تحریر : محمد مظہر رشید چوہدری چھ ستمبر یوم دفاع پاکستان ،6 ستمبر 1965 کو بھارتی افواج نے لاہور کی جانب سے وطن عزیز پاکستان پر حملہ کیا، پاک افواج نے اپنی سرحدوں کی حفاظت کا حق ادا کرتے ہوئے پاک سرزمین کے ایک ایک انچ کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ،1965کی جنگ میں پاک فوج نے ملک کی سرحدوں کا دفاع باوقار انداز میں موثر بنایا اور دنیا کو یہ بتلا یا اور ثابت کر دکھایا کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔ جنگ ستمبر میں بھی قوم کے بہادر سپوتوں نے جان کے نذرانے پیش کیے۔ 6 ستمبر کا دن وطن عزیز کے دفاع کیلئے عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے ا س دن کو یوم دفاع کے طور پر پاکستانی قوم مناتی ہے۔
قومی وسماجی تحریک موومنٹ اگیسنٹ ڈرگ ابیوز”ماڈا” رجسٹرڈ ،الخدمت ویلفیئر کو نسل رینالہ خورد ،ایف ایم 90&92کے عہدیداروں اور ممبران نے سابقہ سالوں کی طرح امسال بھی یوم دفاع کے موقع پر پاک فوج کے شہداء ،پولیس کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے چھ ستمبر کو ضلع کی حدود میں جہاں جہاں شہداء مدفوںوہاں انکی قبروں پر مقامی افراد کو شامل کر کے فاتحہ خوانی اور پھولوں کی چادر چڑھانے کا پروگرام ترتیب دیا ہے جس کے لیے آگاہی پروگرام منعقد کیے جارہے ہیں ۔شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے ،لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوة ہےقارئین کرام اسلامی تاریخ اور حدیث کی روشنی میں ہم پہلے شہید کون ہوتا ہے شہید کارتبہ کون پاتا ہے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔’شہید’ کے لفظ کا پاکستان میں بہت عام ہے شہید اسکو کہا جاتا ہے جس کی موت کسی حادثے کے نتیجے میں یا کسی نیک مقصد کی جدوجہد میں آجائے۔ دین کی حفاظت و سربلندی میں دشمن کے خلاف جنگ و جدال اور حق و انصاف کے لیے اٹھ کھڑا ہونا نیک مقصد کے لیے اپنی جان قربان کرنے والا شہید کہلاتا ہے ‘شہید’ کی تعریف کیا ہے؟ اس لفظ کی اصل میں کیا حقیقت ہے اور ہمارے مذہب میں اس کی کیا حیثیت ہے؟قرآن مجید میں یہ لفظ اپنی مختلف صورتوں میں کئی مقامات پر آیا ہے۔
اس ضمن میں مخاطب کا لحاظ کرتے ہوئے ‘شَاہِد’، ‘شَہِیْد’، اور ‘شُہَدَآئ’ کے الفاظ اختیار کیے گئے ہیں۔ سورة فتح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا.(٨٤: ٨)”بے شک، ہم نے تم کو گواہی دینے والا، خوش خبری پہنچانے والا اور آگاہ کر دینے والا بنا کر بھیجا ہے۔”صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 444 حدیث مرفوع مکررات 48 متفق علیہ 17:زہیر بن حرب، جریر، سہیل، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے میں سے شہید کسے شمار کرتے ہو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول جو اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے وہ شہید ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسی صورت میں تو میری امت کے شہید کم ہوں گے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا پھر وہ کون ہوں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ کے راستہ میں قتل کیا گیا وہ شہید ہے اور جو اللہ کے راستہ میں مر گیا وہ بھی شہید ہے اور جو طاعون میں مرا وہ بھی شہید ہے اور جو پیٹ کی بیماری میں مر گیا وہ بھی شہید ہے ابن مقسم نے اس حدیث میں یہ بھی کہا ڈوب کر مر جانے والا بھی شہید ہے۔
سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1516 حدیث مرفوع مکررات 7 متفق علیہ 2:یزید بن خالد، ابن وہب، عبدالرحمن بن شریح ابوامامہ بن سہل بن حنیف حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص صدق دل کے ساتھ شہادت کی تمنا کرے تو اللہ اس کو شہیدوں کا مرتبہ عطا فرمائے گا اگرچہ وہ اپنے بستر پر ہی پڑ کر کیوں نہ مرے۔سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 728 حدیث مرفوع مکررات 0 متفق علیہ 0 محمد بن بکار، مروان، عبدالوہاب بن عبدالرحیم، ام حرام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص (حج عمرے یا جہاد کے لئے) سمندر میں سوار ہوا اور پھر اس کو چکر آئے یا قے ہوئی تو اس کو ایک شہید کا ثواب ملے گا۔ اور جو ڈوب جائے (اور مر جائے) تو اس کو دو شہیدوں کے برابر ثواب ملے گا۔سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 734 حدیث مرفوع مکررات 0 متفق علیہ 0:عبدالوہاب بن نجدہ، بقیہ بن ولید، بن ثوبان، حضرت ابومالک اشعری سے روایت ہے کہ میں نے سنا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے۔ جو شخص اللہ کے راستہ میں جہاد کی غرض سے نکلا اور وہ مر گیا یا مارا گیا تو ہر دو صورت میں وہ شہید ہے یا اس کے گھوڑے یا اونٹ نے اس کو کچل ڈالا یا کسی زہریلے جانور نے اس کو کاٹ لیا یا اپنے بستر پر (طبعی) موت مرا یا کسی اور طریقہ سے جو اللہ نے چاہا مر گیا تو ہرصورت میں وہ شہید ہے اور اس کے لئے جنت ہے۔سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 1343 حدیث مرفوع مکررات 9 متفق علیہ 0:قعنبی، مالک، عبداللہ بن عبداللہ بن جابر، حضرت جابر بن عتیک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبداللہ بن ثابت کے پاس ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے۔ آپ نے دیکھا وہ بیہوش ہیں آپ نے ان کو زور سے پکارا۔ انہوں نے جواب نہیں دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے َانَّا َللہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون پڑھا اور فرمایا اے ابوالربیع ہم تیرے بارے میں مغلوب ہو گئے (یعنی ہم نے تمہاری زندگی چاہی مگر تقدیر الٰہی غالب آئی اور تم اس دنیا سے رخصت ہوئے) یہ سن کر عورتیں رونے پیٹنے لگیں۔
ابن عتیک ان کو خاموش کرانے لگے آپ نے فرمایا جانے دو جب واجب ہو جائے تو اس وقت کوئی رونے والی نہ روئے گی۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واجب ہونے سے کیا مراد ہے؟ آپ ۖنے فرمایا موت۔ عبداللہ بن ثابت کی بیٹی نے اپنے باپ کی طرف مخاطب ہو کر کہا ابا جان مجھے امید ہے کہ آپ (عند اللہ) شہید ہی ہوں گے کیونکہ آپ نے سامان جہاد تیار کر رکھا تھا۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کی نیت کے بقدر ثواب عطا فرمائیں گے اور تم لوگ شہادت کا مطلب کیا سمجھتے ہو؟ کیا راہ اللہ میں قتل ہو جانا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کے راستہ میں مارے جانے کے علاوہ سات طرح کی شہادت اور ہے۔ ایک وہ جو طاعون کی بیماری میں مرے۔ دوسرے وہ جو پانی میں ڈوب کر مرے۔ تیسرا وہ جو ذات الجنب کی بیماری سے مرے۔ چوتھا پیٹ کی بیماری میں مرنے والا۔ پانچواں جل کر مرنے والا۔ چھٹا چھت یا دیوار کے نیچے دب کر مر جانے والا۔ اور ساتویں وہ عورت جو کنواری ہو یا حاملہ ہو۔ یہ سب شہید کہلائیں گے۔
