تحریر: ایم سرور صدیقی فیصلہ ہوچکا کوئی تسلیم کرے نہ کرے اس کی مرضی ۔۔۔۔خدا اس وقت تک اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک خود اس کو اپنی حالت بدلنے کا احساس نہ ہو اب دنیا بھر کے سکالر، دانشور ،مذہبی سیاسی رہنما ڈھنڈورا پیٹتے پھریں لاکھ دلیلیں دیں کوئی فرق نہیں پڑتا فیصلہ اٹل ہے۔ درویش نے عقیدت مندوں کی طرف محبت سے دیکھا ان کے چہرے پر تبسم تھا انہوں نے کہا تبدیلی انسان کے اندر سے آتی ہے اب تو یہ چلن عام ہے کہ ہم خود کو درست قرار دیتے ہیں اپنے ہر فعل کو درست سمجھنے لگے ہیں یعنی خود تبدیل نہیں ہونا چاہتے خواہش ہے کہ دوسرے تبدیل ہوجائیں اس خواہش نے کتنے مسائل پیدا کرکے رکھ دئیے ہیں اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔۔۔
کئی دن پہلے ایک صاحب یہاں تشریف لائے انہوں نے باتوں باتوں میں جارج برنارڈ شاہ کا ایک قول دہرایا” تبدیلی کے بغیر ترقی ناممکن ہے اور جولوگ خود اپنی سوچ تبدیل نہیں کر سکتے وہ کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے”۔۔۔ حالانکہ اس کا انکشاف صدیوں پہلے آخری الہامی کتاب میں کردیا گیا تھا یہ خداکا فیصلہ ہے اس سے انکارکی کوئی گنجائش نہیں لیکن ایک بات ہے جو وقت ہم دوسروں پر تنقید میں گذاردیتے ہیں اگروہی وقت خود کو سنوارنے میںگذاریں تو کتنا بہترہے کسی کو تبدیل کرنا آپ کے اختیارمیں نہیں لیکن خودکو تبدیل کرنا آپ کے اپنے اختیار میں ضرورہے دنیا کو بدلنے کی کوشش عبث ہے دنیا کو نہ بدلیں خودکو بدلیں یقین جانیں سب کچھ بدل جائے گا ۔۔۔ دوسروںکو تبدیل کرنے کی خواہش درحقیقت قول و فعل کا کھلا تضادہے جو اکثرلوگوں کو نظرنہیں آتا۔۔تبدیلی نظر آتی ہے۔
Nation
نظر آنی چاہیے اس کے بغیر سب کھوکھلی باتیں ہیں۔۔۔ اے لوگو !غور سے سنو درویش نے دائیں ہاتھ کی انگشت بلندکرتے ہوئے کہا اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی خواہش اس بات کی علامت ہے کہ آپ اپنے موجودہ ماحول سے چھٹکارا چاہتے ہیں فقط باتیں کرتے رہنے سے تبدیلی نہیں آسکتی ہمارے پاس رہنمائی کے لئے اسلاف کی درخشندہ روایات ہیں جن پر فخر کیا جا سکتاہے جس طرح انصاف ہوتا نظر آناچاہیے اسی طرح تبدیلی بھی نظر آنی چاہیے اس کے بغیر کوئی مثال نہیں دی جا سکتی۔ فیصلہ ہوچکا کوئی تسلیم کرے نہ کرے اس کی مرضی ۔۔۔۔خدا اس وقت تک اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک خود اس کو اپنی حالت بدلنے کا احساس نہ ہو اب دنیا بھر کے سکالر، دانشور ،مذہبی سیاسی رہنما ڈھنڈورا پیٹتے پھریں لاکھ دلیلیں دیں کوئی فرق نہیں پڑتا فیصلہ اٹل ہے۔درویش نے لوگو!غور سے سنو سمجھو گے تو احساس ہوگا تبدیلی کیا چیزہے۔
