رہتے ہیں ، ان تمام باتوں اور ”وارداتوں” کا محور و مرکز (Central Point) یعنی ”دل ” ہوا کرتا ہے ، دل پر جو کچھ گزرہا ہوتا ہے وہ الہامی ہے مگر جب اسے الفاظ میں پرو کرطشت ازبام کر دیاجائے تو زمانہ اسے کچھ Impureسمجھنے اور کرنے کی کوشش میں مصروف عمل نظر آتا ہے۔
مگر محبت کی کاٹ کے آگے زمانے کی طرف سے پیدا شدہ ا ن Impuritiesکے وجود کی کیا اہمیت وقعت ، محبت زمانے کی سب سے بڑی سچائی ہے وہ واحد سچائی جسے کسی پارسا کے ثبوت کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی ، جس کا وکیل آنکھیں اور معزز ومعتبر عدالت عالیہ ۔۔۔۔ دل ہوا کرتی ہے جس کو زماں و مکاں کی شتر بے مہار گواہیوں اور بے ہنگم اپیلوں کی ضرورت نہیں ہوتی ، جو سمٹے تو دل کا اک قطرہ خوں اور پھیلے تو گویا ساری کائنات کو ایک ہی لمحے میں اپنے حصار میں لے لے ۔ خیر بات ”دسمبر” کی ہورہی تھی ، جس کا مہینوں کی ترتیب میں نمبر آخر ، بارہواں ہے ،مگر اس کو بارہویںکھلاڑی کی طرح نہ سمجھاجائے جو عملی طورپر اس وقت کھیل سے Outہوتا ہے ۔ بہرحال مہینوں کے نمبر میں آخر ی ہونے کے باوجود اس کانمبر ،عنوان میںپہلے رکھا ہے (دسمبر اور محبت) دراں حالیکہ اول الذکر (Former) ‘دسمبر ‘کو باقی مہینوں کی نسبت، محبت سے کچھ ضرور ت سے زیادہ جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
Love Letter
ثانی الذکر (Latter) ‘محبت ‘کو اس لیے عنوان مین درجہ دوم میں رکھا گیا ہے اس کی ایک عام اور حقیر سی وجہ عشاق کے نزید یک بھی ہو سکتی ہے کہ جون جولائی کی جھنجھالتی دھوپ میں عشق کرنا وقتاً دل گردے کا کام ہے ، دن کو ایک طرف چاک گریبائی کا سامنااور دوسری طرف پسینے کی آمد کا لامتناعی سلسلہ اب بے چارہ عاشق جائے تو جائے کہا، اب ذرہ گرمیوں کی ”طویل ” راتوں کا حال بھی ملاحظہ فرمائیے ، ایک طرف لوڈشیڈنگ کی برمار اور دوسری طرف مچھروں کی بہتات ،” میں جائوں تو کدھر جائوں ‘میںجاتا تو کدھر جاتا”والا حساب ہو جاتا ہے ، ان مندرجہ بالا دلیلوں کو سامنے رکھتے ہوئے دسمبر کو محبت کا مہینہ قرار دینا اتنی بھی اچنبے کی بات نہیں ،غورطلب یہ بھی ہے کہ محکمہ برقیات والے گرمیوں میںلوڈشیڈنگ کر کے مفت میں عشاق سے ”دعائوں ” کے نشتر Receiveکر رہے ہوتے ہیں جو کسی ”فری ہوم ڈلیوری” کی طرح ان محکمہ برقیات کے بزر جمہروں کے گھروں تک ضرور پہنچ رہی ہوتی ہیں۔ اگر محکمہ برقیات والے ہار ماننے کو تیار نہیں تو بے چارے مچھر کیوں کسی سے پیچھے رہیں ، جن کی گرمیوں کی راتوںمیں ”ان ” کے کانوںمیں رس گھولتی ہوئی آوازیں ہجر کی راتوں کا ”مزا” دوبالاکر دیتی ہیں ۔ رات کی شدت جتنی سنگین ہو تی ہے اتنی ہی صبح بھی ذائقے سے سرشار ہوتی ہے۔
طالب علم طبقہ اکثر و بیشتر کلاسوں میں پھر سویا ہوا پایا جاتا ہے اور کام کاج والے طبقہ کو اپنے Bossکی ڈانٹ سے ضرور مستفید ہونا پڑا ہے ۔ کسی نے یہ دلچسپ بات بھی بتائی کہ Originalعشاق کو کچھ اعتراض برساتی مینڈکوں کی طرح امڈ آنے والے ”بے موسمی” عشاق سے بھی ہوتا ہے ۔ جو Originalعشاق کی Credabilityکو کچھ کم کرنے میںاپنا حصہ بقدر جثہ ڈال رہے ہوتے ہیں، ان حالات میں دسمبر بے چارے کا کیا قصور یا پھر قصور اتنا ضرور ہو سکتا ہے کہ دسمبر کی یخ بستگی کی وجہ سے پسینے کا کہیں نام و نشان تک نہیں ہوتااور ان کی Attentionکسی اور طرف Deviateنہیں ہو پاتی اور دوسر امچھر بھی ان کے کانوں میں رس گھولنے والی آوازوں کے بجائے موسمی شدت سے اپنے آپ کو بچانے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں بلکہ بڑی تعداد تو ٹھنڈ سے ہی مر کھپ جاتے ہیں۔
شائد اس لیے دسمبر میں ”غیر عشاق” لوگ بھی اس سے محفوظ ہوئے بغیر نہیں رہتے، خیر دسمبر سبکو محظوظ کرنے کے بعد اب الوداع کہنے کو تیار بیٹھا ہے اگر کوئی روکنا چاہے بھی تو وقت کی چالیں روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ، لمحے اچھے ہوں یا برے وہ گزر ہی جاتے ہیں۔ البتہ کچھ منظر دل پر نقش ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ محبت کی رفاقت میںگزرے لمحات تو امر ہو جاتے ہیں اور ان کی یادیں ، جانے کب تک نقش پا کو پکارتی رہتی ہے ۔دعا ہے یہ غروب ہوتا دسمبر وطن عظیم سے جہالت ، غربت اور دہشت گردی وغیرہ کو بھی اپنے ساتھ ہی لے جائے اور آنے والا سال ہر پاکستانی کیلئے خوشی قسمتی کی علامت ہو۔ بقول میر نیازی محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعدمیں ہو گی گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی