تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ پاناما لیکس کیس سے پہلے نوز شریف صاحب وزیر اعظم پاکستان پر کسی پاکستانی سیاست دان نے کرپشن کا الزام نہیں لگایا تھا یہ تو صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم تھی جس نے دنیا کے سیاست دانوں کے پاناما میں آف شور کمپیونیوں میں اکاونٹ سامنے لائے تھے۔اس انکشاف میں وزیر اعظم کی فیملی کا نام بھی تھا۔ دنیا والوں نے تو احسن جمہوری طریقے اپنے اپنے معاملات طے کر لیے۔مگر وزیر اعظم نواز شریف نے اس کو طول دیا۔ اس کے بعد پاکستان کی اپوزیشن کو موقعہ ملا اور وزیر اعظم کے احتساب کی بات کی تھی۔اس پروزیر اعظم نے دو دفعہ الیکٹرونک میڈیا اور ایک دفعہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں اس کی وضاعت کی اور اپنے آپ اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کیا۔ مقدمہ عدالت میں گیا اور عدالت عالیہ کے پہلے فیصلہ میں دو معزز ججوں نے نواز شریف وزیر اعظم کو ان کے بیانات کی روشنی میں پاکستان کے آئین کی شق نمبر ٦٢۔ ٦٣ پر پورا نہ اُترنے پر عوامی عہدے پر نا اہل قرار دیا تھا جبکہ تین معزز ججوں نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ وزیر اعظم کو ساٹھ دن کا مزید وقت دیا جائے اور ایک ہفتہ کے اندر اندر ایک جے آئی ٹی بنائی جائے جو خفیہ ادارے، احتساب بیرو، اسیٹ بنک اوروسرے اداروں کے نمائندے پر مشتمل تفتیش کر کے عدالت عالیہ کو پیش کرے گی اس کے بعد عدلیہ فائنل فیصلہ دے گی۔
عدالت نے خود اچھی شہرت رکھنے والے افراد کا سلیکشن کیا اور جے آئی ٹی نے اپنی تفتیش شروع کر دی۔ لگتا ہے کہ پہلے فیصلہ پر نون لیگ کو ان کے قانونی مشیروں نے ضرور مشورہ دیا ہو گا کہ پہلے فیصلہ کو اگر سامنے رکھا جائے تو آخری فیصلہ بھی مکمل طور پر وزیر اعظم کے خلاف ہو گا اس پر نواز شریف کی حکومتی پارٹی نے سیاسی ڈرامہ بازی کی اور پہلے فیصلہ پر مٹھائیاں تقسیم کر کے عوام کو بے وقوف بنایا کہ دیکھو !کچھ سارے ججوں نے وزیر اعظم کو نا اہل قرار نہیں دیا ہماری جیت ہے اس پر ہم مٹھایاں تقسیم کر رہے ہی ہیں۔ کیا خوب نرالی بات کی۔ بھائی دو ججز صاحبان نے نا اہل قرار دے دیا تو تین ججوں نے وزیر اعظم کو اہل قرار بھی تو نہیں دیا کہ آپ مٹھیائیاں تقسیم کر رہے ہیں۔ صرف یہ کہا کہ ساٹھ کے اندر مذید تحقیق کر لی جائے تاکہ انصاف کے سارے تقاضے پورے ہو جائیں اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ شروع دن سے شایدقانونی مشیروں کے کہنے پر دبے الفاط میں جے آئی ٹی پر اعتراضات کرنا شروع کر دیاتا کہ اس کو متنازہ بنا دیا جائے اور عوام کے سامنے رونا رویا جائے کہ یہ جے آئی ٹی جانب دار ہے۔
حسین نواز نے کبھی کہا گیا کہ دو ممبران ان کے خلاف ہیں عدالت میں درخواست بھی دی مگر عدالت نے اس درخواست کو یہ کہہ کرخارج کر دیا کہ کہ ان کا اعتراض صحیح نہیں۔ پھر بیان بازی کی جاتی رہی کہ بیس کروڑ عوام کے منتخب وزیر اعظم کو ٢٢ گریڈ کے ملازمین کے سامنے پیش ہو نا پڑا۔ کبھی کہا گہا کہ وزیر اعظم کے بیٹوں کو کیوں بلایا جارہا ہے۔کبھی پروپیگنڈا کیا گیا کہ وزیر اعظم کی بیٹی جو قوم کی بیٹی ہے اس کو کیوں بلایا گیا۔ ایک وزیر نے کہا کہ اس کے گھرسوالات بھیج کر تفتیش کر لی جائے۔ ایک وزیر نے کہا کہ جے آئی ٹی جیم بونڈ٠٠٧ ہے۔ جو بھی بیان دیکر جے آئی ٹی سے باہر آتا میڈیا میں پریس کانفرنس کرکے عوا م کو بتاتا رہتا کہ ہم پرالزام کیا ہے۔ ہمارے ہاتھ صاف ہیں۔
