پاکستان کو خواب و تصور علامہ اقبال نے پیش کیا کہ برصغیر کے حالات اس بات کے متقاضی ہوچکے تھے کہ اب انگریز کا انخلاء ضروری ہونے کے ساتھ ہی مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطہ کا ہونا لازمی ہے جہاں پر وہ آزادی کے ساتھ شعائر اسلام کی انجام دہی کرسکیں ۔علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ باد سے جو فکر و نظریہ کی بناپڑی وہ اس قدر مستحکم و مضبوط سوچ تھی کہ اس پر مسلمان عمل کے بغیر اپنے لیے کوئی دوسرا حل قبول کرنے کو تیار نہ ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کے قائدین کی معیت میں سن1940میں مسلمانوں کے لیے الگ خطہ ارضی کی باضابطہ جدہوجہد کا اعلان ہی نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کے ملک کا نام پاکستان تجویز بھی کردیا۔چنانچہ پاکستان 14اگست1947میں لاکھوں مسلمانوں کی جانی و مالی اور عزتوں کی قربانیوں کے سبب معرض وجود میں آگیا۔
قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان جو کہ مشرقی و مغربی خطہ برصغیر پر مشتمل تھا کو انتظامی طورپر پیہم و مربوط کرنے کے لیے مثالی اقدامات کیے۔تاکہ یہ خطہ ارضی باوجود دولخت ہونے کے قلب و ذہن کے لحاظ سے جڑا رہے۔اس سلسلہ میں جہاں پر ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے فوج قائم کی گئی ۔انتظامی تقسیمات کی گئیں وہیں پر پاکستان کے مشرقی حصہ بنگلہ دیش و دیگر اکائیوں کو برابرو یکساں حقوق فراہم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم جو بھی فیصلہ ملک کی تعمیر و ترقی کی خاطر کرتے تو اس میں کابینہ کی رائے کا بھی لحاظ رکھتے تھے۔ خاص طورپر ملک کو اسلامی ریاست قراردینے کا فیصلہ ہویا پھر قومی زبان اردو کو ٹھہرائے جانے کا فیصلہ۔
بانی پاکستان قائد اعظم اپنے خطابات میں ببانگ دہل اس عزم کا اعادہ کرتے رہے کہ ہم پاکستان کو ایک مثالی و فلاحی ریاست بناکر دنیا کے سامنے پیش کریں گے کہ یہاں پر امن و آشتی کا دور دورہ ہوگا۔ ہرفرد بشر کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور یہ خطہ معاشی و اقتصادی اور قانونی و سیاسی لحاظ سے دنیا بھرکے سامنے بطور رول ماڈل بنے گا کہ اسلام کی تعلیمات پر عمل کرکے کس طرح دنیاو آخرت دونوں کی کامیابی سمیٹی جاسکتی ہے۔اسی طرح قائداعظم نے اس بات کا بھی اپنے خطابات میں تذکرہ بارہا کیا اور اس کو اپنی کابینہ سے مشاورت کے بعد منظور کرایا کہ ملک کے طول و عرض کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک زبان جو کہ رابطہ کی زبان ہو گی وہ اردو زبان ہوگی۔اردو زبان کو بنگالی،سندھی، بلوچی،بختون اور پنجابی بخوشی استعمال کرتے ہیں لہذا اردو کو قومی زبان قراردینے سے یہ فائدہ حاصل ہوگا کہ ملک کی تمام اکائیوں میں الفت و محبت قائم و دائم رہے گی اور کوئی بھی قوم احساس محرومی کا شکار نہیں ہوگی۔
قیام پاکستان کے بعد سے لیکر اب تک ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان لکھا اور شمار کیا جاتاہے ،قرارداد مقاصد و آئین پاکستان میں واضح طورپر موجود ہونے کے کہ ملک میں کوئی بھی آئین و قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں بنے گا ۔آئین و قانون میں یہ بھی واضح طورپر موجود ہے کہ ملک کی قومی زبان اردو ہے ۔یہی زبان رابطہ کی زبان ہے اور اس زبان کو دفتری و قانونی اور تعلیمی زبان بنایا جائے گا۔لیکن سوء اتفاق ہے کہ 72برس بیت جانے کے باوجود ملک میں نہ تو اسلامی نظام کا عملی نفاذ کیا گیا ہے اور نہ ہی قومی زبان کو بالادستی و عزت دی گئی ہے۔اس کا بدیہی نتیجہ ہے کہ ملک سیاسی و مذہبی، علاقائی و صوبائی اور لسانی لحاظ سے منقسم ہے اور ملک کا ہر شہری عدم اعتماد اور اضطرابی کیفیت سے دوچار ہے۔ملک میں تفاوت و تفریق نے عوام الناس کو مایوس و ناامید کردیا ہے جس کی بدولت گاہے بگاہے کشت و خون کا بازار صرف اس لیے گرم کردیا جاتاہے کہ ان کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جارہا۔
