تحریر : طارق حسین بٹ شان ١٦ دسمبر ٢٠١٤ کو آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد پورا پاکستان دہل گیا تھا اور حکومت سے کسی بڑے فیصلے کی امید لگائے ہوئے تھا۔ننھے منوں بچوں کے پھول جیسے بدن کسی بڑے فیصلے کی کی بنیاد بننے والے تھے اور شہید ہونے والے ننھے منھے فرشوں کا لہو پکار پکار کر دھشت گردوں کے قلع قمع کی دہائی دے رہا تھا۔یہ ایک ایسا دن تھا جب ہر آنکھ اشک بار تھی اورننھے منھے فرشتے ہر گھر کے آنگن میں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے۔ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے پاکستان میں ١٦ دسمبر کا دن ایک ایسا دن تھا جس نے ہر پاکستانی کے دل میں انتقام کا خنجر پیوست کر دیاتھا اورماں کی ممتا شہیدوں کے لہو سے تڑپ اٹھی تھی۔قوم اس دن کا بدلہ چاہتی تھی اور دھشت گروں کے خون سے ان دھرتی کو رنگین دیکھنا چاہتی تھی۔وہ ان کا خاتمہ بھی چاہتی تھی اور ان کے لہو سے ان داغو ں کو دھونے کی آرزو مندبھی تھی جس کے ڈانڈے اس سفاکیت سے مل جاتے تھے جو ننھے منھے بچوں کے قتل پر منتج ہوئے تھے۔
یہی تھا وہ پسِ منظر جس میں جنرل راحیل شریف نے ضربِ عضب کا اعلان کیا تھا اور دھشت گردوں کو چن چن کر کیفرِ کردار تک پہنچایا تھا ۔اس کی ذات کے اندر دھشت گردوں سے نبرد آزما ہونے کا جو جذبہ تھا اس نے پورے ملک کو امن کا تحفہ دیا تھا۔ اس کی ذات دھشت گردوں کیلئے ایک ڈرائونا خواب تھی لہذا جہاں جہاں دھشت گرد تھا وہاں وہاں جنرل راحیل شریف تھااور ان کی سرکوبی اس کی پہلی ترجیح تھی۔جنرل راحیل شریف کی رخصتی کے بعد دھشت گردوں کے حو صلے اتنے بلند ہو چکے ہیں کہ ایک ہفتے کے اندر پانچ حملے ہو چکے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے قوم ایک دفعہ پھر دھشت گردی کا شکار ہو چکی ہے۔کچھ انسان اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں اور ان کاکوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ ہم اپنی کم علمی کی بنا پر انھیں وہ مقام دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں لیکن یہ وقت ہوتاہے جو ہر انسان کے مقام کا تعین خود بخود کر دیتا ہے ۔ کہاں ضربِ عضب سے ڈر کر بھاگنے والے دھشت گرد اپنی اپنی کمین گاہوں میں دبک گئے تھے اور کہاں اب جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد شیروں کی مانند نہتے شہریوں کا شکار کرنے کیلئے اپنی کمین گاہوں سے باہر نکل آئے ہیںکیونکہ اب انھیں کسی ایسے انسان کا خوف نہیں ہے جو ان کے سروں پر لٹکتی ہوئی تلوار تھا۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ فوجی شہیدوں کے خلاف ہر کاروائی کے بعد جنرل راحیل شریف پلک جھپکنے سے پہلے متاثرہ جگہ پر پہنچ جاتے تھے اور اپنے جوانوں کو نیا حوصلہ اور عزم عطا کرتے تھے۔یہی تھے وہ وہ اعمال و افعال جس نے جنرل راحیل شریف کو پاکستان کی سب سے مقبول شخصیت بنا دیا تھا۔ایک ایسی فوج جو جنرل پرویز مشرف کے سیاسی اقدامات کی وجہ سے اپنی اہمیت کھو چکی ہو اسے ایک ایسے ادارے میں بدل دینا جس پر پوری قوم ایک دفعہ پھر فخر کرنے لگ جائے کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا۔یہ صلہ تھا اس عزم کا جسے جنرل راحیل شریف نے اپنے کردار سے رقم کیا تھا۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس زمانے میں جنرل راحیل شریف کی عیدیں،اہم قومی دن اور قومی تہوار اپنے جوانوں کے درمیان گزرتے تھے۔فوجی جوان انھیں دیکھ کر شہادت کے جذبوں سے لبریز ہو جاتے تھے، وطن کی حرمت پر کٹ مرنے کے جذبات ایک نئی جولانی حاصل تے تھے،وہ دھشت گردوں کے سامنے آہنی دیوار بن جاتے تھے اور جوانوں کی یہی بے خوفی دھشت گردوں کی موت تھی لیکن اب وہ صورتِ حال نہیں ہے۔اب دھشت گردوں کوخوف زدہ کرنے کی بجائے قوم خود دھشت گردوں سے خوفزدہ ہورہی ہے۔سوال یہ نہیں ہے کہ جنرل قمر جاوید با جوہ دھشت گردی کی اس فضا سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں یا کہ نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا وہ جنرل راحیل شریف کی چھوڑی ہوئی میراث کو اسی انداز میں آگے بڑھا سکتے ہیں یا کہ نہیں؟جنرل راحیل شریف نے جو معیار قائم کر دیا ہے اس تک تو شائد کوئی دوسرا جنرل نہ پہنچ پائے لیکن اتنا تو ضرور ہو سکتا ہے کہ اس کی متعین کردہ راہ پر عمل پیرا ہو کر ایک دفعہ پھر دھشت گردوں کو نیست و نابود کرنے کا عمل دہرایا جائے جو قوم کی آواز بھی ہے، قومی فریضہ بھی ہے اور جس میں پاکستان کا استحکام،اس کی ترقی ،اس کا امن اور اس کی خوشخالی پنہاں ہے۔،۔
