تحریر: عاصم علی وزیراعظم محمد نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر اپنے اس عزم کو دہرایا ہے کہ سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو اگر کوئی خطرہ ہوا تو پاکستان اسکا دفاع کریگا۔ حکومت نے اس حوالے سے فوجی قیادت سے بھی مشاورت کی ہے، دفتر خارجہ میں بھی اس سلسلے میں پیشرفت جاری ہے، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جو بھی فیصلہ ہوا اس پر من و عن عمل کیا جائیگا۔ ایران کو یمن کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
قومی اسمبلی میں سعودی عرب کی مدد کے لئے بلائے گئے اجلاس میں وزیراعظم کا اعلان خوش آئند ہے۔اپوزیشن جماعتیں فوج بھیجنے کی مخالفت کر رہی ہیں انکو بھی سوچنا چاہئے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا۔ہر مشکل کی گھڑی میں سعودی عرب ہراول دستے کا کردار ادا کرتا ہے۔ایک طرف سیاسی جماعتیںاس مسئلہ پر اختلافات کا شکار ہیں تو دوسری جانب مذہبی جماعتوں کی ایک آواز ہے کہ حرمین شریفین کا تحفظ امت مسلمہ پر فرض ہے۔جماعةالدعوة نے پاسبان حرمین شریفین کے نام سے تمام جماعتوں کا ایک اتحاد قائم کرتے ہوئے ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے اس حوالہ سے نو اپریل جمعرات کو فیض آباد سے اسلام آباد پریس کلب کارواں نکالا جائے گا جبکہ اختتام پر بہت بڑا جلسہ ہو گا جس سے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین خطاب کریں گے۔اسلام آباد میں رابطة العالمی الاسلامی کے تحت کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کا موضوع” ”سرزمین حرمین شریفین کی حفاظت کے سلسلہ میں پاکستان کے علماء و مشائخ کا موقف”تھا۔
کانفرنس سے وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے نہ صرف حرمین شریفین کی حفاظت کرنی ہے بلکہ امن بھی قائم کرنا ہے۔ سعودی عرب کا پاکستان کی طرح ہی دفاع کریں گے۔مہمان خصوصی مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کا کہنا تھاکہ حرمین شریفین کی عزت اور حفاظت ہر مسلمان کے دل کی آواز اور وقت کا تقاضا ہے اور یہ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے۔ پاکستان کو اسلامی دنیا میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی بنیاد ہی کلمے کی بنیاد پر رکھی گئی ہے اس لیے ہمارا تعلق سعودی عرب سے اس حوالے سے بھی گہرا ہے کہ وہ حرمین شریفین کے محافظ ہیں۔ ہم سعودی عرب کی پشت پر ہیں اور یہ ہمارے لیے اعزاز ہو گا کہ سعودی عرب کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔
Yemen
پوری دنیا کے مسلمان ایک قوم ہیں لیکن دشمنان اسلام اس میں رخنہ ڈال رہے ہیں۔امیر جماعةا لدعوة پروفیسر حافظ محمد سعید نے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس وقت مسئلہ یمن اور سعودی عرب کا نہیں ہے جو ثالثی کی باتیں کی جارہی ہیں۔یمن میں کاروائی ان باغیوں کے خلاف کی جارہی ہے جنہوں نے ایک منتخب حکومت کو گرایا اور سعودی عرب کے خلاف خطرات کھڑے کئے ہیں۔ اگر پاکستان میں ضرب عضب آپریشن کی حمایت کی جاتی ہے تو پھر حوثی باغیوں کے خلاف کاروائی کی حمایت کیوں نہیں کی جاتی؟دونوں طرف مسئلہ بالکل ایک جیسا ہے۔ حرمین شریفین کا دفاع سعودی عرب کا دفاع ہے۔ امت مسلمہ کو اپنی جان و مال غرضیکہ ہر چیز سے زیادہ اسے پیش نظر رکھ کر حرمین کے دفاع کیلئے کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ ہماری خوش قسمتی اور اعزاز کی بات ہے کہ خادم الحرمین شریفین نے پاکستان سے مدد طلب کی ہے۔ یہ ملک کلمہ طیبہ کے نام پر بنا ہے۔ پاکستانی فوج اور دیگر وسائل حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے استعمال ہونے چاہئیں۔ حرمین شریفین کو اللہ نے مسلمانوں کا روحانی مرکز بنایا ہے۔ اس لئے سعودی عرب کے دفاع کیلئے کردار ادا کرنا ہم سب کا دینی فریضہ ہے۔