پاکستان کی 72سالہ تاریخ میں ملک کو متعدد بار بیرونی و اندرونی ناہمواریوں اور خلفشاریوں کا سامنا رہاہے جس میں ابتدائی زمانہ میں روسی و امریکی بلاک میں سے امریکی بلاک میں شمولیت ،کشمیر میں بھارتی فوج کی جارحیت کا آغاز1948ء سے ہوا ،ہندوستان کی جانب سے پاکستان کو مسخر کرنے کی ناکام کوشش1965ء میں ہوئی،ملک کی دو اکائیوں کو ہندوپنڈتوں کی سازشوں اور کچھ اپنوں کی ناتجربہ کاری و نااہلی کی وجہ سے1971ء میں بنگلہ دیش الگ ریاست بن گیا۔بھارت کے حکمرانوں کے آمرانہ و جابرانہ رویہ اور پاکستان کے قیام کو تسلیم نہ کرنے اور اس مملکت خداد کو ناکام اور ڈرانے کی خاطر بھارت نے ایٹمی تجربہ کیا، روس کی سپر پاور صلاحیت کو کچلنے کے لئے امریکہ نے پاکستان کا استعمال کیا ،پاکستان نے اپنی دفاعی صلاحیت کو بہتر بنانے کی خاطر امریکہ کی بھاری بھر کم مالی امداد کی پیش کش کے ایٹمی دھماکے کرکے ملک کو ناقابل تسخیر بنادیا۔9/11کے بعد دوبارہ امریکہ نے پاکستان کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہوئے افغانستان پر حملہ کیا تو وہ خود گذشتہ 19سالوں میں ناکامی و نامرادی سے دوچار ہواہی مگر پاکستان کو ہمہ جہتی مسائل میں دھکیل دیا تو اب گذشتہ کچھ برسوں سے پاکستان کی حکومت نے اپنی سرزمین کا استعمال دوسروں کے مفادات کے تحفظ و حصول کے تمام ذرائع بند کرنے کا فیصلہ کیا اور نیشنل ایکشن پلان اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔
حال ہی میں ہندوستان کے مخدوش معاشی و سیاسی حالات اور انتخابی ماحول کیوجہ سے مودی سرکار نے خودساختہ خودکش حملہ پلوامہ میں کراکر اس کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے سرحد کی خلاف ورزی و دراندازی کرتے ہوئے سرزمین پاکستان میں داخل کیے تو پاکستان کے پاکستان فضائیہ کے چاک و چوبند دستے نے بھارتی دو جنگی طیارے مارگراے اور بھارت حکمرانوں کو عقل پھر بھی نہ آئی تو انہوں نے بحری راستے سے پاکستان کی سرحد میں داخل ہونے کی کوشش کی تو اس میں بھی پاک بحریہ نے ان کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کردیا۔پاکستان کو جغرافیائی لحاظ سے کمزور کرنے کی خاطر امریکہ و اسرائیل اور ہندوستان کے ساتھ ایک اور پڑوسی ملک مصروف عمل ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کے صدقہ حاصل ہونے والی ریاست کی حفاظت کا متعدد بار سامان کیا ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں اور ملک کے مقتدر و بااثر اداروں اور اہلیان پاکستان کے کاندھوں پر کلیدی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جس مقصد کے لیے پاکستان قائم ہوا یعنی اسلامی نظام و شریعت کا نفاذ اور اس ملک کو مثالی اسلامی فلاحی مملکت بنانے کا جو تصور تھا اور آئین و قانون میں جو درج ہے کہ کوئی بھی قانون خلاف قرآن و سنت نہیں بنے گا ۔ اب جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں جغرافیائی سرحد پر کامیابی عنایت کی ہے تو ہم پر لازم ہے کہ نظریاتی سرحد کی حفاظت کا انتظام ہم بھی کریں۔اور جب ہم اللہ کے دین پر عمل پیرا ہوجائیں گے تو اللہ جل شانہ ہمیں دنیا کی کسی بھی سخت سے سخت اور طاقتور ترین سپر پاور حکومت کے لیے ناقابل تسخیر بنادے گا۔ملک کو نظریاتی طورپر مستحکم و ممضبوط بنانے کے لیے جہاں اسلامی نظام کا نفاذ ضروری ہے وہیں پر یہ بھی لازم ہے کہ اسلامی نظام سے شناسائی حاصل کرنے کا اہم ترین ذریعہ قومی زبان اردو کے نفاذ میں بھی بلاوجہ تاخیر و لیت و لعل درست نہیں۔
اردو زبان کو تعلیمی، قانونی اور دفتری زبان بنانے سے ملک میں موجود تمام قومیں باہم پیوست اور شیر و شکر ہوجائیں گی اور ان کے قلوب و اذہان میں موجود احساس کمتری و مایوسی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگا ۔کیونکہ دنیا کی تمام ترقی پذیر اور ترقی یافتہ قوموں نے اپنی قومی و مادری زبان کو سینہ سے لگاکر اقبال مندی حاصل کی ہے نہ کہ اغیار کی اندھی تقلید میں گم ہوکر اپنی تہذیب و ثقافت اور امتیاز کا جنازہ نکالاہے۔ آج 23مارچ2019ء کے دن ہم پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم قائد اعظم اور علامہ اقبال اور لاکھوں بانیان پاکستان کی قربانیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے تجدید عہد کریں کہ جو ہم سے دانستگی و نادانستگی میں غلطی ہوگئی اس کا ازالہ کرتے ہوئے ملک کو جغرافیائی لحاظ سے مستحکم و مضبوط بنانے کے لیے راست اقدامات اٹھانے کے ساتھ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر اسلامی نظام کا نفاذ اور اردو زبان کو عملاً رائج کریں گے۔اللہ کا وعدہ ہے جس نے اس کی (یعنی دین اسلام)مدد کی وہ اس کی مدد کرے گا۔