اسلام آباد (جیوڈیسک) وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ اگلے بجٹ میں فوج کے لیے مختص کیے جانے والے حصے میں اضافے کیا جائے۔ یہ مطالبہ اس بنیاد پر کیا گیا کہ فوج کے لیے مختص کیا گیا موجودہ حصہ کافی نہیں ہے۔
سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے زیرِ اہتمام پیر کے روز دفاعی بجٹ پر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے ایڈیشنل سیکریٹری برائے وزارتِ دفاع ایئر وائس مارشل ارشد قدوس نے بتایا کہ ’’نئے ہتھیاروں کے نظام کو متحرک کرنے کے لیے مزید فنڈز کا حصول ضروری ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے بجٹ میں فراہم کی جانے والی رقم سے صرف فوجیوں کی تنخواہوں اور آپریشنل اور دیکھ بھال کے اخراجات کا ہی احاطہ کیا جاسکا تھا۔
ایڈیشنل سیکریٹری نے کہا کہ ختم ہونے والے مالی سال کے لیے مختص دفاعی بجٹ کا تقریباً 43 فیصد حصہ ملازمین سے متعلق اخراجات پر صرف کیا گیا، 26 فیصد آپریشنز پر اور دس فیصد سول ورکس پر خرچ ہوا باقی اکیس فیصد حصہ سروسنگ اور سازوسامان کی دیکھ بھال پر خرچ کیا گیا۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ کا اعلان اگلے مہینے کے پہلے ہفتے میں کیا جائے گا۔ یہ توقع کی جارہی ہے کہ حکومت بڑھتی ہوئی دفاعی ضروریات کے پیش نظر فوج کے لیے مختص حصے میں اضافہ کردے گی۔ ایئر وائس مارشل قدوس نے پاکستان کے دفاعی اخراجات کا خطے کے دیگر ممالک خصوصاً ہندوستان سے مقابلہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دیگر ملکوں سے بہت کم خرچ کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال کا ملکی دفاعی بجٹ 6.27 ارب ڈالرز تھا، جبکہ ہندوستان نے 37 ارب ڈالرز اپنی مسلح افواج پر خرچ کیے تھے۔
ایڈیشنل سیکریٹری دفاع نے کہا کہ پاکستان میں ہر سال فوج کے فی سپاہی پر آٹھ ہزار چار سو ستائیس ڈالرز خرچ کیے جاتے ہیں، جبکہ ہندوستان ہر سال فی سپاہی پر چوبیس ہزار پچھتر ڈالرز خرچ کرتا ہے انہوں نے کہا کہ غیرملکی زرمبادلی کی شرح میں تبدیلیاں، افراطِ زر اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے پورے سال کے لیے مختص کی گئی رقم کی حقیقی قدر کمی واقع ہوگئی تھی چیئرمین سینیٹ کمیٹی سینیٹر مشاہد حسین نے دفاعی اخراجات کے حوالے سے صاف گوئی پر زور دیا، انہوں نے کہا کہ لوگ یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ دفاعی بجٹ کس طرح تیار اور استعمال کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ مشاہد حسین کی اس کمیٹی نے پہلی مرتبہ دفاعی بجٹ پر میڈیا کے لیے بریفنگ کی میزبانی کی تھی، انہوں نے کہا کہ ’’یہاں کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔‘‘ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ دفاعی بجٹ سول سوسائٹی کو خارج کرکے جی ایچ کیو کے اندیشوں اور قومی سلامتی کے تصور کی بنیاد پر تیار کیا جاتا ہے۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس بجٹ میں شفافیت اور مواخذے دونوں ہی کا فقدان ہے۔