دھشت گردی کی حالیہ کاروائیوں کے ڈانڈے اس روسی جارحیت سے ملتے ہیں جسے ١٩٧٩ میں روسی حکومت نے افغانستان پر قبضے کی خاطر اٹھا یا تھا۔روس اس وقت دنیا کی سپر پاور تصور ہوتا تھا لہذا اسے یقین تھا کہ بے سرو سامان افغانی اس کی فوجی قوت کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوں گئے اور وہ گر م پانیوں تک رسائی حاصل کر کے مشرقِ وسطی تک اپنی حاکمیت قائم کر لے گا لیکن امریکہ پاکستان اور مغربی ممالک کو روس کی اس نئی حکمتِ عملی سے شدید اختلاف تھا۔بھلا کوئی اپنا شکار کسی دوسرے شکاری کو کرنے کی اجازت دیتا ہے جو امریکہ اور مغرب ایسا کرتے ۔افغانیوں کو روسی جارحیت سے بچانے کیلئے امریکہ ، پاکستان،سعودی عرب اور مغرب کا ایک نیا اتحاد وجود میں آیا جس نے روس کے سارے خواب چکنا چور کر دئے۔
مجاہدین کی ایک نئی کھیپ تیار کی گئی جس نے روسی جارحیت کے سامنے آہنی دیوار کھڑی کر دی ۔ روسی جارحیت کے خلاف جذبہِ شہادت سے مغلوب افغانی اپنے لہو سے حریت کی نئی داستان رقم کرنے لگے جس سے افغانی سرزمین پر روسی افواج کے قدم ڈگمگا نے لگے ۔١٩٨٨ میں روسی افواج کو افغانستان سے اپنا بستر بوریا گول کرنا پڑا اور یوں افغانستان میں طویل جنگ اپنے اختتام کو پہنچی ۔روس جس منزل کو آسان ہدف سمجھ کر میدان میں اترا تھا اس نے اس کی اپنی مملکت کے حصے بخرے کر دئے۔یونین سوشلست سویت روس( یو ایس ایس آر) اسی جارحیت کے نتیجے میں دنیا کے نقشے سے معدوم ہو گیا اور کئی اسلامی ریاستیں روس کے استبدادی شکنجہ سے آزاد ہو گئیں۔س وقت تک دھشت گردی کا کہیں نام و نشان نہیں تھا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ روس اس وقت بھی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے لیکن عالمی فیصلے کرنے کی اس کی قوت سلب ہو چکی ہے جس کی واحد وجہ افغانی ہیں۔،۔
روسی جارحیت کے بعد افغانستان کئی سالوں تک آگ اور خون میں لت پت رہا لیکن بالآخر امن سے ہمکنار ہو گیا۔مجاہدین کی اپنی حکومت قائم ہو گئی لیکن عالمی طاقتوں کی باہمی رسہ کشی اور مجاہدین کی اقتدار کی ہوس نے افغانستان کو ایک دفعہ پھر خانہ جنگی کے حوالے کر دیا لیکن یہ خانہ جنگی کسی بیرونی جارحیت کے خلاف نہیں بلکہ اندرونی خلفشار کا شاخسانہ تھی۔یہ تھی وہ فضا جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران تازہ دم نوجوان اور باہمت قیادت کے زیرِ اثر طالبان کا ظہور ہواجس نے دیکھتے ہی دیکھتے کابل پر قبضہ کر کے زمامِ اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لی۔اس وقت کسے خبر تھی کہ اپنے ہاتھوں سے قائم کردہ طالبان کا یہ گروہ پاکستان کیلئے وبالِ جان بن جائیگا۔
طالبان کے ظہور کے ساتھ ہی بادشاہت،قبائلی اور گروہی سیاست کا خاتمہ ہو گیا اور افغانستان دنیا بھر میں ایک نئے انقلاب کا نقیب بن کر ابھرا۔روس جیسی طاقت کو شکست دینے کے بعد طالبان نے اپنی فتح کے نشے میں اپنی حدود سے تجاوز کرنا شروع کر دیا اور اس انقلاب کو اپنے پڑوسی ممالک پر ٹھونسنا شروع کر دیا جس سے عالمی امن کو خطرات لا حق ہونا شروع ہو گئے اور پاکستانی سوسائٹی انتشار کا شکار ہو گئی۔ ابھی یہ کشمکش جاری تھی کہ نائن الیون کو امریکہ میں ٹوین ٹاور پر حملے نے پوری دنیا کا منظر نامہ بدل دیا اور امریکہ نے اپنے کل کے حلیف افغانستان پر چڑھائی کر دی اور پھر دھشت گردی کی وہ جنگ شروع ہوئی جس نے دنیا بھر کے امن کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ۔افغانستان کا پڑوسی ہونے کہ جہت سے دھشت گردی کی یہ آگ پاکستان تک پھیل گئی ۔ اب امریکہ اس کرہِ ارض کی واحد سپر پاور ہے اور وہی اقوامِ عالم کے فیصلے کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔وہ بھار ت اسرا ئیلی گٹھ جوڑ سے ہمارے خلاف دھشت گردی کو پروان چڑھا رہا ہے جو عالمی سطح پر ہماری بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔،۔