(1)ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:ما تَعُدُّونَ الشَّہِیدَ فِیکُمْ؟ تُم لوگ اپنے(مرنے والوں) میں سے کِسے شہیدسمجھتے ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:یا رَسُولَ اللَّہِ من قُتِلَ فی سَبِیلِ اللَّہِ فَہُوَ شَہِید۔اے اللہ کے رسول جو اللہ کی راہ میں قتل کِیا جاتا ہے (ہم اُسے شہید سمجھتے ہیں)،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:انَّ شُہَدَاء َ اُمَّتِی اذًا لَقَلِیل۔اگر ایسا ہو تو پھر تو میری اُمت کے شہید بہت کم ہوں گے۔صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کِیا:فَمَنْ ہُمْ یا رَسُولَ اللَّہِ؟اے اللہ کے رسول تو پھر شہید(اور)کون ہیں؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:مَن قُتِلَ فی سَبِیلِ اللَّہِ فَہُوَ شَہِید وَمَنْ مَاتَ فی سَبِیلِ اللَّہِ فَہُوَ شَہِید وَمَنْ مَاتَ فی الطَّاعُونِ فَہُوَ شَہِید وَمَنْ مَاتَ فی الْبَطْنِ فَہُوَ شَہِید۔ جو اللہ کی راہ میں قتل کِیا گیا وہ شہید ہے،اورجو اللہ کی راہ میں نکلا (اور کسی معرکہِ جِہاد میں شامل ہوئے بغیر مر گیا، یا جو اللہ کے دِین کی کِسی بھی خِدمت کے لیے نکلا اور اُس دوران)مر گیا وہ بھی شہید ہے، اور اور جو طاعون (کی بیماری)سے مر گیا وہ بھی شہید ہے، اورجو پیٹ (کی بیماری)سے مر گیا وہ بھی شہید ہے۔
قال بن مِقْسَمٍ اَشْہَدُ علی اَبِیکَ فی ہذا الحدیث اَنَّہُ قال۔ عبید اللہ ابن مقسم نے یہ سُن کر سہیل کو جو اپنے والد سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ کے ذریعے روایت کر رہے تھے، کہا، میں اِس حدیث کی روایت میں تمہارے والد کی (اِس بات کی درستگی)پرگواہ ہوں اور اِس حدیث میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا: ”وَالْغَرِیق ُ شَہِید ” ڈوب کر مرنے والا بھی شہید ہے۔(2)ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:الشُّہَدَاء ُ خَمْسَة الْمَطْعُونُ وَالْمَبْطُونُ وَالْغَرِق ُ وَصَاحِبُ الْہَدْمِ وَالشَّہِیدُ فی سَبِیلِ اللَّہِ عز وجل۔شہید پانچ ہیں(1) مطعون، اور(2)پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، اور(3) ڈوب کر مرنے والا، اور(4) ملبے میں دب کر مرنے والا، اور(5) اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا۔(صحیح مُسلم /کتاب الامارة)مذکورہ بالااحادیث کی روشنی میں شہید کی مندرجہ ذیل اقسام سامنے آتی ہیں۔
(1)اللہ کی راہ میں قتل کیا جانے والا، یعنی شہیدِ معرکہ اور مسلمانوں کے یقینی اجماع کے مطابق یہ افضل ترین شہادت ہے۔ (2)اللہ کی راہ میں مرنے والا، یعنی جو اللہ کی راہ میں نکلا اور موت واقع ہو گئی مثلاً غازی، مہاجر، وغیرہ، سورت النسائ(4)/ آیت 100۔ (3)مطعون، طاعون کی بیماری سے مرنے والا۔ (4)پیٹ کی بیماری سے مرنے والا۔ (5) ڈوب کر مرنے والا۔ (6)ملبے میں دب کر مرنے والا،۔ (7)ذات الجنب سے مرنے والا،(ذات الجنب وہ بیماری جِس میں عموماً پیٹ کے پُھلاؤ، اپھراؤ کی وجہ سے، یا کبھی کسی اور سبب سے پسلیوں کی اندرونی اطراف میں ورم (سوجن)ہو جاتی ہے جو موت کا سبب بنتی ہے)۔ (8)آگ سے جل کر مرنے والا۔ (9)حمل کی وجہ سے مرنے والی ایسی عورت جس کے پیٹ میں بچہ بن چکا ہو۔ (10)ولادت کے بعد ولادت کی تکلیف سے مرنے والی عورت۔ (11)پھیپھڑوں کی بیماری (سل) کی وجہ سے مرنے والا۔ (12) جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا۔ (13)جو اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا۔ (14)جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا۔ (15)جواپنے دِین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا گیا۔ اِن کے عِلاوہ کِسی بھی اور طرح سے مرنے والے کے لیے اللہ اوراُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے کوئی ایسی خبر نہیں ملتی کہ اُسے شہیدسمجھا جائے۔
