تحریر : محمد اشرف آصف جلالی دفاع پاکستان ہم پر فرض ہی نہیں، قرض بھی ہے ۔ تحریکِ آزادی بیس لاکھ شہیدوں کا قرض، مجاہدوں کا قرض غازیوں کا قرض ،بزرگوں کا قرض جوانوں کا قرض ،ماؤں کا قرض ،بہنوں کا قرض ،بیٹیوں کا قرض ،بچوں کا قرض ،جن کی جدوجہد کا نتیجہ پاکستان کی صورت میں صفحہ ہستی پر نقش ہوا ۔14 اگست یومِ آزادی کی تقریبات کا انعقاد کرتے ہوئے ہمیں سب سے پہلے پیارے پاکستان کے وجود میں پاکستانیت کی روح کی دیکھ بھال کرنا ضروری ہے جس کے بغیر دفاعِ وطن کا فریضہ سر انجام نہیں دیا جا سکتا۔ آج غیروں کے فکری فیڈرز پر جوان ہونے والی نسل کو اور غیروں کے سانچوں میں ڈھلے نصاب تعلیم پڑھنے والوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ آزادی کی منزل کا راستہ کتنی شہادت گاہوں سے گزر کر آتا ہے؟ آج یو مِ آزادی کو بھنگڑے ڈال کر، باجے بجا کر، میوزکل شو سجا کر گزارنے والی قوم کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اس مادر وطن کے لیے کتنے بدن کٹے اور کتنے کفن سجے ؟آزادی آزادی کا راگ الاپنے والوں کو یہ پتا ہو نا چاہیے کہ کس کس کی غلامی کے شکنجے سے رہائی کے لیے کن کن راہوں سے تین صدیوں کی آبلہ پائی کے بعد صبح آزادی میسر آئیتاکہ وہ اکھنڈ بھارت، مغربی افکار اور لبرل سوچ کی گلیوں کے دلفریب نظاروں میں مست ہو کر کہیں پھر غلامی کے پھندوں تک نہ جا پہنچیں۔ آج اہل پاکستان کو اس پاکستانیت کا نصاب پڑھنا ضروری ہے جس پر ماؤں نے بیٹے اور بہنوں نے بھائی وارتے ہوئے اور دین حق کے لیے گھر بار چھوڑتے ہوئے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کردی۔ہاں پاکستان کی پاکستانیت وہ نظریہ پاکستان ہے جسے دو قومی نظریہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
بانی پاکستان نے اس وقت کہا تھا کہ” اسلام اور ہندودھرم محض دو مذہب ہی نہیں بلکہ در حقیقت دو مختلف معاشرتی نظام ہیں چنانچہ اس خواہش کو خواب و خیال ہی کہنا چاہیے کہ ہندو اور مسلمان ملکر ایک مشترکہ قومیت کی تشکیل کر سکیںبلکہ یہ دو مختلف تہذیبوںسے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں” آج اڑسٹھ(68) سال گزرنے کے بعد ہم پاکستان کی پاکستانیت کو ملاحظہ کریں تو ہمیں کئی تلخیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب لوگ مادر وطن کو کرائے کا مکان سمجھیں تو جذبہ حب الوطنی کیسے اجاگر ہو گا؟ جب عرف عام میں دغا بازی ،نا انصافی ،کرپشن ،لوٹ مار ،لاقانونیت، بد نظمی اور بد انتظامی کو پاکستانیت کہا جائے پھر پاکستانی ہونے کا معنی و مفہوم کس ڈکشنری سے معلوم ہو گا؟ اوراگر پاکستانی ہونا غفلت ،کام چوری ،دہشت گردی اور گھٹیا پن کا استعارہ ہو تو ارض وطن کا تقدس پیچھے کیا رہ جائے گا؟