تحریر : جاوید ملک جے آئی ٹی کا معاملہ پورے ملک میں زیر بحث ہے۔ جوں جوں فیصلے کی پرتیں اترتی جا رہی ہیں اس بحث کو مزید جوش کا تڑکہ لگتا چلاجارہا ہے۔ وزیر اعظم کیلئے پریشانی یہ ہے کہ پیپلزپارٹی بھی اپوزیشن کی ہم نوا بن گئی ہے اوراب مشترکہ اپوزیشن کی طرف سے ان کے استعفی کا مطالبہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زور پکڑے گا اور اگر ماضی قریب کی طرح عمران خان اپنے لائو لشکر کے ساتھ دوبارہ پریڈ گرائونڈ کے گردونواح میں خیمہ زن ہوگئے تو اس بار جمہوریت بچائو کی چھتری بھی انہیں میسرنہیں ہو گی۔
اس فیصلے پر بھانت بھانت کے رد عمل آنے کا سلسلہ جاری ہے اور شاید مزید کئی دن تک جاری رہے کوئی یوم تشکر منارہا ہے تو کسی کیلئے یہ یوم نجات ہے ۔ مٹھائیاں بانٹنے والے بھی خوش ہیں اور اس خوشی کا تمسخر آڑانے والے بھی شاد ۔ سکتے میں ہیں تو اس ارض پاک کے وہ بے بس لاچار لوگ جنہیں قانونی و آئینی پیچیدگیوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ان میں سے اکثریت کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ جے آئی ٹی کس بلا کا نام ہے وہ تو اپنے یزہ ریزہ خوابوں کی کرچیاں سمیٹ سمیٹ کر بھی تھک گئے ہیں۔
انصاف کی سب سے بلند مسند سے عام آدمی کی امیدیں برسوں پہلے چوہدری اعتزاز احسن نے جوڑیں تھیں اور شاید اس جرم میں ایک بڑا حصہ جوشیلے علی احمد کرد کا بھی تھا ۔ وکلا تحریک میں عدلیہ ہوگی ماں کے جیسی کے نعرے نے پوری قوم کو اپنے حصار میں لے لیا تھا ۔ تمام مسائل کا حل انصاف ہے یہ بات بھولے بھالے لوگوں نے اپنے پلے سے باندھ لی ۔ امیدیں سانس لینے لگیں تو جنون اٹھتا ہے اور اس وقت بھی چشم فلک نے وہ جنون دیکھا کہ جو وقت کے سب سے طاقت ور باوردی حکمران سے ٹکراگیا ۔ ریاست نے ہر روایتی حربہ استعمال کرکے دیکھ لیا لیکن طاقت ہار گئی اور فتح کا تاج دیوانگی کا مقدر ٹھرا۔ تحریک کے نتیجہ میں جمہوریت کی راہ ہموار ہوئی اور تھوڑی بدمزگی کے بعد عدلیہ بھی بحال ہوگئی ۔بدمزگی یہ تھی کہ عام انتخابات کے بعد جب پیپلز پارٹی نے حکومت بنالی تو وہ عدلیہ بحالی کے وعدے سے پہلو تہی کررہی تھی ۔ نوازشریف اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے مابین اس معاملے پر ہلکی پُھلکی موسیقی چلتی رہی ۔ سخت بیانات کے تبادلوں اور دھمکیوں کے بعد نوازشریف نے دھماکے کا فیصلہ کرلیا ۔وہ عوامی امنگوں کا رخ سمجھ گئے تھے اسی لیے عدلیہ بحالی کیلئے لانگ مارچ کا اعلان کرنے میں دیر نہیں کی ۔وہ ایک تاریخی مارچ تھا جو لاہور سے نکلا تو اس کے جوش و جذبے نے ایوان اقتدار کو لرزادیا چنانچہ مارچ کے گوجرانوالہ پہنچتے پہنچتے پیپلز پارٹی کی حکومت نے عدلیہ بحالی کا اعلان کردیا۔
