تحریر : انجینئر افتخار چودھری عمران خان نے شائد کارکنوں کی بات سن لی ہے کہ چور کے خلاف چوروں کو لے کر لڑائی نہیں لڑی جا سکتی مشاہد اللہ پیپلز پارٹی کو کہہ رہے تھے کہ آپ نے خالصتان کی تحریک کا سوا ستیا ناس کیا اور وہ انہیں مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار کا طعنے دے رہے تھے۔اور میرے جیسے لوگ دانتوں پر انگلیاں رکھ کر حیران تھے اور سوچ رہے تھے چور تے دونویں نے۔اور دونوں ہی مسٹر ہیں۔۔لیکن ان میں ایک مسٹر ڈاکو ہے فیصلہ آپ کریں۔ نعرہ تو بہت اچھا ہے مگر نعرہ لگانے والا منہ کون سا ہے کیا یہ جچتا ہے اس منہ سے جس نے مک مکا کی زندگی گزاری ہو قسمیں کھائی ہوں مجھے جدہ کے میرے ایک مرحوم دوست یاد آ گئے بڑے دیسی مشرقی پنجابین تھے ایداں اوداں میں باتیں کیا کرتے تھے نام تھا قاری شکیل بہت عرصہ مسلم لیگ کی خدمت کی بڑے سادہ دل تھے جئے تو مخلص شخص کی صورت اور ان کی موت کا ذکر کرنا بھی چاہوں تو نہیں کر سکتا لیکن ایک شعر ضرور یاد آتا ہے پڑھائی نماز جنازہ میری غیروں نے مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضو کرتے۔
کبھی موقع اور اجازت ملی تو ان کی موت پر میاں برادران کی بے حسی کی بات کروں گا لیکن یہ آج ان کی یہ بات بڑی یاد آ ئی جب محترمہ بے نظیر نواز شریف سے ملنے جدہ سرور پیلیس آئیں اور آ کر چلی گئیں تو شام کو زہرہ ہوٹل جدہ کی میز پر کہنے لگے چودھری صاحب پہلی واری آپانںنے نئیں لینی(چودھری صاحب پہلی باری ہم نے نہیں لینی)اس یادگار میٹینگ میں سردار شیر بہادر خان ضلع ناظم بھی شریک تھے ان سے پوچھا جا سکتا ہے بعد میں اس بات کی تصدیق بھی ہوئی۔میثاق جمہوریت جو ایک مک مکا کا دوسرا نام ہے یہ وہیں طے ہوا کہ ہم آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور فائدہ تیسرا فریق لے جاتا ہے اس ایک نکاتی ایجینڈے پر پیپلزپارٹی اور نون لیگ عمل پیرا ہیں ۔اس جہان سے رخصت ہو جانے والی بی بی اور میاں صاحب کے معاہدے کی لاج نون لیگ نے گزشتہ پانچ سال جو پیپلز پارٹی کا دور حکومت تھا اس میں رکھی اور اب پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری بھی رکھ رہے ہیں۔
کل اسمبلی کا اجلاس تھا مشاہداللہ خان بات کر رہے تھے اوکھی پھوپھی کی طرح چھج چھاننی کو طعنے دے رہا تھا۔ادھر سے مودی کو جو یار ہے غدار ہے غدار ہے کے نعرے تھے۔اس معاہدے کے تحت انہیں اس بات کی اجازت تھی کہ وہ ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کریں دوسرا اسے گلی گلی میں چور قرار دے لیکن یہ بھی طے تھا کہ ہم یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی جب بھی کوئی فریق مشکل میں آیا اسے سنبھالا دیں گے۔اچھی بات ہے کون کہتا ہے کہ فوج اس ملک کے اقتتدار پر قابض ہو۔یہ کسی کے فائدے میں نہیں ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ادارے کھا جائیں تباہ کر دیں لیکن ان کی باز پرس کے لئے کوئی طریق کار ہی نہ ہو۔
Pakistan
