کھسیانی بلی کھمبا نوچے

Justice

Justice

اس حقیقت سے کیا کوئی انکار کرے گاکہ لوگ دوسروں کے حق پر ڈاکہ زنی پر بغلوں کے ساتھ شادیانے بھی بجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بہت بڑے طرم خان ہیں۔ بعض لوگوں کا یہ مشغلہ ہوتا ہے کہ انصاف دینے و الے اُن کو ایک آنکھ نہیں اس لئے نہیں بھاتے ہیں کہ فیصلے انکے حق میں نہیں آئے۔ ایسے منصفوں پر ان کی جانب سے ہجو گوئی کا نہ رکنے والا ایک سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جو کبھی رکنے میں ہی نہیں آتا ہے۔ ایسے بے پیندے کے لوٹوں کی حرکتوں کو کوئی اون بھی نہیں کرتا ہے۔ حتیٰ کہ ان کے محبوب ادارے بھی اُن کی حرکتوں کو اون کرنے سے کتراتے ہیں. چاہے وہ کتنے ہی اپنے آپ کو ان کے کیسے ہی پیارے گردانتے ہوں۔ مجھے اپنے بچپن کے ایک چڑیا والے بابا آج رہ رہ کر یاد آرہے ہیں۔ ہمارے گھر کے پاس ایک بابا چینی سے نبی چڑیاں فروخت کرتے تھے جنکو سارا علاقہ چڑیا ولا کہہ کر پکارتا تھا۔ بچے اُن کی چڑیان مزے لے لے کر چٹ کر جاتے تھے۔چڑیا والا بابا اپنی چڑیاں بیچ کر اپنی جیب گرم کر کے اپنے گھر کو سدھار جاتا اور ہم بچے گھنٹوں اس کی میٹھی چینی سے بنی چڑیوں کی تعریفوں میں لگے رہتے۔

ایسے ہی چڑیا والے بابا کا ذکرِ یار یہاں ہمارا مقصد ہے۔ چینی کی چڑیوں اور اس بابے کی چڑیا میں فرق یہ ہے کہ ان بابا کی چڑیا عالم الغیب ہے جبکہ چینی کی چڑیاں بچوں کے پیٹ کا ایندھن ہوا کرتی تھیں اور وہ غیب کی خبریں لا کر دینے سے قاصر ہوا کرتی تھیں۔ ان بابا کو جو میرے سینئر اساتذہ کی طر ح قابلِ احترام ہیں۔ آج ہماری عدلیہ سے پرلے درجے کی پرخاشت ستا رہی ہے۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں اُن باباجی کی حکمرانوں کی عطاء کردہ عارضی را ج گد ی کی شاہی چھن گئی ہے۔ جس کے بعد انہیں عدلیہ پر بڑی جھونجھل ہے۔راج شاہی کے چھن جانے کا انہیں بڑا ملال لازوال ہے۔جس کی وجہ سے ان کے عدلیہ کے خلاف غصے میں مزید شدت کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔

وہ چاہتے ہیں کہ عدلیہ اپنا عدل و انصاف تیاگ کر حکمرانوں ‘ فوجیوں’ ایم این ایز’ اینکر زاور بیوروکریٹس کی باندی بن کر ان کی ڈکٹیشن پر کام کرے۔جو میرے خیال کے مطابق ناممکن ہے۔ ان موصوف کو سب سے بڑی شکایت تو اسلام پسندو اورسابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے رہی سے ہے۔سابقہ چیف جسٹس کے ریٹائر منٹ کے بعد لوگ کہتے ہیں کہ شادیانے بجانے والوں میں موصوف بھی شامل ہوا کرتے ہیں۔اب ان کا غصہ سپریم کورٹ کے موجودہ ججوں سے بھی ہے۔جن کیلئے وہ کہتے ہیں کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بعد بھی عدالت کی طرف سے حکومتی امور میں مداخلت کی پالیسی ہنوز جاری ہے۔ کوئی بتائے کہ ہم بتائیں عدالتِ عالیہ آئین کی کسٹوڈین ہے!!!وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عدالتیںصرف ججوں کے معاملات میں اغماض برت رہی ہیں۔اگر ایسا ہے تو ہمارے جج صاحبان کو بھی قانون اور انصاف کے معاملے میںکسی حاضر یا سابق جج کو رلیف نہیں دینا چاہئے۔لوگ کہتے ہیں انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہئے۔جبکہ با با کا خیال ہے کہ ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔

Constitution

Constitution

آئین سے ہٹ کر جو بھی کام کیا جائیگا چاہے وہ حکمران کریں، جنرلز کریں، ایم این اے یا اسمبلی کرے، اینکرز یا بیورو کریٹ کریں، یا جج، عدالت ان سب سے جواب طلبی کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ عدالت عالیہ کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ اُن کی غلط باتوں کو اپنے فیصلوں کے ذریعے روکنے کی کوشش کرے۔ عدالت کا یہ حق اُس وقت ختم ہو جائے گا جب آئین کے دائرے میں رہتے ہوے اسمبلی کے ذریعے ایسی قانون سازی کر لی جائے جس سے عدلیہ کو گھر کی لونڈی بنالیا جائے۔ اگر مذکورہ قانوں سازی سے عوامی حقوق سلب کرنے کی نوبت پھر آئی تو عدلیہ کوآئین نے بہر حال یہ اختیار دیا ہوا ہے کہ ایسے اسمبلی کے بنائے ہوئے قانون کو بھی کالعدم کر قرار دیدے۔ جو اصل آئین کی روح کو پامال کرنے کا موجب ہوں۔ موجودہ عدلیہ نے جو نام پیدا کیا ہے وہ بر قرار رہنا چاہئے۔اس حقیقت سے بھی نظریں نہیں چرائی جا سکتی ہیں کہ عدلیہ کی آزادی کے بعد ملک میںوکلاء گردی نے بھی شدت اختیا کرلی ہے جس کا تدارک کرنا بھی معزز عدلیہ کی ہی ذمہ داری بنتی ہے۔اس موضوع پر پھر کبھی تفصیلی بات کریں گے۔

اگر کوئی تقرری یا تبادلہ ،صدارتی آرڈیننس یا قانون سازی بد نیتی پر مبنی ہوگا توان کو عدلیہ کے احکامات کے تحت روکنا کس طرح اختیارات سے تجاوز کے زُمرے میں آتا ہے؟ دفاعی ادارے اگر حساسیت کے نام پر شہریوں کو غائب کردیں یا ان کی لاشیںروڈوں پر مسخ کرکے پھینک دیں یا سالوں تک ان لوگوں کو اٹھا لینے کے بعد اُن کااتہ پتہ تک نہ دیں تو کیا ان کے لوحقین کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ عدالتوں کے ذریعے اپنے لوگوں کو ان کے چنگل سے آزادی دلانے کی درخوست کریں ؟جب عدالت کے پاس کوئی مقدمہ پہنچ جاتا ہے تو اُس پر فیصلہ دینا عدالت کا فرضِ اولین بن جاتا ہے۔ان فیصلوں سے مخاصمت در اصل قانون کی حکمرانی کی مخالفت ہے جس کو سول سوسائٹی بھی برداشت نہیں کرے گی۔

امریکہ کے ٹکڑوں پر پل کر ہمیں اس قدر بے حس بھی نہیں ہوجانا چاہئے کہ اپنے غداروں ،قانون کی دھجیاں اڑانے والوں، وطن دشمنوں اور اسلامی شعائر کی حمایت ناکرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہوجائیں۔پاکستانیوں کے قتال کرنے والے امریکیوں اور اُن کے ڈرون حملوں کی حمایت میں کھڑے ہوجائیں یا ملک کے قانون شکنوں کے ہم نوا بن جائیں۔اور جب حکومتیں بے حس ہوکر ڈالروں کے بدلے اپنے ہی شہریوں کا خونِ ناحق کرانے میں ان کی شریک ِ جرم بن جائیںتو کیا عدالتوں کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کہیں کہ ڈرون حملے حکومت بند کرائے اور اگر وہ ان کو بند نہیں کراسکتی تو َڈرونوں کو گرانے کا حکم دیدے؟

Musharraf

Musharraf

میرے محترم بابا کو امریکہ کی ہمنوئی بہت زیادہ عزیز ہے۔ شائد مدت سے انہیں ان کی دوستیاں راس آئی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شائد ریمنڈ ڈیوس، ارشاد احمد حقانی، ڈاکٹر پولیو، اور ڈکٹیٹر مشرف کے لئے ہمارے محترم اداروں پر خاک اڑاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں سب سے بڑا عمل دخل ان کا اپنا اقتدار چھن جانے کا دکھائی دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ عدلیہ پر رہ رہ کر برس رہے ہیںان کا یہ عمل لوگوں کی نظر میں کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق ہے۔

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com