تحریر: محمد ریاض پرنس رقبہ کے لحاظ سے پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل دیپال پور جس کی حدوداس قدر وسیع ہے کہ اس کا بیشتر رقبہ ہمارے سب سے بڑے حریف بھارت کی سرحد کے ساتھ جا ملتا ہے ۔اس کے ایک طرف گنڈا سنگھ بارڈر قصور اور دوسری طرف حدود ہیڈ سلیمانکی بارڈر سے ملتی ہے۔ تو ایک طرف بابا فرید کی دھرتی پاکپتن شریف کی حدود اس کے ساتھ جا ملتی ہے ۔تو دوسری طرف بہاولنگر کی وسیع ترین حدود اس کے ساتھ ملتی ہے ۔ضلع اوکاڑہ کی تحصیل دیپال پور کا کل رقبہ اربن اور رورل تقریباً 618251 ایکٹرز ہے ۔ اس کی کل آبادی اربن اور رو رل تقریباً 1030836 کے قریب ہے ۔ا س کے پانچ بڑے بڑے ٹائونز ہیں ۔دیپال پور سٹی، حویلی لکھا،بصیر پور،منڈی احمد آباد،حجرہ شاہ مقیم ۔اور کچھ جھوٹے ٹائونز ہیں جن میں راجووال ،وساویوالا،شیر گڑھ،بھومن شاہ شامل ہیں اس تحصیل کی 55 یونین کونسلز ہیں ان تمام ٹونز کی خاص بات یہ ہے کہ یہ زرعی لحاظ اور سیاسی لحاظ سے اپنا مقام رکھتے ہیں۔
اس لئے تحصیل دیپال پور کو اگر پنجاب کی زرخیز تحصیل کا درجہ دے دیا جائے تو یہ کم نہ ہوگااوریہ کسانوں اور زمینداروں سے محبت کا پیغام ہو گا ۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس تحصیل میں مکئی اور آلو کی فصل کو کاشت کرنے والے بہت سے بڑے بڑے زمیندار موجود ہیں اس لئے ان کو بہت پسند کیا جاتا ہے اور بہت زیادہ تعداد میں کسان اس فصل کو کاشت کرتے ہیں ۔یہ پنجاب کی سب سے زیادہ کاشتکار تحصیل ہے ۔ اس لئے اس تحصیل دیپال پورسے بہت سے ممالک کو آلو اور مکئی سپلائی کی جاتی ہے ۔اس تحصیل کے زمیندار اپنی فصل کو تیار کرنے کے لئے بہت محنت کرتے ہیں۔ اس لئے ان کی کاشت بھی سب سے اچھی ہوتی ہے ۔ کاشت کے حوالے سے تو یہ تحصیل اور اس کے عوام کسی سے کم نہیں مگر ایک اچھی اور دل کو ہلا دینے والی بات یہ بھی ہے کہ سیاسی میدان میں بھی تحصیل دیپال پور کے لوگ کسی سے کم نہیں ،جیسے اس تحصیل نے بڑے بڑے زمیندار پیدا کیے ہیں وہیں اس زرخیز تحصیل نے بڑے بڑے سیاستدان بھی پیدا کیے ہیں ۔اس لئے کہتے ہیں کہ دیپال پور کی دھرتی کے لوگ کسی سے کم نہیں ۔ہر سطح پر اپنا نام اور مقام رکھتے ہیں ۔دیپال پور سے بہت سے سیاستدانوں نے ایوانوں میں جا کر اپنی آواز کو بلند کیا۔ پنجاب کے دو بار وزیر اعلیٰ منتخب ہونے والے میاں منظور احمد خاں وٹو کا تعلق بھی اسی تحصیل سے ہے۔
Mian Manzoor Ahmed Wattoo
تحصیل دیپال پور کے ٹائون حویلی لکھاوساویوالہ کے نہایت ہی سادہ لوح انسان علاقہ کی شان اور بہت بڑے ذمیندار مرحوم میاں جہانگیر احمد خاں وٹو کے صاحبزادے میاں منظور احمد خاں وٹو نے اپنی سیاست کا آغاز بی ڈی الیکشن سے کیا اور کئی بار جنرل ممبر منتخب ہو کر اپنے علاقہ کے لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کروائے ان کی عوام کے ساتھ اس محبت کا صلہ ان کو ہر بار ملتا رہا اور قسمت کی دیوی ان پر اس قدر مہربان ہوئی کہ جس الیکشن میں بھی انھوں نے حصہ لیا کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ میاں منظور احمد خاں وٹو ضلع کونسل کے ممبر بھی رہے۔اس کے بعد میاں منظور احمد خاں وٹو نے ایم پی اے کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے ۔میاں منظور احمد خاں وٹو پنجاب اسمبلی کے دوبار سپیکر منتخب ہوئے ۔ان کی اس محنت اور عوام کے ساتھ محبت نے ان کودو بار پنجاب کا وزیر اعلیٰ بھی بنایا۔پنجاب اورتحصیل دیپال پوکے اس وقت کے سب سے سینئر اور منجھے ہوئے سیاستدان میاں منظور احمد خاں وٹو ہی ہیں۔
