کراچی: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ڈیفینس آف ہیومن رائٹس پاکستان (ڈی ایچ آر پاکستان) کے مرکزی نمایندوں محمد فرقان اور وقاص زاہد نے کراچی کا تنظیمی دورہ کیا۔ دورہ کا مقصد ڈی ایچ آر صوبہ سندھ برانچ کی کارکردگی کا جایزہ لینے کے ساتھ ساتھ شہر کی اہم سماجی اور سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کرنا تھا تاکہ لاپتہ افراد کی تحریک کے لیے رائے عامہ کو ہموار کیا جاسکے۔ یہ دورہ اس لیے بھی اہم تھا کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے جاری آپریشن نے جہاں کسی حد تک کراچی کے حالات کو درست سمت میں لے جانے کی کوشش کی ہے وہیں شہر میں جبری گمشدگیوں کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے سائنسی تفتیش کی بجائے لوگوں کو خفیہ عقوبات خانوں میں تشدد کے ذریعے اقبال جرم کروانے کو کہیں آسان سمجھتے ہیں۔
اس کے علاوہ جعلی کارکردگی دکھانے کے لیے لوگوں کو مقدمات میں پھنسانا بھی ایک روایت بن چکا ہے۔ جس کی ایک مثال ڈی ایچ آر کے فیصل آباد ریجن کے صدر محترم مظہر اسلام ہیں جن کو تین ماہ پہلے فیصل آباد سے لاپتہ کر دیا گیا اور پھر کراچی لے جا کر جھوٹے مقدمہ میں ملوث کر دیا گیا۔ اس حوالے سے ڈی ایچ آر کے نمایندوں نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے ملاقات کی اور عافیہ موومنٹ اور لاپتہ افراد کی بازیابی تحریک کے باہمی تعاون کے بارے گفتگو کی۔ وفد نے جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر ادارہ نور حق کا بھی دورہ کیا جہاں جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے ان کا استقبال کیاـ
دوران گفتگو حافظ نعیم الرحمٰن نے محترمہ آمنہ جنجوعہ کی سربراہی میں جاری لاپتہ افراد کی تحریک کو سراہا اور کہا کہ وہ ہر طرح سے آمنہ باجی کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔ اس کے علاوہ ڈی ایچ آر کے وفد نے کراچی کے متعدد وکلا سے بھی ملاقات کی جن میں فوجداری مقدمات کے ماہر اڈووکیٹ ناصر سرفہرست تھے۔