کسی بھی شئی کی آئیڈیالوجی اس کی بقاء کی ضمانت ہوتی ہے کسی شی کا نظریہ ہی اس کی حقیقی شناخت اور تعارف قرار پاتاہے پاکستان شناسی کے لیے نظریہ پاکستان کا ادراک ضروری ہے پاکستان کی نشوونما اور ترقی کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کی ترقی کا راز کیا ہے پاکستان کو تمام تر خطرات سے بچانے سے پہلے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ پاکستان کی حقیقت کیا ہے؟ اور اسے کس چیز سے خطرہ ہے۔
پاکستان کو تمام بیماریوں سے بچانے کے لیے ضروری ہے معلوم کیا جائے پاکستان کا مزاج کیاہے اوراس کی بیماریاں کیا ہیں؟بہت سے لوگوں کا یہ نعرہ ہے کہ ہم پاکستان میں لگی ہوئی آگ بجھانا چاہتے ہیں لیکن ان کے رویے کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کا کردار آگ بجھانا نہیں ہے بلکہ آگ لگانا ہے بہت سے لوگ صدا دیتے ہوئے نظر آتے ہیںکہ ہم پاکستان کی بیماریوں کا علاج کرنا چاہتے ہیں۔ مگر غور سے دیکھا جائے تو ان کی سوچ پاکستان کے لیے روگ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اصل میںبات یہ ہے کہ پاکستان کی خوشحالی کے کچھ دعویدار پاکستان کی بیماریوں کے علاج کے لیے اسی میڈیکل سٹور سے دوا لینا چاہتے ہیں جہاں سے امریکا اور برطانیہ لیتے ہیں مگرایسے حضرات کو معلوم نہیں کہ ہمارا اور غیروںکا جب بیماری کی تعریف میںہی اتفاق نہیںعلاج ایک جیساکیسے ہو گا؟مغرب اپنے ماحول کے لیے جن امور کو صحت مند سرگرمیاں قرار دے رہا ہے۔
Pakistani Culture
ہمارے نزدیک وہ عریانی، فحاشی اور بے حیائی ہے، دوسرے لوگ جس بیہودگی کو کلچر اور ثقافت قرار دے رہے ہیں ہمارے نزدیک وہ گڑبڑ اور خباثت ہے، جب مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب میں اتنا فرق ہے جسے وہ صحت کہتے ہیں ہم اسے بیماری سمجھتے ہیں تو ہرگز علاج ایک نہیں ہے یہ ہی وہ غلط فہمی ہے جس کا شکار وہ لوگ ہو چکے ہیں جو آج پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانے کے درپے ہیں ہمارے نزدیک ملت اورجمعیت کا معیار اورہے جبکہ دوسرے لوگوں کی سوچ اور ہے۔ علامہ محمد اقبال کہتے ہیں : اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری
آج پاکستان میں جتنے بھی مسائل پیدا ہو چکے ہیں یہ تمام مسائل نظریۂ پاکستان سے دوری کی بنیاد پر ہیں، پاکستان کے لیے نظریۂ پاکستان اس سے زیادہ ضروری ہے جتنا مچھلی کے لیے پانی ضروری ہے، ظاہر ہے جب مچھلی کو پانی نہیں ملے گا تو مچھلی تڑپتی رہے گی اور بالآخر اپنی جان دیدے گی، آج کی مادہ پرست سوچ،لبرل نظریات، نام نہاد روشن خیالی اور غیر ملکی مداخلت کی وجہ سے دن بدن پاکستان اور نظریہ پاکستان کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے پاکستان کے استحکام کے لیے پاکستان کا اپنے نظریہ کے ساتھ رہنا ازحد ضروری ہے اس مقصدِ عظیم کے لیے نظریۂ پاکستان کو درست ماننااور پاکستان اور اس کے نظریہ کی یکجائی کا اہتمام بہت ضروری ہے۔
