تحریر : شیخ خالد زاہد برِصغیر پر انگریزوں کی حکمرانی کے بہت سارے اثرات آج تک موجود ہیں۔ جنکی فہرست مرتب کی جائے تو سب سے اول نمبر پر غلام سوچ اور دوئم پر کرکٹ کو لکھا جاسکتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں ایک طویل عرصہ گزرنے کہ باوجود برِصغیر میں میں بسنے والوں کے ذہنوں سے نہیں نکل سکیں ہیں بلکہ اور پختہ ہوتی چلی گئیں ہیں۔ سوچ کی غلامی نے اس خطے میں بسنے والوں کے حالات میں بہتری نہیں آنے دی۔ لکیر کے فقیر بنے کتنے ہی اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے اور باقی اسی انتظار میں اپنا وقت پورا کر رہے ہیں۔ شکست ایک ایسا دکھ ہے جسکو برداشت کرنا اور اس سے سبق سیکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں یا قدرت یہ صلاحیت ہر کسی کو نہیں دیتی۔ بچے جب کسی کھیل میں ہار نے والے ہوتے ہیں یا ہا رجاتے ہیں تو کسی بات کا بہانہ بنا کر لڑنا شروع کردیتے ہیں اور کھیل کو ادھورا چھوڑنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور پھر ہار کسی ایسے کی جانب پیش قدمی کر رہی ہو یا کر چکی ہو جو اپنے آپ کو اس کھیل میں بہت بڑا ترم خان سمجھتا ہوتو اس کی تلملاہٹ تو قابلِ دید ہوتی ہے۔ ایسے میں جہاں دیدہ بڑے سوائے سارے ماحول سے لطف اندوز ہونے کے اور کچھ نہیں کرتے اور نا ہی کرنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کھیل کھیل ہی ہوتا ہے اور ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتی ہے۔
کرکٹ کی چیمپینز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی عبرت ناک شکست سے دنیا جہان میں بسنے والے پاکستانی اور کرکٹ کو کھیل سمجھ کر اسے پسند کرنے والے بہت لطف اندوز ہوئے مگر دوسری جانب تو جیسے صفے ماتم بچھ گئی جیسے رات ہونے سے پہلے ہی بھارت نے سیاہ چادر اوڑھ لی ۔ اپنے منہ میاں مٹھو بننے والے بڑے بڑے تجزیہ نگار منہ کی کھا کر رہ گئے ان کا سمجھنا تو ایسا تھا کہ یہ فائنل تو بس بطور خانہ پوری ہے جیت تو بھارت کو ملنی ہے کیوں کہ انکے پاس بہت بڑے بڑے کھلاڑی ہیں۔مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ جنگیں اسلحے سے نہیں جذبوں سے لڑیں جاتی ہیں اور پاکستان کا ایک ایک کھلاڑی سرحد پر کھڑے فوجی سے کم نہیں ہے۔ساری دنیا جانتی ہے کہ پاک بھارت سرحد پر کی جانے والی بھارتی دراندازی کا جواب کس طرح سے دیا جاتا ہے ۔بھارت فائنل ہار گیا، بھارتیوں نے ماتم بھی کئے اور اپنے بڑے بڑے کھلاڑیوں کو دہائیاں بھی خوب دیں۔
اس ہار کا جہاں بھارت کی عام عوام پر بہت گہرا اثر ہوا وہیں بھارتی خواص بھی یہ تہلکہ نہیں جھیل سکے۔ اب کھیل پر تو کسی قسم کی تنقید یا کچھ اور کر نہیں سکتے تھے توبھارتی وزیرِاعظم اپنا سیاسی دباؤ ڈالنے کی کوشش میں اپنے بڑوں کے پاس جا پہنچے اور اپنی ہار کا دکھڑارو رو کر سنایاہوگااور اتنے بڑے صدمے کاسدِ باب کرنے کی استدعا ہاتھ جوڑ جوڑ کر کی ہوگی۔ انکے بڑوں نے داد رسی کی، جو ہیں تو سب کے ہی بڑے مگر بھارت کو اپنا بہت ہی مخلص دوست سمجھتے ہیں اور دنیا کہ سامنے ظاہر بھی کرتے ہیں۔ بھارت ہمارے خطے میں وہ کردار ادا کرنے کا خواہش مند رہا ہے جو امریکہ پوری دنیا میں کر رہا ہے۔