اس سلسلہ میں واضح اور دوٹوک موقف ہونا چاہیے۔ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کا حق ادا کیا ہے۔ ہمیں ثالثی کی باتیں کرنے کی بحث میں نہیں پڑنا چاہیے۔ سعودی عرب نے آج تک کبھی کسی پر جارحیت نہیں کی۔ ایسی ایک بھی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ سعودی عرب نے ہمیشہ دنیا کے مسائل کو اپنا سمجھا اور دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوئے ہیں۔ہم سعودی عرب کو اپنا ملک اور وہاں کی حکومت کو اپنی حکومت سمجھتے ہیں۔ ہمیں کھل کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ الگ الگ موقف رکھنے کی بجائے ایک کمیٹی بنانی چاہیے’ سب کے ساتھ رابطے کئے جائیں مختلف آراء نہیں ہونی چاہئیں۔ہمیں ایک آواز اور ایک قوت بن کر حرمین کے تحفظ کا دینی فریضہ ادا کرنا چاہیے۔ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبد الغفور حیدری کا کہنا تھاکہ مسئلے کا پر امن حل چاہتے ہیں تاہم سعودی عرب کے خلاف کسی قسم کی جارحیت ہوئی تو اس کی حفاظت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ سعودی عرب یمن میں جو کاروائی کر رہا ہے وہ وہاں کی قانونی و آئینی حکومت کے مطالبے پر کر رہا ہے اور حوثی باغیوں کے اس اعلان کہ وہ حرمین شریفین پر حملہ کریں گے پوری مسلم دنیا کو اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور ہر مسلمان اس پر اپنا جان و مال قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سعودی عرب صرف ہمارا برادر اسلامی ملک نہیں ہے بلکہ ہمارا محسن ملک ہے جس نے ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا ہے اور پاکستان کے زخمیوں پر مرہم رکھا ہے۔ ہم سعودی عرب کی حفاظت کے لیے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اس بحران کے حل کے لیے وزیراعظم اور حکومت متحرک ہے۔ یہ شیعہ سنی کی لڑائی نہیں بلکہ باغیوں کی سرکوبی ہے۔ اس لڑائی کو شیعہ سنی لڑائی کا نام دینا ایسا ہی ہے جسے دہشت گردی کو مذہب سے جوڑنا۔ یہ عالمی ایجنڈا ہے کہ مسلمان میں فرقہ واریت کو ہوا دی جائے ۔ ہمیں اس سازش کا بھی مقابلہ کرنا ہے اور سعودیہ کے ساتھ بھی کھڑا ہونا ہے۔وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیرامین الحسنات نے کہا کہ سعودی عرب اور اس کے عوام سے ہمیں محبت ہے۔ ہمیں سعودی عرب کے حکمران اور عوام سب سے محبت ہے انہوں نے کہا کہ آج دوستی نبھانے کا وقت آ گیا ہے۔
Saudi Arabia
ہم اﷲ کے نبی کی عظمت اور اپنے بھائیوں کی حفاظت پر مر مٹنے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان نے نہ کبھی پہلے سعودی عرب کاساتھ چھوڑا ہے اور نہ چھوڑے گا۔ سعودی عرب میں صلاحیت ہے کہ وہ ا پنی حفاظت کر سکے لیکن ہم واضح کرتے ہیں کہ اگر اسے ہماری مدد کی ضرورت پڑی تو پیچھے نہیں ہٹیں گے اور سعودی عرب کو فوجی،جانی و مالی ہر طرح کی امداد فراہم کریں گے۔ پاکستان کی تمام مذہبی جماعتوں کے قائدین نے اس موقف کا اعادہ کیا کہ سعودی عرب کا دفاع ہماری ذمہ داری ہے اور یہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے سعودی عرب کی حفاظت کے لیے ڈٹ جائیں۔ آج اگر سعودی عرب آزمائش میں ہے تو ہم سب سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مذہبی جماعتوں کا سعودی عرب کے حوالہ سے کافنرنس میں فیصلے خوش آئند ہیں ۔سیاسی جماعتوں کو بھی چاہئے کہ اتحاد کا راستہ اپنائیں اور متحد ہو کی سعودی عرب کی کھل کر مدد و حمایت کا اعلان کریں۔