لیکن افسوس یہ ہے کہ اگر پاکستان کے خدودخال کو دیکھا جائے توپاکستان کے روپ میں اس کا نظریہ بہت کم نظر آتا ہے، پاکستان کے پیش منظر میں سب سے پہلے نظر آنے والے اس کے حکمران ہیں۔ جب پاکستان کے حکمران امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کے اشارۂ ابرو کے منتظر ہوںاور ان کی خواہشات کی تکمیل کے لیے سرگرداں نظر آئیں تو پاکستان کی اپنے نظریہ سے رفاقت کیسے رہے گی۔ جب پاکستان کی نہایت مقدس پارلیمان کا کردار پارلیمنٹ لاجز کی لاج نہ رکھ سکے اور وہاں بر سرِ عام شراب و شباب کا دھندا کیا جاتا ہو توپاکستان کے ہر گلی کوچے کے تقدس کی لاج کون رکھے گا ؟جہاں کرپشن ہی کرپشن، فراڈ ہی فراڈ، سکینڈل ہی سکینڈل ہوں جہاں آذانوں کی آوازیں دبا دی جائیں اور گانوں کی آوازیں بڑھا دی جائیں ، عریانی و فحاشی حیا سوز پروگراموں کی حوصلہ افزائی ہو ، اسلامی اور روحانی اقدار فروغ دینے والوں سے لڑائی ہو ، جہاں بر سرِ عام جھوٹ کا دھندا ہو اور سچائی کا مندا ہو جہاں سیاست ملک و قوم کی خدمت کی بجائے کاروبار بن جائے، اقتدار بیوپار بن جائے، جہاں رہزن رہبری کے بھیس میں ہوںاور قومی نمائندگان خود ہی بڑے سے بڑے کیس میں ہوں جہاں نجات دہندے ہی نادہندے ہوں وہاں پاکستانیت کا دفا ع کیسے ہوسکے گا۔
Pakistan
جس دیس کے ”مخصوص مفتیوں” کا قوم کے اربوں روپے ہضم کرنے کا ” مضاریہ سکینڈل ”زبان زد خلق ہو اس دیس کے باسیوںکی اداسیاں کیسے دور ہوں گی ؟جس پاکستان کے قیام کے وقت”ملت از وطن است” کہہ کر مخالفت کرنے والے اکھنڈ بھارت مزاج کو مراعات سے یوں نوازا جائے کہ وہ اکڑ کر آئین پاکستان کی ایک شق بھی اسلام کے مطابق تسلیم نہ کر ے اور پھر مذکرات کے نام پر اس کی ناز برداری کی جائے وہاں نظریۂ پاکستان کا پرسانِ حال کون ہوگا؟جب لوگ اپنے ماضی کو بھول کر محض نظریۂ ضرورت کے تحت نظریہ پاکستان ریلیاں منعقد کرنے لگیں تو قوم میں نظریاتی پختگی اور وطن سے غیر مشروط وابستگی کیسے آئے گی ؟آئیے اپنے نظرئیے سے بچھڑتے ہوئے پاکستان کو اس کے نظریے کے ساتھ یکجا رکھنے کے لیے پاکستان کا ساتھ دیں،اسے بے گناہ مسلمانوں کا خون کرنے والے امریکی ڈرون سے بھی بچائیں اور اسے شریعت کے نام پر مارے گئے شب خون سے بھی بچائیں، 20 لاکھ شہیدوں کے خون سے بننے والی اس مسجد کو نام نہاد روشن خیالی کا مندر بننے سے بھی بچائیں اور اسے بندوق و بارود کا مورچہ بننے سے بھی بچائیں۔