تاریخ کا مطالعہ کیا کرو تاریخ تو آئینہ کی مانند ہوتی ہے یہ دونوں تاریخ اور آئینہ بڑے ظالم ہیں سب کچھ سچ سچ بتا دیتے ہیں کسی لگی لپٹی کے بغیر۔۔ ان کو ڈر بھی نہیں لگتا کہ کوئی ناراض ہوجائے گا۔۔ یہ الگ بات کوئی ان سے سیکھنا نہیں چاہتا۔۔ نبی ٔ آخرالزمان ۖ نے جب نبوت کااعلان کیا عرب کی کیا حالت تھی سب پر آشکارہے جہالت کی انتہا تھی۔۔ بتوںکی پر ستش عام تھی۔۔ اکثر پھول جیسی بیٹیوںکو زندہ درگورکردیا کرتے آپ کی تعلیمات نے ایک وحشی اور جنگجو معاشرے میں انقلاب بپاکردیاآقا ۖ کی عظیم قیادت کے طفیل مسلمان پوری دنیا پر چھا گئے تبدیلی اسے کہتے ہیں ۔۔۔تبدیلی ایسے آتی ہے۔۔۔۔کئی مثالیں آپ بھی دے سکتے ہیں آپ کے علم میں بھی ہوگا ایک بات طے ہے تبدیلی کا آغاز اپنے آپ سے کیا جائے اس کے لئے سب سے پہلے سوچ تبدیل کرنی ہوگا۔
یہی نقطہ ٔ آغازہے اور ٹرننگ پوائنٹ بھی۔۔۔ہندوستان کو لے لیں مسلمانوںکی آمدسے پہلے یہاںکی تہذیب و تمدن کا مطالعہ کرلیں ہندو تنگ و تاریک گھروں میں رہنا پسندکرتے تھے شاید اسی لئے آج بھی تنگ نظرہیں۔۔۔ دریا اورسمندر میں سفرکرنے کو گناہ سمجھا جاتا تھا۔۔۔ نچلی ذات کے لوگوںکے لئے مذہبی کتاب پڑھنے اور سننے پر پابندی تھی۔۔ خاوند مرجاتا تو بیوی کو آگ میں زندہ جلاکر ستی کردیا جاتا دوسری شادی ممنوع تھی۔۔۔ انتہا پسندی اور پرلے درجے کے متعصب ہونے کے باوجود اب بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ماضی جیسا تعصب نہیں کیونکہ اس کے رہنمائوں نے بھارت پر سیکولر ازم کا لبادہ اوڑھ دیاہے مسلمان، سکھ عیسائی اور دیگر اقلیتیں اب بھی پریشان ہیں انتہا پسند ہندو آئے روز گل کھلاتے رہتے ہیں لیکن کھلم کھلا سرکار ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی دنیا کو دکھانے کیلئے مذمت کی جاتی ہے۔
Hindu Society
یہ منافقت ہندوئوں کا طرہ ٔ امتیاز ہمیشہ رہاہے لیکن آپ محسوس کریں ہندو معاشرہ میں پھر بھی بہت تبدیلی واقع ہوئی ہے کبھی پانی میں سفرکو گناہ سمجھنے والے ہندوشاید روشن خیال ؟؟ہوتے جارہے ہیں تبی اب انڈیا آبدوزیں تیارکررہاہے۔۔۔پسماندہ علاقوںمیں اب بھی بہت جہالت ہے عورت کو ستی کرنے کے واقعات کبھی کبھی سننے کو ملتے ہیں ۔۔۔۔ درویش نے کہا دور نہ جائیں جب قسطنطنیہ ،ترکی جیسے مسلم آبادی کے علاقے ترقی یافتہ تھے اس پیرس، نیویارک میں کیچڑ سے لتھڑی سڑکیں تھیں ۔۔۔ چین پاکستان سے بعدمیں آزادہوا اب اس کی ترقی نے جاپان،جرمن اور امریکہ کو مات دیدی ہے۔۔ متحدہ عرب امارات کی ترقی تو جیسے کل کی بات ہو۔۔۔ یہ سب تبدیلی کے شاہکارہیں۔۔ اتنی ترقی ہم بھی کرسکتے ہیں یہ کوئی مشکل کام نہیں تبدیلی کا آغاز اپنے آپ سے کیا جانا لازم ہے۔
اس کے لئے سب سے پہلے سوچ تبدیل کرنی ہوگا یہی نقطہ ٔ آغازہے اور ٹرننگ پوائنٹ بھی۔۔۔ ارادہ کرلیں تو دنیا کا کوئی کام ناممکن نہیں سفر100کوس کا ہو یا ایک کوس کا ۔۔اسے طے کرنے کیلئے قدم اٹھانا پڑتاہے پہلا قدم ہی سفرکی جانب آغازکا سبب بنتا ہے تو پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر پہلا قدم اٹھائیں یہ قدم ترقی کی جانب۔۔۔ تبدیلی کی جانب بڑھتا چلا جائے گا فیصلہ ہوچکا کوئی تسلیم کرے نہ کرے اس کی مرضی ۔۔۔۔خدا اس وقت تک اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک خود اس کو اپنی حالت بدلنے کا احساس نہ ہو اب دنیا بھرکے سکالر، دانشور،مذہبی سیاسی رہنما ڈھنڈورا پیٹتے پھریں لاکھ دلیلیں دیں کوئی فرق نہیں پڑتا فیصلہ اٹل ہے۔