ستم یہ ہوا کہ یہ بدمزگی انائوں کے وحشی کھیل میں ڈھل گئی ، وفاقی حکومت اور منصف اعلیٰ میں ایسی ٹھنی کہ ایک وزیر اعظم کی قربانی بھی اس آگ کو ٹھنڈا نہ کرسکی ۔قانونی و سیاسی شعبدہ بازی ،طاقت کی رسہ کشی کے اس کھیل میں سب جیت گئے ہارا تو وہ غریب کہ جس کے آنگن میں خوش فہمیوں نے میلہ سجالیا تھا ۔امیدوں کی اس راکھ کو پھر عمران خان نے کرید ا تبدیلی کا خوشنما نعرہ دوبارہ جنون کیلئے اکسیجن بنا ۔دھرنوں کے طویل ترین سفر اور سو سے زائد دن پریڈ گرائونڈ کے پڑائو نے بھی اس جنون کے ماتھے پر تھکن کی شکنیں نہیں ڈالیں ان پر عزم چہروں نے مجھے اس وقت یہ لکھنے پر مجبور کردیا تھا کہ خواب مرتے نہیں اور امیدیں تھکتی نہیں ہیں ۔ طویل جدوجہد کے بعد عمران خان نے بھی ان امیدوں کو ایک بار پھر عدالت عظمی کی جھولی میں ڈال دیا۔
یہ ایک طویل پیچیدہ اور سست عمل تھا 35سماعتیں ،25ہزار سے زائد دستاویزات اور نوماہ کے صبر آزما انتظار کے بعد نتیجہ ایک جے آئی ٹی نکلا۔عدالت عظمی نے ان ہی اداروں کو تفتیش سونپ دی جن کی اہمیت پر دوران مقدمہ خود ہی سوال اُٹھادیئے تھے ۔اور ان کی عمومی کارکردگی ویسے بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔موضوع گفتگو یہ بھی ہے کہ اٹھارہویں ،انیسویں گریڈ کے یہ افسران وزیر اعظم وقت اور ان کے اہل خانہ سے تفتیش کی جرأت کہاں سے لائیں گے انصاف کی سب سے بلند مسند پر تشریف فرما منصفوں نے واضح کردیا ہے کہ وہ مقبول نہیں قانون کے دائرے میں ہی فیصلے کرسکتے ہیں مجھ جیسا ناقص العقل تو یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ کیسا قانون اور کیسے دائرے ہیں کہ جن کی کوکھ سے جنم لینے والے فیصلے مقبول نہیں ہوتے ۔ قانون تو عام آدمی کی سہولت کیلئے بنایا جاتا ہے اور عوامی مقبولیت سے ہٹ کر فیصلے ریاضی کی جمع تفریق تو ہوسکتے ہیں معاشرے کی بھلائی ہرگز نہیں ہوسکتے ۔ایک ایسا معاشرہ جہاں ہجوم کوئی بھی الزام عائد کرکے کسی کو بھی بے رحمانہ طریقے سے چیر پھاڑ دے ۔جہاں تیل چھڑک کر زندہ انسانوں کو جلادیا جائے ۔جہاں کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال کھیلا جائے جہاں مائیں اپنے ہاتھوں سے اپنے جگر پاروں کا گلہ گھونٹ کر خودکشیاں کررہی ہوں جہاں نظام انصاف اس قدر پیچیدہ اور سست ہو کہ بے گنا ہ لوگ قید و بندمیں انصاف کی راہ تکتے تکتے سانسیں ہار بیٹھے وہاں مقبول فیصلے ہی مرہم ہوا کرتے ہیں اور اگر عدالتیں جو عام آدمی کی آخری امیدہیں بھی ہیجان ختم نہیں کر پائیں گی تو مورخ ہمیں اس نیرو سے تشبیہ دے گا جو روم کو جلتا ہوا دیکھ کر بانسری بجارہا تھا۔