بھارت کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ افغانستان اور دیگر ممالک میں طبعی طور پر اپنی موجودگی کو یقینی بنائے ہوئے ہے اور جنوبی ایشیا ء میں عدم توازن کی فضاء قائم کرنے کی کوششیں ہوتی ہی رہتی ہیں۔ امریکہ نے ہمیشہ یک طرفہ فیصلہ کیا ہے اس بار بھی کشمیریوں کے رہنما سید صلاح الدین پر پابندی لگاکر بھارت سے اپنی مخلصانہ تعلقات کا پیغام ساری دنیا تک اور خصوصی طور پر پاکستان کو پہنچادیا۔امریکہ نے کشمیریوں پر ہونے والے بھارتی مظالم کو یکسر نظر انداز کردیا اور آزادی کی تحریک کو دبانے او رنہتے کشمیریوں کے قتل و غارت گری کرتے بھارتی فوجی نظر نہیں آرہے۔ ان مخلص دوستوں نے اسلامی دہشتگردی کو ختم کرنے کی بھی بات کی اور بھرپور اتفاق اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا بھی عہد کیا۔ اسلام کو دہشت گرد کہہ دینا کوئی نئی بات تو رہی نہیں مگر یہ جو کچھ انگلستان میں ہوا جو ایک ٹرک ڈرائیور نے مسجد سے نکلنے والے زندہ مسلمانوں پر ٹرک چڑھا دیا اور پھر دوبارہ اسی طرح کے واقعے کی کوشش کی گئی۔
اسے کون سی دہشت گردی کہینگے اور بھارت جو سرحدوں پر آئے دن معصوم عورتوں اور بچوں پر گولہ باری کرتا ہے اسے کون سی دہشت گردی کہینگے۔ آمریکہ اور بھارت کو یہ بات بہت اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہئے کے کشمیریوں کو انکی آزادی کی تحریک چلانے سے کوئی نہیں روک سکتا یہ تو وہ لوگ ہیں جو اپنی جان ہتھیلی پر لے کر پیدا ہوتے ہیں اور جیسے ہی چلنا شروع کرتے ہیں بھارتی فوجیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارتے ہیں۔ بھارت، آمریکہ یا اسرائیل پاکستان سے اسقدر خوفزدہ ہیں کہ پاکستان کی کوئی بھی خوشی برداشت ہی نہیں کر پاتے اور کسی نا کسی طرح ہمیں نقصان پہنچاتے ہی رہتے ہیں۔
بھارت ایک کھیل کی شکست کو لے کر اتنا پریشان ہوجائے گا ہمیں اس کا اندازہ نہیں تھا ۔ دراصل یہ ایک شکست نہیں ہے بھارت کو بیک وقت پاکستان کے ساتھ کھولے ہوئے ہر محاذ پر ہی شکست کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ بھارتی وزیرِاعظم اپنی داخلی اور خارجی ناکامیوں کو پاکستان پر الزام لگا اپنی سیاست کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں ایک شکست خوردہ وزیرِاعظم سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ مگر الزام الزام ہی ہوتا ہے اور حقیقت حیققت آپ کو کرکٹ کے میدان میں جو شکست ہوئی ہے وہ ساری دنیا دیکھ چکی ہے اور بھارت کیسے رویا ہے یہ بھی ساری دنیا نے سماجی میڈیا کی مرہونِ منت دیکھ لیا ہے۔