نشانِ حیدر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے جو اب تک پاک فوج کے دس جوانوں کو مل چکا ہے۔ پاکستان کی فضائیہ کی تاریخ اور پاکستان کی بری فوج کے مطابق نشانِ حیدر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام پر دیا جاتا ہے کیونکہ ان کا لقب حیدر کرار تھا اور ان کی بہادری ضرب المثل ہے۔ یہ نشان صرف ان لوگوں کو دیا جاتا ہے، جو وطن کے لیے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہو چکے ہوں۔ ان میں میجر طفیل نے سب سے بڑی عمر یعنی 44 سال میں شہادت پانے کے بعد نشان حیدر حاصل کیا، باقی فوجی جنہوں نے نشان حیدر حاصل کیا ان کی عمریں 40 سال سے بھی کم تھیں جبکہ سب سے کم عمر نشان حیدر پانے والے راشد منہاس تھے جنہوں نے اپنی تربیت میں 20 سال 6 ماہ کی عمر میں شہادت پر نشان حیدر اپنے نام کیا۔ آج تک پاکستان میں صرف دس افراد کو نشانِ حیدر دیا گیا ہے 1۔راجہ محمد سرور2/1 پنجاب رجمنٹ، پاک فوج کیپٹن پاک بھارت جنگ 1947 27 جولائی 1948 2۔میجر طفیل محمدسولہویں پنجاب رجمنٹ مشرقی پاکستان رائفل، پاک فوج میجرپاک بھارت جنگ 1965ئ7 اگست 1958 3۔راجہ عزیز بھٹی17 پنجاب رجمنٹ، پاک فوج میجرپاک بھارت جنگ 1965ئ10 ستمبر 1965 4۔راشد منہاس نمبر۔ 2 فائٹر کنورژن یونٹ، پاک فضائیہ پائلٹ آفیسرپاک بھارت جنگ 1971ئ20 اگست 1971 5۔میجر شبیر شریف6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ، پاک فوج میجرپاک بھارت جنگ 1971ئ6 دسمبر 1971 6۔سوار محمد حسین20 لانسرز (آرمرڈ کور)، پاک فوج سوارپاک بھارت جنگ 1971ئ10 دسمبر 1971 7۔میجر محمد اکرم 4 فرنٹئیر فورس رجمنٹ، پاک فوج میجرپاک بھارت جنگ 1971ئ5 دسمبر 1971 8۔لانس نائیک محمد محفوظ15 پنجاب رجمنٹ، پاک فوج لانس نائیک پاک بھارت جنگ 1971ئ17 دسمبر 1971 9۔کرنل شیر خان سندھ رجمنٹ/12 ناردرن لائٹ انفنٹری، پاک فوج کیپٹن کارگل جنگ7 جولائی 1999 10۔حوالدار لالک جان12 ناردرن لائٹ انفنٹری، پاک فوج حوالدارکارگل جنگ 7 جولائی 1999 ہمارے ضلع اوکاڑہ کی پولیس کے جوانوں نے بھی ضلع میں امن کے قیام کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں ہمارے ضلع کے ایک سپوت طیب سعید شہید ایس پی ناروال نے ڈاکوئوں سے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ضلع بھر میں 36پولیس اہلکار ہیں جنھوں نے شہریوں کی حفاظت کے لیے ڈاکوئوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں ۔معروف شاعر احمد فراز کی ایک خاص نظم قارئین کرام چھ ستمبر کے حوالہ سے کالم کا حصہ بنا رہا ہوں دائم آباد تیری حسیں انجمن اے وطن۔۔۔ اے وطن تیرے کھیتوں کا سونا سلامت رہے تیرے شہروں کا سکھ تا قیامت رہے تاقیامت رہے یہ بہارِ چمن اے وطن۔۔۔ اے وطن تیری آباد گلیاں مہکتی رہیں تیری راہیں فضائیں چمکتی رہیں مسکراتے رہیں تیرے کوہ و دمن اے وطن۔۔۔ اے وطن تیرے بیٹے تری آبرو کے لئے یوں جلائیں گے اپنے لہو کے دیے پھوٹ نکلے گی تاریکیوں سے کِرن اے وطن۔۔۔ اے وطن دائم آباد تیری حسیں انجمن