ہم نے عوام کے پیسے میں کوئی کرپشن نہیں کی۔ ہمارے ذاتی کاروبار کا حساب کتاب کیوں پوچھا جارہا ہے۔ وزیر اعظم خود کہہ چکے ہیں کہ ان کے خلاف پتلی تماشہ اب نہیں لگنے دیا جائے گا۔ بقول عمران خان انہوں نے اس طرح پاک فوج اور عدلیہ پر تنقید کی ہے۔ ارے بھائی آپ عوامی عہدے پر فائز ہیں۔ جمہوریت کے تحت آپ سے ہر شہری کرپشن کے بارے میں سوال کر سکتا ہے۔ عمران خان نے الزام لگایا کہ سیاست میں آنے کے بعد ایک فیکٹری سے بیس بائیس فیکٹریاںکیسے بن گئیں؟آپ مغل شہزادوں کی طرح زندگی کیسے گزار ہیں آپ کے خلاف عدالت عالیہ میں کرپشن کا مقدمہ ملکی قانون کے مطابق مقدمہ قائم کیا گیا آپ کو عدالت عالیہ کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنی صفائی پیش کرنا ہے۔اس میںکون سی ان ہونی ہونی بات ہے۔ آپ نے بھی تو حقیقی اپوزیشن لیڈرعمران خا ن کے خلاف مقدمہ قائم کیا ہوا اسے بھی عدالت میں پیش ہونا پڑے گا اور اپنی بے گناہی عدالت میں ثابت کرنی پڑے گی۔ کیا اسرائیل کا وزیر اعظم پولیس کے سامنے پیش ہو کر اپنی صفائی پیش نہیں کر چکا ہے۔ ساری دنیا کے حکمرانوں پر جب عدالتوں میں مقدمات قائم ہوتے ہیں تو ان کو عدالتوں میں پیش توہونا ہی پڑتا ہے۔
اگر مریم صفدر صاحبہ کو جے آئی ٹی میں بلایا گیا تو کون سی بڑی بات ہے۔کیا مریم صاحبہ بے نظیر بھٹو صاحبہ سے زیادہ سیاسی قد کاٹھ رکھتی ہیں ان کو عدالت میں بلایا گیا تھا اور وہ اپنے دو معصوم بچوںکو لیے ہوئے عدالت میں پیش ہوئی تھی۔ پاکستان کی عدالتوں میں ہر روز قوم کی بیٹیاں پیش ہو رہی ہے۔ اگر مریم صاحبہ پیش ہوئی توکیا ہوا۔ اگر مریم صاحبہ سیاست کریںگی توایسے معاملات تو پیش آتے رہیں گے۔ جے آئی ٹی نے ریکارڈ ٹیمپرنگ کی عدالت عالیہ میں شکایت کی۔تحریک انصاف والے کہہ رہے ہیں نواز حکومت آخری سانسیں لے رہی ہے۔شیخ رشید کہتے ہیں وفاقی وزراء کی پریس کانفرنس گیم ختم اور کیس اور ہو چکا قرار دے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف کہتے ہیں نواز شریف کے جانے سے جمہوریت ڈی ریل نہیں ہوگی۔ سب سے پہلے احتساب مہم شروع کرنے والے جماعت اسلامی کے امیر اور سینیٹر سراج الحق کہتے ہیں نواز شریف جے آئی ٹی کے سامنے ایک دفعہ حاضری لگوا کر مظلوم شریف بننا چاہتے ہیں۔پانامہ سیکنڈل حکمرانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے طرف سے بے آوازلاٹھی ہے۔ جب تک لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں آتی احتساب جاری رہے گا۔ پانامہ میں ملوث چھ سو لوگوں کو احتساب کے کہٹرے میں کھڑا کریں گے ۔ احتساب سے کوئی بھی بلاتر نہیں۔ صاحبو!مسلم لیگ کی توانا میڈیا ٹیم اپنے پرانے طے شدہ پروگرام کے مطابق بلآخر اپنے چارسینئر وزرا کو میڈیا میںبلایا اور انہوں نے جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا کھل کر اظہار کر دیا گیا۔ وزرا صاحبان کہتے ہیں خفیہ اداروں کے ارکان پر پہلے بھی اعتماد نہیں تھا اب بھی نہیں ہے۔
