واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی صدارتی انتخابات برائے نام قومی مقابلہ ہوا کرتا ہے، جس کا فیصلہ ’’مقبول ووٹ‘‘ کی بنیاد پر ہوتا ہو۔ اس کے نتائج کا دارومدار 50 انفرادی ریاستوں کی رائے پر ہوتا ہے، جب کہ امیدواروں کی جیت ’الیکٹورل کالج‘ کی بنیاد پر ہوتی ہے، جس کا انحصار ہر ریاست کی آبادی اور کانگریس میں اُس کی نمائندگی کی بنا پر ہوتا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی ہیلری کلنٹن جو سابقہ وزیر خارجہ ہیں؛ اور ری پبلیکن پارٹی کے ڈونالڈ ٹرمپ جو جائیداد کے نامور کاروباری شخص ہین جو پہلی بار کسی عوامی عہدے کا انتخاب لڑ رہے ہیں؛ دونوں کی کوشش ہے کہ 538 الیکٹرز کی اکثریت، یعنی 270 ووٹ حاصل کرلیں، تاکہ وہ وائٹ ہاؤس کے عہدے تک رسائی کا دعویٰ کر سکیں۔
اب، جمعرات کو جاری ہونے والے رائے عامہ کے نئے جائزے کے مطابق، چاروں فیصلہ کُن ریاستوں میں کلنٹن کو ٹرمپ پر کافی سبقت حاصل ہوگئی ہے، جب کہ وہ قومی ووٹروں کے سروے میں بھی آگے دکھائی دیتی ہیں۔
دیگر اندازوں سے پتا چلتا ہے کہ کسی وقت ٹیلی ویژن ریلٹی شو کے میزبان کے مقابلے میں واضح سبقت حاصل ہے، جو بات ’الیکٹورل کالج‘ کے اندازوں سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ تاہم، وہ ابھی 270 کی اکثریت کے عدد تک نہیں پہنچ پائیں، ایسے میں جب وہ حمایت کی اوپر نیچے ہوتی ہوئی سطح والی ریاستوں میں ڈیموکریٹک اور ری پبلیکن کی حمایت دونوں صدارتی امیدواروں کے حق میں تقریباً مساوی دکھائی دیتی ہے۔
ایک سیاسی تجزیہ کار، ایمی والٹر نے اِس ہفتے کہا تھا کہ ’’کلنٹن کے 270 کے عدد تک پہنچنے کے آثار زیادہ ہیں۔ وہ واضح طور پر پسند کی جانے والی امیدوار ہیں۔ لیکن، یہ دوڑ ابھی ختم نہیں ہوئی‘‘۔
’بیٹل گراؤنڈ‘ ریاستوں کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ کلنٹن کو مشی گن کی وسط مغربی ریاست میں اپنے مدِ مقابل پر 9 فی صد شرح کی سبقت حاصل ہے؛ نیو ہیمپاشئر کی شمال مشرقی ریاست میں وہ 11 نکتوں کی شرح سے آگے ہیں؛ جب کہ پنسلوانیا کی مشرقی ریاست اور فلوریڈا کی جنوب مشرقی ریاست میں 6 پوائنٹ کی سبقت حاصل ہے۔
یہ تمام وہ ریاستیں ہیں جہاں حالیہ مقابلوں کے دوران ٹرمپ نے انتخابی مہم چلائی ہے اور ڈیموکریٹک ووٹنگ کے شمار کا نقشہ الٹ چکے تھے، تاکہ اُنھیں نومبر کے انتخاب میں برتری مل سکے کہ وہ صدر براک اوباما کی جگہ لے سکیں، جب وہ جنوری میں اپنی میعاد مکمل کریں گے۔
قومی جائزوں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کلنٹن، جو کہ ملک کی پہلی خاتون صدر بننے کے لیے کوشاں ہیں، تیزی سے نمایاں ہو رہی ہیں۔ تاہم، اُنھیں ٹرمپ کے مقابلے میں ’’ناقابل ِتسخیر‘‘ پوزیشن حاصل نہیں ہوئی۔
جائزوں کا تناسب نکالا جائے تو ٹرمپ کے مقابلے میں کلنٹن کو تقریباً چھ پوائنٹ کی برتری حاصل ہے؛ جو 41.5 کے مقابلے میں 47.4 کی شرح کی ہے۔ حالانکہ، ’فوکس نیوز‘ کے تازہ ترین جائزے سے پتا چلتا ہے کہ گذشتہ ہفتے ڈیموکریٹک نیشنل کنوینشن کے بعد خطاب کرنے والوں کی جانب سے ٹرمپ کی مذمت کے بعد یہ شرح 39 کے مقابلے میں 49 تک پہنچ گئی تھی۔
تازہ ترین رائے عامہ کا جائزہ ایسے میں کیا گیا ہے جب ری پبلیکن پارٹی کے رہنماؤں نے گذشتہ ہفتے ٹرمپ کے خلاف سخت بیانات دیے تھے اور مایوسی کا اظہار کیا تھا۔
ٹوئٹر پر انٹرویوز اور بیانات میں تواتر سے ٹرمپ سنہ 2014 میں یوکرین کے کرائیمیا کے جزیرے پر روس کے قبضے سے باخبر نہیں لگے، وہ سنہ 2004 میں عراق میں جان دینے والے مسلمان امریکی فوجی کے والدین سے بارہا الجھے، جب اُنھوں نے کنویشن میں اُن پر تنقید کی؛ اور پھر متعدد بار ٹیلی ویژن انٹرویوز میں اُنھوں نے اگلے ہفتے ہونے والی پارٹی کے پرائمری الیکشن کے لیے ملک کے چوٹی کے ری پبلیکن اہل کار، ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر پال رائن کی حمایت سے انکار کیا۔