اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت نے دفاعی بجٹ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔ اس خبر کی وجہ سے ناقدین کی توپوں کا رخ اب تبدیلی کی دعویدار سرکار کی طرف ہوگیا ہے اور ناقدین کو خدشہ ہے کہ اس سے سماجی ترقی کا شعبہ متاثر ہو گا۔
واضح رہے کہ پاکستانی حکومت کے ترجمان وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے جمعرات سات فروری کو ایک پریس کانفرنس میں اس بات کا اعلان کیا تھا کہ حکومت دفاعی بجٹ میں کٹوتی نہیں کرے گی بلکہ اس کی ترجیح ہوگی کہ وہ محصولات کے مزید ذرائع پیدا کر کے اس بجٹ میں اضافہ کرے۔
یہ فیصلہ ایک اسے وقت میں کیا گیا ہے جب ملک میں سماجی ترقی کے شعبے کے بجٹ میں زبردست کٹوتی کی گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ اسکیم میں سے تقریباﹰ چار سو ارب کی کٹوتی کی گئی ہے۔ ماہرین کے خیال میں اس سے ملک کاسماجی ترقی کا شعبہ بری طرح متاثر ہوگا۔
کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان کے معاشی مسائل اور بڑھتے ہوئے قرضوں کی ایک وجہ اتنی بڑی فوج اور دفاعی بجٹ ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی انسانوں پر پیسے خرچ کرنے کا نعرے لگا کر اقتدار میں آئی تھی لیکن اس کے اقدامات سے عام آدمی کی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ممتاز ماہرِ معیشت ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کے خیال میں ایسے اقدامات سے بھوک و افلاس میں اضافہ ہوگا، جس سے عام آدمی کی زندگی مزید بدتر ہوجائے گی اوراس کے خطرناک نتائج برآمدہوں گے: ’’تحریکِ انصاف فوج کے کاندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آئی ہے اور وہ ان کو خوش کرنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہی ہے۔ ملک میں مہنگائی کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔ لوگ غربت کی وجہ سے خود کشیاں کر رہے ہیں۔ فوجی بجٹ اور چین کی نام نہاد سرمایہ کاری نے ویسے ہی ملک کو قرضوں تلے دبا دیا ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان عام آدمی کو ہے، جس کے لیے نہ تعلیم ہے، نہ صحت اور نہ مناسب رہائش و خوراک۔ عوام میں حکومتی اقدامات کی وجہ سے بہت اشتعال ہے اور اگرحالات ایسے ہی رہے تو ملک انارکی کی طرف جائے گا۔‘‘
کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان کے معاشی مسائل اور بڑھتے ہوئے قرضوں کی ایک وجہ اتنی بڑی فوج اور دفاعی بجٹ ہے اور اس بجٹ میں مزید اضافہ ملکی مسائل میں کئی گناہ اضافہ کر دے گا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں بھارت سے تعلقات بہتر کر کے ہمیں ملک کے دفاعی بجٹ کو کم کرنا چاہیے: ’’حکومت کو چودہ بلین ڈالرز صرف بیرونی قرضوں کی اقساط کی ادائیگی اور دیگر اخراجات کے لیے چاہییں، جس کے لیے یہ ایک ملک سے دوسرے ملک جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان پر مختلف نوعیت کے جرمانے لگنے کے بھی امکان ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق بارہ بلین ڈالرز کے جرمانے لگ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں دفاعی بجٹ کو بڑھانے سے سماجی شعبے کا جنازہ نکل جائے گا۔ ٹیکسوں کی مزید بھرمار ہوگی اور تعلیم و صحت کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے انسانی ترقی کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر ایک سو بیس کے بعد کا ہے۔ ملک میں دو کروڑ سے زیادہ بچے اسکول سے باہر ہیں۔ چھ کروڑ سے زائد کی آبادی خطِ غربت سے نیچے رہ رہی ہے۔ اسی فیصد بیماریاں پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ خود وزیرِ اعظم نے اعتراف کیا کہ ملک کی چوالیس فیصد کے قریب بچے ایسے ہیں، جن کی جسمانی نشوونما صحیح طریقے سے نہیں ہوپائے گی۔ کئی ناقدین ان سارے مسائل کی وجہ بڑے فوجی بجٹ کو قرار دیتے ہیں لیکن ذرائع ابلاغ میں دفاعی اداروں کی حمایت کرنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ فوجی بجٹ کا بلا جواز واویلا کیا جارہا ہے۔
گلوبل فائر پاور کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق امریکی فضائیہ دنیا کی سب زیادہ طاقت ور ترین ہے۔ امریکی فضائیہ کے پاس لگ بھگ چودہ ہزار طیارے ہیں۔ ان میں سے تیئس سو جنگی طیارے، تین ہزار کے قریب اٹیک ائیر کرافٹ، تقریبا چھ ہزار کارگو طیارے، لگ بھگ تین ہزار تربیتی جہاز اور تقریبا چھ ہزار ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں ایک ہزار اٹیک ہیلی کاپٹرز بھی شامل ہیں۔
معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرد امجد شعیب کے خیال میں پاکستان کا دفاعی بجٹ کئی ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے: ’’دفاعی بجٹ کا تعلق خطرات کے تصور سے ہوتا ہے۔ ہمارے پڑوس میں افغانستا ن میں جنگ چل رہی ہے۔ لائن آف کنڑول پر بھارت بیٹھا ہوا ہے۔ تو ایسی صورت میں دفاعی بجٹ میں کٹوتی کیسے ممکن ہے؟ زیادہ تر بجٹ تنخواہوں اور دوسرے فکسڈ اخراجات میں چلا جاتا ہے۔ صرف چھ سے سات فیصد نئے ہتھیاروں کے لیے لگتاہے۔ بھارت اپنی نیوی، ایئر فورس اور آرمی کو جدید بنا رہا ہے۔ تو ہم اپنے دفاع کو نظر انداز کیسے کر سکتے ہیں؟‘‘
کئی ناقدین کا دعویٰ ہے کہ دفاعی بجٹ پارلیمنٹ میں زیرِ بحث نہیں آتا لیکن سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین سلیم ماونڈی والا اس دعوے کو غلط قرار دیتے ہیں: ’’ہم نے گزشتہ برس بھی پارلیمنٹ کی کمیٹی میں دفاعی بجٹ پر بحث کی تھی اور اب بھی کریں گے۔ دیکھیں گے کہ حکومت کتنا اضافہ کر رہی ہے اور کیوں کر رہی ہے؟‘‘