اعلان کر دیا کہ اگر قطری شہزادے کے گھر قطر جا کر بیان نہ لیا گیا تو ہم جے آئی ٹی کی تفتیش اور عدالت عالیہ کا فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔( ر) جج وجہی الدین صاحب نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ قطری شہزادہ شکار کھیلنے تو پاکستان آ سکتا ہے ۔ اپنے دوست کے حق میں گواہی دینے نہیں پاکستان نہیں آ سکتا۔ نون لیگ کے چار سینئروزراء نے کہا ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ جے آئی ٹی کی ساری کاروائی کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے ۔ گارڈ فادر اور سسلین مافیا آزاد عدلیہ کیلیے جنگ نہیں لڑتے۔ انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ حکومت کے اتحادی فضل الرحمان صاحب نے بھی حق ِدوستی نباتے ہوئے کہا ہے کہ جے آئی ٹی متنازہ بن چکی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ کو تبدیل کر دیا جائے تو سب خریت ہو جائے گی۔ دوسری طرف قطری شہزادے کو جے آئی ٹی نے تین خط لکھے کہ وہ قطر میں ہی پاکستان کے سفارت خانے میں اپنا بیان ریکارڈ کرائے مگر تینوں خطوط کے باوجودقطری شہزادے نے جے آئی ٹی سے تعاون نہیں کیا۔ جبکہ قطری حکومت اس خط کے بارے میں کہہ چکی ہے کہ اس خط سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ تحریک انصاف کے حضرات کہہ رہے ہیں کہ قطری شہزادہ مکر گیا ہے۔ میڈیا کے مطابق جے آئی ٹی نے بیرون ملک سے دستاویزی ثبوت حاصل کر لیے ہیں۔ نون لیگ نے فائنل فیصلہ آنے سے پہلے ہی اپنے طور پر شروع سے ہنڈرٹ پرسنٹ سمجھ لیا ہے کہ ان حالات میں فیصلہ ان کے خلاف ہی آنا ہے ۔ ایک سوچے سمجھے طریقہ کے مطابق وہ جی آئی ٹی میں پیش ہوتے رہے اور باہر نکل کر پریس کانفرنس کر کے اعتراض بھی کرتے رہے۔ اس طرع جے آئی ٹی کو متنازہ بنانے کی شروع سے کوشش کی گئی۔ اس سے عوام کے سامنے یہ جواز پیش کیا جائے گا کہ عدالت نے یہ فیصلہ صحیح نہیں دیا اور بیس کروڑ عوام کے منتخب لیڈر کو ڈی سیٹ کیا گیا۔ صاحبو! پاکستان کے عوام میںیہ بات درست نہیں سمجھی جائے گی ایک شہری پر کرپشن کا مقدمہ قائم ہوا ۔ وہ یہ نہیں بتا سکا کہ منی ٹریل کیسے ہوئی ۔صرف ایک خط پیش کیا گیا ۔ جس میں قطری شہزادہ کہتا ہے جہاں تک مجھے یاد پڑھتا ہے کہ میرے دادا صاحب نے میرے والد صاحب کو یہ بتایا تھا کہ نواز شریف صاحب کے والد صاحب نے ان کے کاروبار میں پیسے لگائے تھے۔ اس کاروبار کے منافع کے طور پر میں نے لندن کے دو فلیٹ ان کے نام کیے تھے۔
ایسا خط تو اس سے قبل بھی نواز شریف ہیلی کاپٹر کیس میں دبئی سے منگوا چکے ہیں۔ عدالت کو تو خط نہیں ٹھوس ثبوت چاہیے ہوتے ہیں۔ دیکھیں عدالت سے کیا فیصلہ آتا ہے۔ جب ملک کے اداروں کے سارے سربراہ حکمرانوں کے طرف دار ہو جائیں ۔جب ملک کی سرحدوں پر ہمارا ازلی دشمن بھارت حملے کر رہا ہوں۔ جب حکمران عوام کے پیسے ہڑپ کر رہے ہوں اور دشمن ملک سے دوستی نبا رہے ہوں تو مظلوم عوام پھر ملک کا تحفظ کرنے والی وفادار فوج اور عوام کا لوٹاہوا پیسا واپس دلانے والی ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے طرف ہی دیکھنا پڑتا ہے۔ عوام آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کو کب انصاف ملے گا۔