سنا تھاکہ ستمبر ستمگر ہے مگر دسمبر نے تو حد ہی کردی دسمبر کی ابتدا ہوتے ہی دل وسوسوں،واہموں اور ان دیکھے ،ان سنے خوف میں گھرنے لگتا ہے۔ کئی قومی سانحات اور المیے اسی دسمبرہی میں ہمارے لیے کرب ،غم اور دکھ بھری کئی ایسی المناک داستانیں لے آئے کہ اب تو ذہن اس دسمبر سے ڈرتا ہے۔ 16 دسمبر کو سقوط ڈھاکہ جیسا دلخراش سانحہ ،27 دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کا بہیمانہ قتل اور پھر 16 دسمبر کو ہی دلوں کو دہلا دینے والا سانحہ پشاور ۔ایک ایسا غمناک سانحہ ہے جوکبھی نہ بھرنے والے زخم ہمارے سینوں میں پیوست کر گیا جنھیں الفاظ میں رقم کر دینے سے قلم اور ہاتھ کی انگلیاں فگار ہیں ۔
اس داستاں کرب و بلا نے اب تک ذہن منجمد ،دل سوگوار اور آنکھیں اشکبار کر رکھی ہیں ۔پھول ایسے حسین و جمیل رنگ برنگے ننھے پھول اور ننھی کلیاں کہ جن کے شانے بستے میں رکھی محدود سی کاپیوں کتابوں کا بوجھ نہ اُٹھا سکتے تھے ، وہ منوں مٹی کا بوجھ اُٹھائے ہمیشہ کیلئے ماں باپ سے اپنے چاند جیسے دلکش روشن چہروں کو اوجھل کر گئے ۔وہ معصوم کلیاں اور پھول جو رات کو اپنی نانی اماں یا دادی اماں سے کوئی کہانی سنے بغیرنیند کے بستر پر محو خواب نہ ہوتے تھے۔
ہر صبح جو سکول جانے پر ضد کرتے تو مما کہتی بیٹیا ،پاپا ناراض ہوں گے شاباش اچھے بچھے سکول جانے پر ضد نہیں کرتے ،چلو جلدی کرو یونی فارم پہنو ،ناشتہ کرو ،بستہ اُٹھائو اور سکول کی راہ لو ،میں تمہیں سکول واپسی پر ایک گڑیا لے دوں گی۔ ٹھیک ہے مما ! ”گڑیا آج نہ لے کے دی تو میں کل سکول نہیں جائوں گی”۔ توتلی زبان سے ادا ہوئے یہ جملے اور حرف تا ابد اُن مائوں کے اذہان و قلوب میں ایک عجیب اذیت اور کرب کا سامان پیدا کئے رکھیں گے ۔آ ج بھی کچھ مائیں دیواروں سے لگ کر اپنے معصوم بیٹے اور بیٹی کا کوئی توتلا جملہ دہرا کر ہچکیاں لیتی ہو ںگی تو کوئی ماں اپنے پھول جیسے بچوں کے کھلونوں کو دیکھ کر آہ و زاریاں بھرتی ہو گی ۔
غم کی اُس کیفیت کا اندازہ کیسے ہو جو وہاں اُن والدین کے سرہانے لگ کر مسلسل اُنہیں اس وحشت سے غم زدہ کئے اُداسی کے ایک سمندر بیکراں کی گرفت میں لئے بیٹھی ہو گی ۔آج کا سورج تو حسب معمول اُن گھروں کے گرد بھی طلوع ہوا ہے جن گھروں میں اس قتل عام پر صف ماتم بچھی ہے ،روشنی کی کرنیں تو وہاں بھی پھوٹ کر بکھری ہیں ،دھوپ اُن صحنوں میں بھی پھیلی ہوگی ،جہاں رنج و الم برس رہے ہیں ،غم کے جہاں تازیانے ہیں ،دکھ جہاں لامحدود ہیں اور محض آنسو اور سسکیاں ہیں ۔مگر ان گھروں کے مکینوں کو نہ بھوک لگی ہے آج، نہ پیاس کا احساس ہے نہ دھوپ ،روشنی اور تازہ دم صبح کا ذرہ بھر گماں کہ آج اُن گھروں کو گڑیا لے دینے کی شرط پر سکول کی راہ لینے والوں کی بھولی بھالی شرارتیں ،توتلی باتیں اور والڈین سے روٹھنے ،منانے کا دلکش منظر میسر نہیں ۔کیسے اندوہناک لمحات تھے جو پرسکوں زندگی کو اجاڑ کر رکھ گئے ۔کم سنوں کے قہقہوں کو گویا کسی قہر نے ہڑپ کر لیا، درندگی اور وحشت نے ہنستے بستے گھروں کو نگل لیا ۔
دیکھنا بیٹی آتی ہو گی ، سکول چھٹی ہو گئی ۔ آج تو سردی بہت ہے ۔میرے چاند کو ،میری گڑیا کو ٹھنڈ بھی بہت لگی ہوگی ۔کیسے کیسے حسیں تصورات کا گلہ کل کی اندوہناکیوں نے دبا دیا۔ کیسے کیسے فطرتی جذبوں کی سانسیں دبوچ لی گئیں ،پشاور کی مائیں آج رہ رہ کر سوچتی ہوں گی کل کیوں میری کلی نے سکول جانے کی ضد نہ کی ،کل میرے پھول نے ہنگامہ کھڑا کیوں نہ کیا کہ ”آج کچھ بھی ہو جائے، پاپا جو بھی کہتے رہیں ، بس میں نے نہیں جانا آج سکول ”۔ نہیں اُس نے تو ضد کی تھی، لیکن میں نے ہی اُسے سکول واپسی پر بازار سے گڑیا لادینے کا دلاسہ دیکر خود ہی سکول بھیجا تھا ،میرے پھول نے تو ہنگامہ کھڑا کیا تھا لیکن میںنے ہی اُسے سجھا بجھا کر سکول بھیج دیا تھا ،کاش نہ بھیجا ہوتا ۔ ”دسمبر تو کیوں پھر لوٹ آتا ہے ہمیں مار دینے یا جیتے جی مار دینے کیلئے ”۔؟