تم نے خواب سے نکل کر نرم، گرم اوڑھنی اور بچھونے سے نکل کر کبھی درو دیوار کے اس پار چلنے والی سرد ہواؤں کے تھپیڑے کھائے ہیں اور ان یخ بستہ تھپیڑوں میں (کہ جن میں نسوں میں دوڑتا خون بھی جمتا ہو) کچرا چنتے بچے کے ہاتھوں پر بار بار لگتی کھروچوں کو محسوس کیا ہے تم نے دیکھا ہے دسمبر میں ہمارے نونہالوں کو ،مستقبل کے معماروں کو بزدل دشمن نے کس طرح سے بارود سے زخم دئیے تھے اور وہ زخم جانبر بھی نا ہوسکے تھے ایک معصوم سی بچی کل میرے پاس سے گزرتے ہوئے بغل میں چھوٹی سی گڑیا دبائے اپنی ماں کے ہاتھوں کوسختی سے جکڑے ہوئے(جیسے خوفزدہ ہو) سہمی سی آواز میں کہتی جا رہی تھی کہ ماں یہ وہی دسمبر ہے کہ جس میں اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو موت کی نیند سلایا جاتا ہے پھر میری سماعتیں سرد ہواؤں کے جھوکوں سے سن ہوگئیں دھڑکنیں تو جیسے دل میں سمٹنے سے قاصر ہوئے جاتی تھیں نیلم کی جیسے آنکھوں سے درد بہہتاجا رہا تھا دسمبر کی سردی تھی میرے کانوں میں بچی کے الفاظ گونج بن کر جم چکے تھے ماں کیا یہ وہی دسمبر ہے کہ جس میں۔۔۔۔۔ بچوں کی باتوں سے اب خوف آتا ہے ہمیں تو دسمبر سے خوف آتا ہے یہ ہر سال ایک نیا زخم دے جاتا ہے دل پر کھروچ لگاتا جا رہا ہے ، دسمبر گزرتا جا رہا ہے