آج ان کی سیاست کا چرچہ ہر سو ہے اس لئے آج میاں صاحب پاکستا ن پپلز پارٹی کے سینئر رہنمااورسابق ایم این بھی ہیں۔میاں منظور وٹو کی علاقہ کے عوام کے ساتھ محبت اور پیار کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ اس وقت میاں صاحب کا ایک بیٹا میاں خرم جہانگیر وٹو ایم پی اے اور میاں صاحب کی دوبیٹیاں روبینہ شاہین وٹو اور جہاں آرا ء سیاست کے میدان میں اپنے باپ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور کئی عوام میں اپنی نمائندگی کر چکے ہیں۔۔جو علاقہ میں عوام کی خدمت میں پیش پیش ہیں ۔میاں منظور خاں وٹو کی سیاست ابھی ختم نہیں ہوئی ۔آیندہ الیکشن میں وہ اپنے حریفوں کو ٹف ٹائم دیں گے ۔ایکطرف میاں منظور احمد خاں وٹو کے حریف میاں معین خاں وٹو ہیں جو اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کے موجودہ ایم این اے ہیں ۔ تو دوسری طرف ان کے حریف سیاستدان رائو محمد افضل خاں ایم این اے مرحوم کے بیٹے رائو محمد اجمل خاں پاکستان مسلم لیگ ن کے منتخب ایم این اے اور پارلیمانی سیکرٹری ہیں ۔انہوں نے بھی اپنے والد کے نام کو زندہ رکھا ہے اور ہر میدان میں حریف کا مقابلہ کیا ہے ۔اس وقت ان کے بیٹے رائو سعد اجمل خاں ان کے سیاستدان کے میدان میںدست بازو بنے ہوئے ہیں اور موجودہ چیئرمین یونین کونسل منتخب ہو چکے ہیں اور ضلع کونسل کے چیئرمین کے لئے میدان میں ہیں۔
میاں معین خان وٹو نے حویلی ٹائون اور بصیر پور ٹائون میں میاں منظور احمد خاں وٹو کو الیکشن 2013ء میں بھاری اکثریت سے شکست دی ۔اس حلقہ میں میاں معین خان نے ایم این اے اور ایم پی اے دونوں سیٹوں کے لئے الیکشن لڑا اور دونوں میں کامیابی حاصل کی بعد میں انھوں نے ایم پی اے کی سیٹ چھوڑ دی جو بعد میں میاں منظور احمد خاں وٹو کے بیٹے میاں خرم جہانگیر وٹو نے جیتی ، اس حلقہ میں پہلے میاںےٰسین وٹو مرحوم جو پاکستان کے وزیر خزانہ بھی رہے میاں منظور وٹو کے حریف ہوتے تھے۔میاں معین خاں وٹو کو حلقہ پی پی 188 میں پاکستان مسلم لیگ ن میاں فتخار حسین چھچھرایم پی اے کی سپورٹ حاصل رہی ہے ۔ میاں افتخار حسین چھچھر بھی اپنے علاقہ کی عوام اور ان کی خوشحالی کے لئے کسی بھی وقت ان کو بھولتے نہیں اور ہر سطح پر اپنے علاقے کے لوگوں کے مسائل اور ترقی کیلئے کوشش میں رہتے ہیں ۔رائو محمد اجمل خاں کو دو بڑے سیاستدان جن میں سدا بہار ایم پی اے سابق ملک محمد عباس کھوکھر کے بیٹے ملک علی عباس کھوکھر نے فل سپورٹ کیا اور خود بھی ایم پی اے ن لیگ منتخب ہوئے اور بھاری اکثریت سے رائو محمد اجمل خاں کو بھی سپورٹ کیا۔ملک محمد عباس کھوکھر علاقہ کے سینئر سیاستدان ہیں اور حلقہ پی پی 192 میں جس کو بھی سپورٹ کرتے ہیں وہ ایم این اے منتخب ہو جاتا ہے۔
Rao Mohammad Ajmal
اس سے پہلے ملک محمد عباس کھوکھر کا پینل میاں منظور وٹو کے ساتھ بھی رہا ۔ملک محمد عباس سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں ۔اس لئے علاقہ کی عوام ہر الیکشن میں ان کا ساتھ دیتے ہیں ۔د وسری طرف ان کے ساتھ سید فیملی کے سپوت ایم پی اے ن لیگ سید رضا علی گیلانی جو سیاست میں ایک مقام رکھتے ہیں انھوں نے رائو محمد اجمل کا بھر پور ساتھ دیا اور ان کو کامیابی سے ہمکنار کروایا۔ یہ تھے موجودہ نمائندے جو ایوانوں میں اپنے علاقہ کی عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں ۔ مگر افسوس کے کہ یہ نمائندے صرف الیکشن تک ہی عوام کے ساتھ ہوتے ہیں اس کے بعد یا تو پھر بڑے بڑے شہروں کا رخ کر لیتے ہیں یا پھر ایوانوں کی دیواروں میں چھپ جاتے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے ہمارے علاقہ کے بڑے بڑے سیاستدان جواسمبلی ہالوں میں بیٹھ کر اپنے علاقے کے لوگوں کی نمائندگی کر رہے ہیں وہ اس بڑی تحصیل کو ضلع کا درجہ دلوانے میں ناکام رہے ہیں۔اور کسانوں کو ان کا حق دلوانے کے لئے بھی انہوں نے کوئی کوشش نہیں کی اورنہ ہی موجودہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کوئی خاص ترقیاتی منصوبے اپنے علاقہ کے لئے منظور کر وا سکے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ نمائندے اپنی عوام کے ساتھ مخلص نہیں ہیں ۔
ان کے علاوہ سابق بہت سے ایم این ایز ،ایم پی ایز ہیں جنھوں نے اپنے علاقہ کی نمائندگی اور ان کی آواز ایوانوں تک پہنچائی ان میں سینئر رہنما مسلم لیگ ن میاں شریف ظفر جوئیہ سابق ایم این اے ،چوہدری شاہد نواز سابق ایم پی اے، ملک محمد عباس کھوکھر سدا بہار سابق ایم پی اے، ملک نذر فرید کھوکھرایم پی اے،مرزا علی رضا بیگ ایم پی اے ، اخلاق دیوان ایم پی اے ،رائو قیصر علی خاں ایم این اے ،رائو صفدر علی خاں ایم پی اے ،میاں محمد شفیع ڈولہ ایم پی اے جیسے عوامی نمائندے جنھوں نے اپنے علاقہ کے لوگوں کی آوازکوایوانوں میں بلند کیا۔
تحصیل دیپال پور میں ہر دور میں نئے اور پرانے چہرے عوام کے سامنے آتے رہے ہیں اب بہت سے نئے چہرے عوامی خدمت کے لئے سیاست کے میدان میں آرہے ہیں ۔جن میں چند نام قارئین کی خدمت میں ۔چوہدری طارق ارشاد رہنما تحریک انصاف،سید عباس رضا رضوی رہنما تحریک انصاف،سید علی حسنین گیلانی رہنما تحریک انصاف، پروفیسر میاں عبدالروف ڈولہ، میاں ثناء اللہ ڈولہ رہنما ن لیگ ، سردار شہر یار موکل رہنما ق مسلم لیگ ،سبطین خاں بھٹی،ملک غلام نبی کھوکھر رہنما تحریک انصاف،میاں محمد فضل جتالہ،نقی علی گیلانی رہنما مسلم لیگ ن ،یہ وہ نام ہیں جو آئندہ آنے والے الیکشن میں اپنے اپنے علاقہ کے عوام کی پنجاب اسمبلی اور نیشنل اسمبلی کے ایوانوںمیں نمائندگی کرنے کے لئے تیار ہیں ۔جو آئندہ الیکشن میں موجودہ حکومتی نمائندوں کا مقابلہ کریں گے ۔اور اپنی عوامی خدمت کو ثابت کریں گے ۔حلقہ پی پی 192کے عوام کے لئے ایک بہت ہی اچھی خبر یہ ہے کہ اس علاقہ میں ایک نہایت ہی اچھے اور قابل بے باک کردار کے مالک عوامی نمائندے کا اضافہ ہوا ہے جن کا نام ڈاکٹر محمد امجد وحید ڈولہ ہے جو علاقہ میں ایک الگ مقام رکھتے ہیں ڈاکٹر امجدوحید ڈولہ اس وقت تحریک انصاف کے رہنما ہیں ۔ اور آئندہ آنے والے الیکشن میں اپنے حریف کو ٹف ٹائم دیں گے ۔تحصیل دیپال پور کی زمین جتنی زرخیز ہے اسی طرح اس تحصیل کے لوگ بھی محبت کرنے والے ہیں۔
ہمیشہ بھائی چارہ کو ترجیح دیتے ہیں ۔ دوستوں کے دوست ہیں ۔وہ اپنے نمائندوں کو بہت ٹائم دیتے ہیں ۔اس تحصیل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے لوگ بہت ہی محنتی اور مخلص ہیں ۔اور ہر الیکشن میں ایک نئی خبر عوام کو سننے کو ملتی ہے ۔ اب عوام میں شعور اور آگاہی آ گئی ہے کہ کس کو اپنا لیڈر منتخب کرنا ہے۔ اس لئے اب اگر کسی نے عوام کے ساتھ نارواسلوک کیا تو عوام بھی اس کو اسی طرح کا جواب دے گی ۔ اگر عوام کے جذبوں اور محبت کو سمجھنا ہے توان کے دکھ درد میں خوشی غمی میں ان کاساتھ دینا ہو گا ان کو ظلم سے بچانا ہو گا اور ان کو انصاف دلوانا ہو گا اور عوام کے ساتھ دن گزارنے ہوں گے اور اپنے علاقہ کی عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف مہیا کروانے کے لئے جدوجہد کرنی ہو گی۔ اس میں ہی سب کی کامیابی ہے۔ اگر سیاست کو عبادت سمجھ کر کروگے تو عزت پائو گے۔