اسے لسانی اور علاقائی تعصبات سے بھی بچائیں اور اسے سامراج کی پیدا کردہ مشکلات سے بھی بچائیں۔اسے انگریزکے وفادار موروثی سیاستدانوںسے بھی بچائیں اور اسے کانگریسی سوچ کے حامل مذہبی پنڈتوں سے بھی بچائیں، اسے بیورو کریسی کی میلی نگاہوں سے بھی بچائیں اور ڈپلو میسی کی پھر تیلی اداؤں سے بھی بچائیں، اس سلسلہ میں قرآن مجید ہماری رہنمائی کر رہا ہے :الَّذِینَ ِنْ مَکَّنَّاہُمْ فِی الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآَتَوُا الزَّکَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ] سورة الحج رقم الآیة 41 [ ”وہ لوگ اگر ہم انہیں زمین میںکنٹرول دیں تو نماز قائم رکھیں اور زکوة دیں اور بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں اور اللہ ہی کے لیے سب کاموں کا انجام ہے ”۔زمین پر کسی کی حکومت قائم ہو جائے تو وہ نظام صلوة قائم کرے جو اس معاشرے کو تمام قسم کے فحش اور ناجائز کاموں سے پاک کر دے ۔زکوٰة کی ادائیگی کی جائے تاکہ معاشرے اور سماج کی مکمل بھلائی ہو،مالداروں کا مال ستھرا ہوجانے کی وجہ سے انہیں گناہوںاورظلم وستم کی طرف مائل نہ کرے۔
غریبوں کی ضروریات پوری ہوں ،وہ بھوک اور ناداری کی بنیاد پر جرائم پیشہ زندگی اختیار نہ کریں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نیٹ ورک قائم ہو۔ تاکہ نیکی کی قوتیں غالب اور بدی کی مغلوب رہیں۔ نیکی پھلے پھولے اور بدی کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو سر انجام دینے میں آج بھی بہت برکت ہے انسانی ضمیر میں کسی کی اچھی بات کی طرف متوجہ ہونے اور اس کا اثر قبول کرنے کی صلاحیت آج بھی موجود ہے۔ ملت کا خمیر بنجر اور بانجھ نہیں آج بھی زرخیز ہے ۔ افسوس یہ ہے کہ غیروں کی سازش سے آج ہمارا مزاج بنتا جا رہا ہے جو کوئی کرتا ہے اسے کرتا رہنے دو ۔ اس غلط پالیسی کو امت میں عام کرنے کے لیے نام نہاد، لبرل سوچ اوربندوق و بارود کے زور پر شریعت منوانے کے انداز دونوں نے کردار ادا کیا ہے، مگر یہ پالیسی نہ مکی ہے نہ مدنی ہے نہ بدری ہے نہ کربلائی ہے بلکہ غیروں سے آئی ہے ۔اگر فرمان رسول ۖ کے مطابق معاشرہ کی کشتی کے پیندے میں سوراخ کرنے والے کا ہاتھ نہیں پکڑیں گے تو معاشرہ ڈوبنے سے کیسے محفوظ رہ سکے گا ؟دفاع پاکستان کے لیے جیسے افواج پاکستان جان ہتھیلی پر رکھ کر کردار ادا کر رہی ہے پاکستان کے دیگر مقتدر اداروں کو بھی اپنا فرض منصبی نبھانا ہو گا ۔ اس ملک کو صحیح اسلامی فلاحی ریاست بنانے کیلیے واشنگٹن کی طرف نہیں گنبد خضرٰی کی طرف متوجہ ہونا ہوگا ۔اسے نحوستوں سے بچانے کے لیے نیو ورلڈآرڈر کے نہیںنظام مصطفےٰ ۖ کے حوالے کرنا ہوگا، اس کوخوش حالی کے لیے موہنجو داڑو اور ہڑپّہ کے کلچر کی طرف نہیں مدینہ اور مکّہ کے محور کی طرف لے جانا ہوگا۔ خدا کرے نہ خم ہو سرِوقارِ وطن اور اس کے حسن کو اندیشہء ماہ وسال نہ ہو یہاں جو پھول کھلے کھلا رہے برسوں یہاں خزاں کو گذرنے کی بھی مجال نہ ہو