ہماری سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان کا ایک ابھرتا ہوا لیڈر اس سسٹم سے مکمل ناکام ہو چکا ہے اس نے عملا جان لیا کہ ایف آئی اے کچھ نہیں کر سکتا نیب ایف بی آر الیکشن کمیشن عدالتیں کچھ بھی دے رہین اور اس نے یہ اعلان کر دیا کہ ٣٠ اکتوبر کو دما دم مست قلندر ہو گا ۔سناتھا سونامی لیکن اب اکتوبر کی آخری تاریخوں میں نہ صرف دیکھیں گے بلکہ اس کا ھصہ بھی بنیں گے۔اداروں کے اوپر سے اعتماد اٹھ جانا میں سمجھتا ہوں یہ مایوسی کی انتہا ہے۔عمران خان نے بڑی جدوجہد کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔حرام کمائی سے الیکشن کے نتائیج اپنے حق میں کر لینے کے متعدد عملی مظاہرے وہ دیکھ چکے ہیں۔ وہ عمران خان جو آج تک کہتا رہا کہ میرے لوگ ٹیلیویزن کی بلڈنگ میں نہیں گئے اسمبل ہال کی طرف نہیں بڑھے آج سر عام کہہ رہا ہے کہ ہاں پہلے نہیں گئے تھے اب اسلام آباد کو بند کرکے ریاستی مشینری کو غیر فعال کروں گا۔
حکومت کو تو چاہئے ہی لیکن عدالتوں نیب الیکشن کمیشن اسمبلی سب کو دیکھنا ہوگا کہ غلطی کہاں ہوئی۔دائیں بازو کی ایک لبرل پارٹی اگر اس انتہا کی طرف جا رہی ہے تو اس میں کس کا قصور ہے؟کیا پاکستان کے کیپیٹل کی پولیس انصافینز کے راسے کی دیوار بنے گی؟کیا عمران خان سے دوستی کے دعوے دار چودھری نثار علی خان ان لوگوں پر فائر کھلوائیں گے اور کیا پاکستان کی فوج اس کی رینجرز انہیں روکے گی۔سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کئی محمد علی نیکوکارا سمانے آئیں گے اور میں اچھل کود میں مصروف اپنے نون لیگی دوستوں کو کہوں گا کہ پھر وہ کام نہ کرنا قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں اور نواز شریف کے لئے کو قلعے کھولوا کر گھر بیٹھ جانا ۔نہ آپ میں اتنی تڑ ہے اور نہ ہی ہمت ،چوری کھانے والے میاں مٹھو مسلم لیگ ہی کی دکان سے مل جاتے ہیں جو کبھی ایوب خان کے ہاں بکتے ہیں کبھی ضیا الحق اور کبھی مشرف کے مول لگوا کر مزے کرتے ہیں۔ پس چہ بائید کرد اب کیا کرنا چاہئیے اس کا واحد حل میاں نواز شریف کو اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرنا چاہئے۔پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت کو پاکستان میں لانا چاہئے یہ کام اگر دو افراد ہی کر دیں تو پاکستان فلپائن کی طرح آئی ایم ایف کے شکنجے سے نکل سکتا ہے۔
وہ وج پاکستان کی یک جہتی کشمیر کی یک جہتی کے پیچھے چھپ رہے تھے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومتی اراکین کی عدم دلچسپی پر پتہ نہیں اب کہا چھپ رہے ہیں۔کمال کے لوگ ہیں جو اتناے بڑے سکینڈلز کے ہوتے ہوئے نون لیگ کا دفاع کر رہے ہیں۔عمران خان نے شائد کارکنوں کی بات سن لی ہے کہ چور کے خلاف چوروں کو لے کر لڑائی نہیں لڑی جا سکتی۔مشاہداللہ پیپلز پارٹی کو کہہ رہے تھے کہ آپ نے خالصتان کی تحریک کا سوا ستیا ناس کیا اور وہ انہیں مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار کا طعنے دے رہے تھے۔اور میرے جیسے لوگ دانتوں پر انگلیاں رکھ کر حیران تھے اور سوچ رہے تھے چور تے دونویں نے۔اور دونوں ہی مسٹر ہیں۔لیکن ان میں ایک مسٹر ڈاکو ہے فیصلہ آپ کریں۔